تجزیے پر، ایک حقیقت پسندانہ، کھرے اور حقیقی تجزیے پر عمل کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ خوف میں کوئی حکمتِ عملی تشکیل پاتی ہے اور نہ مہم جوئی میں۔
عجب اتفاق ہے کہ جب بھی کسی موضوع پر قسط وار لکھنا شروع کیا، عظیم واقعات رونما ہوئے۔ بات تو دہشت گردی کی نئی خوفناک لہر پہ کرنی چاہیے۔ اگرچہ تصدیق نہیں ہو سکی، اطلاع یہ ہے کہ سب سے بڑا ہدف لاہور ہے۔ نسبتاً چھوٹے واقعات شاید توجہ بٹانے کا حربہ ہیں۔ منصوبہ بندی بڑے پارکوں اور ان بڑے سٹوروں کی ہے، جنہیں Mall کہا جاتا ہے۔ بظاہر یہ ہے کہ کامیابیوں کے بعد آسودہ ہو جانے والی قوم کے خلاف بھارتیوں نے از سرِ نو منصوبہ بندی کی۔ عناد کا گہرا جذبہ، پھر ہفتوں نہیں، مہینوں کی محنت ہوا کرتی ہے۔ بھارت اوّل روز سے پاکستان کو تحلیل کرنے کے خواب دیکھتا آیا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارتی کردار کا وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ڈیڑھ سال پہلے ڈھاکہ میں، برملا اعتراف کیا۔ امریکیوں کی اشیرباد سے افغان سرزمین اب ان کے لیے کشادہ ہے۔ افغان قیادت میں بہت سوں نے اپنا مستقبل اور مفادات بھارت سے وابستہ کر لیے ہیں۔ امریکہ بھارت کا تزویراتی حلیف ہے۔ افغانستان کی معیشت جنگی کارروائیوں اور تخریب کاری پہ منحصر ہو چکی۔ کئی افغان لیڈر اب لہو سے لقمے تر کرتے ہیں۔ وسطی ایشیا اور افغانستان کی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے۔ خود اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان میں بھی۔ انگریز، فرانسیسی، پرتگالی، ساری دنیا جب سونے کی چڑیا، گنگا جمنا اور سندھ کے میدانوں پر پل پڑی تھی۔ تمام دنیا سے بھاڑے کے سپاہی یہاں لپکے۔ رنجیت سنگھ کی فوج میں فرانسیسی شامل تھے۔ ابدالی کے مقابل مرہٹوں کے توپ خانے کا نگران ایک مسلمان تھا۔ احمد شاہ ابدالی سے اس نے کہا: میں نے مرہٹوں کا نمک کھایا تھا۔ فاتح نے اتنا نمک اسے کھلایا کہ اس کی مراد پوری ہو گئی... ذلت کی موت!
سانحے سا سانحہ، کوئٹہ میں وکیلوں کی ایک پوری نسل قتل کر دی گئی۔ واضح تھا کہ دہشت کی نئی اور بڑی مہم درپیش ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں قرار لوٹ آیا تھا۔ وزیرستان سے دشمن کا صفایا ہوا یا بھاگ نکلا۔ جنرل کیانی ہمیشہ کہا کرتے، وزیرستان میں آخری اقدام سے پہلے ملک گیر منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کی حیثیت سے افغانستان پر امریکی بمباری کے نتائج بغور انہوں نے دیکھے تھے۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی تورا بورا سے بھاگ کر پاکستان کے قبائلی علاقے میں چلے آئے تھے۔ کور کمانڈر راحیل شریف کا پیش کردہ فلسفہ فوج نے قبول کر لیا تھا کہ اصل حریف ملک کے اندر ہے۔ اس کا مطلب مگر یہ نہ تھا کہ خارجی دشمن نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ بھی نہ تھا کہ ہیجان میں فیصلے ہوں۔
پوری قوم نے جنرل راحیل شریف کی تائید کی۔ سر آنکھوں پہ انہیں بٹھایا۔ بھارت کو انہوں نے للکارا تو قائد کا رتبہ عطا کیا۔ ان کی فوری کامیابیاں قابلِ رشک تھیں۔ بھارت کو للکارنے کے ممکنہ عواقب کو مگر ملحوظ نہ رکھا جا سکا۔ جنگ ایک بہت سنجیدہ عمل ہوتی ہے۔ ایک واقعے سے دوسرا پھوٹتا ہے، عمل سے ردّعمل۔ پوری کی پوری قوم شامل اور بیدار ہو تو رزم آرائی کے تقاضے نبھتے ہیں۔ سول ملٹری تعاون تو ہے ہی لازم۔ ساتھ ساتھ ایک واضح مقصد اور منزل کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ فقیدالمثال انتظامی، سیاسی، علمی اور عسکری جینئس سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو، اس سے ڈرتے رہو۔
