اب یہ آدمی پر ہے کہ آبرومندی کے ساتھ خود ہی رخصت ہو یا اسے چلتا کیا جائے ؎
دل کی آزادی شہنشاہی‘ شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم
سپریم کورٹ کا مقدمہ عمران خان جیتیں یا ہاریں‘ اپنا مقدمہ انہوں نے حاصل کر لیا۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی ساکھ مجروح کرنے میں وہ کامیاب رہے۔ ان کے خاندان کی بھی۔ اس قدر کہ اب رفو نہیں ہو سکتی۔ فرض کیجئے‘ مقدمہ میاں صاحبان جیت جاتے ہیں۔ قانونی ظفرمندی کے باوجود یہ ایک ادھوری فتح ہو گی۔ جشن طرب آخرکار وہ کہرام کی طرح مچائیں گے۔ ایک بار شہرت کا درخت سوکھ جائے تو آسانی سے ہرا نہیں ہوتا۔ ایسے میں 2018ء تک وزارت عظمیٰ پر لازماً وہ برقرار رہیں گے لیکن عبرت کی مثال بن کر۔ دھوپ میں رکھی برف کی طرح۔
ہر چیز کی ایک عمر ہوتی ہے۔ یہ سادہ سی بات شریف خاندان اور ان کے فدائین کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی۔ ایک کے بعد دوسرا حادثہ...اور وہ ادراک نہیں کرتے کہ زوال کا زمانہ آ چکا۔ رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے‘ سورج اب ان پر غروب ہوتا جائے گا۔ بالکل اس طرح 1983ء سے 1990ء تک بتدریج جیسے بلند ہوتا گیا‘ حتی کہ زعم کا شکار ہو کر‘ ہر ایک کو وہ حقیر سمجھنے لگے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ‘ ان کے ایک فدائی نے لکھا تھا ؎
تم اتنا اونچا اڑے کہ سنائی دکھائی نہ دیتے تھے
تم اتنا اونچا اڑے کہ پہاڑوں کو ٹیلے سمجھنے لگے
وقت کا تیز رفتار‘ قادر و قہرمان گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہے‘ تو سبھی کوپیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ کوئی اس سے نہیں جیت سکتا۔ جیتنا کیا معنی‘ کبھی اس کا کوئی ہم رکاب ہی نہیں ہوتا۔ میاں صاحب کا حال تو یہ ہے ؎
رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے‘تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
کامیابی کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ غلط فیصلہ آپ صادر کرتے ہیں‘ نقصان آپ کو نہیں پہنچتا۔ ناکامی کا وقت آ پہنچے تو موزوں ترین اقدام بھی تباہی پر منتج ہوتا ہے۔
گورنر سندھ کا انتخاب مثالی تو نہیں‘ غلط بہرحال نہ تھا۔ شریف آدمی ہیں۔ سکینڈل تو کیا بدذوقی کا کوئی واقعہ بھی ان سے منسوب نہیں۔ مثالی انتخاب تو شاید جمیل یوسف ہوتے۔ ایک بار وزیراعظم نے اشارہ بھی انہیں دیا تھا۔ پولیس شہری رابطہ کمیٹی کے سرگرم اور پرجوش قائد کی حیثیت سے‘ اڑھائی سو دہشت گرد انہوں نے گرفتار کرائے تھے۔ نیک نام ہیں‘ بہادر تو ہیں ہی۔ معاملہ فہم اور پڑھے لکھے بھی۔ عملی آدمی ہیں‘ خوش اطوار بھی۔ میاں صاحب کا انداز فکر مگر یہ ہے کہ ہر دوسری چیز پر وفاداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو۔ بایں ہمہ‘ بحیثیت مجموعی میڈیا نے جج صاحب کا خیرمقدم کیا تھا۔ بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ آدمی اونٹ پر بیٹھا ہو اور کتا اسے کاٹ لے۔ ٹھیک تقرر کے وقت‘ وہ بیمار ہوئے اور علالت بڑھتی گئی۔ اب وہ ہسپتال میں پڑے ہیں اور لطیفوں کا عنوان ہیں۔ ایک بیمار آدمی کا تمسخر؟ بری بات ہے۔ اس کا مگر کیا کیجئے کہ مقبولیت حکمران کھو بیٹھے تو خلقِ خدا چوکتی نہیں۔ بیچ میں تجویز یہ آئی کہ نیا آدمی چن لیا جائے۔ ہر لمحہ‘ ہر ساعت وزیراعظم کی تائید کے لیے بیتاب‘ نہال ہاشمی کی امیدوں کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑا۔ افواہیں انہوں نے پھیلانی شروع کر دیں۔ اس پر میاں صاحب بگڑے اور ارشاد کیا کہ جج صاحب کا تقرر‘ ان کا ایک ذاتی فیصلہ ہے۔ نظرثانی کا سوال ہی نہیں۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ معزز آدمی مذاق بن گیا ہے۔ ان سے زیادہ لیکن وزیراعظم ہدف ہیں۔ یہ اقدام سانپ کے منہ میں چھپکلی ہو گیا۔
سرتاج عزیز کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھیجنے کا فیصلہ کچھ ایسا بھی غلط نہ تھا۔ پاکستان کی پالیسی ہے اور یہی ہونی چاہیے کہ برصغیر میں امن کا علم اٹھائے رکھے ‘ پورے خضوع و خشوع کے ساتھ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ توہین کو دعوت دی جائے۔ بے سبب بے عزتی گوارا کی جائے۔ استقبال جب موزوں نہ ہو تو چوکس ہو جانا چاہیے تھا۔ خاک مگر وہ ہوتے۔ بوڑھے آدمی ہیں۔ آموختہ دہرا سکتے ہیں۔ بتائی ہوئی راہ پہ چل سکتے ہیں۔ ذہن حاضر نہیں رہتا کہ غیر متوقع صورتِ حال جنم لے تو حکمت عملی تبدیل کر لیں۔ ان سے غالباً یہ کہا گیا تھا کہ بگاڑ پیدا نہ کریں۔ یہ نہیںکہ بدتمیزی پہ کوئی اتر آئے‘ایک گال پہ تھپڑ رسید کرے تو دوسرا آگے کر دیں۔ سیاست اور سفارت کاری میں متعین شاہراہ پہ چلنا ہوتا ہے۔ اتنا ہی اہم اصول یہ بھی ہے کہ اندازِ فکر میں لچک ہونی چاہیے۔ بیچارے سرتاج عزیز میں کیسے ہو۔ ایک تو بادشاہ کا خوف‘ ثانیاً بڑھاپا کہ حواس بیدار نہیں رہتے۔ نتیجہ جگ ہنسائی اور مخالفین کی طعنہ زنی۔اب حال یہ کہ خرابی اس قدر کہ دفاع کرنے والا بھی کوئی نہیں۔
نسبتاً یہ دو چھوٹے واقعات ہیں۔ سب سے بڑا تماشا خود سپریم کورٹ کا مقدمہ ہے۔ صاحبزادے نے ایک بیان دیا۔ صاحبزادی نے دوسرا اور ان کی والدہ ماجدہ نے تیسرا۔ وزراء کرام کچھ کہتے رہے۔ خاندان والے کچھ اور۔ وزیراعظم نے پہلے خطاب میں کچھ اور ارشاد کیا‘ دوسرے میں بالکل ہی مختلف ہو گئے۔ پہلے یہ دعویٰ کیا کہ دبئی کی آمدن سے‘ سعودی عرب میں کارخانہ کھڑا کیا اور اس کی کمائی سے لندن کی جائیداد خریدی۔ پھر یہ فرمایا کہ دوبئی سے پیسہ قطر منتقل ہوا تھا۔ وہاں سونے کا انڈہ دینے والی مرغیاں خریدی گئیں۔ سونے کے ان انڈوں سے لندن کے مہنگے مکانات۔