طالبِ علم کو یقین ہے کہ دہشت گردی پہ قابو پا لیا جائے گا۔ سر ہتھیلیوں پہ رکھے، وطن کے محافظ بیدار ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ملک ایک آئین رکھتا ہے۔ اس میں مگر شبہ ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت نظریاتی، سیاسی اور انتظامی تقاضوں کا پورا ادراک بھی رکھتی ہے۔ معتدل مزاج اور ثابت قدم اہلِ علم کو آگے بڑھ کر تجاویز پیش کرنی چاہییں۔ رازداری سے اور جب لازم ہو تو اعلانیہ بھی۔
حتی الامکان مزاحمت کے بعد، میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے رینجرز کو مجبوراً گوارا کیا ہے۔ پے در پے حادثات کے بعد۔ 15 مارچ 2010ء کو شیر شاہ سوری دوم کا یہ خطاب آج بھی ویب سائٹوں پہ ہے کہ طالبان پنجاب میں دہشت گردی نہ کریں۔ عسکری قیادت سے عرض کیا کہ خدا کے لیے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کیجیے۔ جمہوریت برحق اور دل و جان سے برحق۔ دفاعی معاملات اور قومی حفاظت کے فریضے میں مگر مصلحت ممکن نہیں ہوتی۔ بتدریج ساری ذمہ داریاں سول اداروں کو سونپ دی جائیں۔ قومی دفاع پر مگر کیا سمجھوتہ؟ تمام تر تعاون کے باوجود سول قیادت فوج پر تحفظات رکھتی ہے۔ وہ بادشاہت کا مطالبہ کرتی ہے اور دائمی طور پر۔ عدالت کو دھمکیاں، اخبار نویس خریدے جا رہے ہیں۔ نیب کے چیئرمین نے سپریم کورٹ میں بدتمیزی کا ارتکاب کیا اور دھڑلے سے۔ سرکاری پارٹی میں رانا ثناء اللہ پائے جاتے ہیں اور ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ نون لیگی رکنِ اسمبلی رانا افضل کا بیان یاد کیجیے کہ جمہوریت کو اگر نقصان پہنچا تو امریکہ پاکستان کا تورا بورا بنا دے گا۔
بھارت کے باب میں سول قیادت کا طرزِ عمل حیران کن ہے۔ پونے چار برس وزیرِ اعظم نواز شریف نے ضائع کر دیے۔ دنیا کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش ہی نہ کیا۔ بھارتی تخریب کاری سے عالمی ضمیر آشنا ہی نہیں تو اس کی تائید کیسے حاصل ہو۔ کشمیر میں تحریک اٹھی اور بے پناہ ہو گئی۔ اسلام آباد والے سوئے رہے۔ ایران سے آیا کلبھوشن یادیو پکڑا گیا۔ بس اتنی سی مذمت کی گئی جتنی کہ مجبوری تھی۔ الطاف حسین ''را‘‘ کے ایجنٹ ثابت ہو گئے تو وزیرِ اعظم نے بے تابی سے فاروق ستار اینڈ کمپنی کو گلے لگا لیا۔ حالانکہ اب بھی ان کا الطاف حسین سے رابطہ ہے۔ ان کا ایک نائب علی الاعلان کہہ چکا کہ لندن اور کراچی کی قیادت ایک ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت میں بعض کاروباریوں کو اربوں کی یافت دکھائی دیتی ہے۔ ملکی معیشت خواہ ڈوب ہی جائے، انہیں اس کی پروا نہیں۔ ان کی حوصلہ شکنی چاہیے اور سختی سے مگر حکمرانوں کے آس پاس وہ دکھائی دیتے ہیں۔ دشمن ملک کے ساتھ تجارت میں 150 ارب روپے کا خسارہ ہے۔ کشمیری اس پر الگ نالاں ہیں۔ اس پر یہ فیاضی کہ بھارتی فلموں کو نمائش کی اجازت دے دی گئی۔
آنکھ کا آپریشن ہوا۔ الحمدللہ پوری طرح کامیاب۔ اس کی روداد لکھنا تھی۔ مگر ماحول سازگار ہے نہ طبیعت یکسو۔ اس معاملے کو اٹھا رکھتے ہیں۔ کسی اور دن، کسی اور ساعت میں۔
آدمی کو عقل و شعور اور فکر و ادراک اس لیے عطا ہوئے کہ صراطِ مستقیم کو پا سکے۔ دنیا میں تضادات، خوف اور حزن سے نجات پائے اور آخرت میں ابدی نعمتوں سے سرفراز ہو... مگر افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔
تجزیے پر، ایک حقیقت پسندانہ، کھرے اور حقیقی تجزیے پر عمل کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ خوف میں کوئی حکمتِ عملی تشکیل پاتی ہے اور نہ مہم جوئی میں۔ (ختم)