پاناما پر موقف اس قدر کمزور تھا کہ خود شریف خاندان تقسیم ہو گیا۔ عملاً اب تک بٹا ہے۔ چیختا چلاتا سکینڈل طلوع ہونے کے بعد‘ تین دن تک شہباز شریف اور ان کے فرزندوں نے دفاع سے گریز کیا‘ حالانکہ کوئی موقع اخبار اور ٹی وی سکرین پر جگمگانے کا وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ محترمہ کلثوم کے بعد‘ سنا ہے کہ لندن میں شہباز شریف کی جائیداد کا انکشاف ہونے والا ہے۔ کیا اسی لئے بھاگ کر وہ برطانیہ پہنچے ہیں۔دبئی اور سوئٹزرلینڈ کے کھاتے بھی سامنے آئیں گے؟
نامرادی کا زمانہ آ پہنچے تو فیصلہ کرنے کی صلاحیت دم توڑ دیتی ہے۔ خطرے کی گھنٹی شہباز شریف اور فرزندوں کے طرزِ عمل نے بجا دی تھی۔ کم از کم وزرائِ کرام کے ریوڑ کو بتا دیا ہوتا کہ ٹیلی ویژن پہ کیا کہنا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ عدالت کافیصلہ قابلِ اعتماد دستاویزات اور قابلِ قبول شواہد کی بنیاد پر ہو گا۔ عوام کی عدالت میں میاں صاحب یہ مقدمہ ہار چکے۔ سیاست میں حقائق سے بڑھ کر اہمیت تاثر کی ہوتی ہے۔ تاثر قائم ہو چکا اور کھرچا نہیں جا سکتا۔ پتھر پہ لکیر نہیں مٹتی اور عوامی اذہان پہ نقش ہو جانے والا تاثر کبھی دھلا نہیں کرتا۔
قطری شہزادے کے جاری کردہ فرمان پہ‘ کراچی سے کافرستان تک‘ ہنسی کی پھوار چھوٹ رہی تھی کہ شاہی خاندان کے شکاری خود پاکستان آ پہنچے۔ اللہ ان پہ رحم کرے اور شریف خاندان پہ بھی۔ دلیل یہ ہے کہ ہر سال وہ شکار کرنے آیا کرتے ہیں۔ پے در پے سیلاب کے پانیوں نے میدان کو دلدل بنا دیا ہو اور کوئی یہ کہے کہ میں تو ہمیشہ یہیں سے گزرا کرتا تھا۔ بھائی‘ میں تو صراطِ مستقیم پہ ہوں۔ دنیا ہی اندھی ہے۔
یونان‘ آئس لینڈ اور اٹلی سمیت کتنے ہی ملکوں کے حکمران گزشتہ چند ماہ کے دوران مستعفی ہو گئے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر‘ چھوٹے چھوٹے اعتراضات پر۔ میاں محمد نوازشریف کے ساتھ کیا مسئلہ ہے کہ ایسی ہولناک جگ ہنسائی کے ہنگام‘ اپنے منصب سے چمٹے رہنے پہ وہ مصر ہیں ؎
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے۔ پاناما سکینڈل سامنے آنے پر‘ پہلے دن ہی میاں صاحب مستعفی ہو جاتے تو ہمدردی اور حمایت کی لہر اٹھتی۔ یہ دنیا جرأت مندوں اور دلاوروں کا ساتھ دیتی ہے۔ بہانے بازوں اور ریت میں سر چھپانے والوں کا نہیں۔
میاں صاحب کا بہترین وقت بیت گیا۔ لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ ان کی ساری سیاسی سپاہ‘ پی ٹی وی سے اسلامی تعلیمات کا تمسخر اڑانے والے مفکر سمیت ‘تمام اخباری شہ سواروں اور تمام حربوں کے باوجود۔ وہی محاورہ : وقت ایک کاٹ دینے والی تلوار ہے۔
کسی کی بادشاہت دائمی نہیں‘ رب ذوالجلال کے سوا‘ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ باقی سب چلے جاتے ہیں۔ اب یہ آدمی پر ہے کہ آبرومندی کے ساتھ خود رخصت ہو یا اسے چلتا کیا جائے ؎
دل کی آزادی شہنشاہی‘ شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم