پتہ ماری ہمارا شعار نہیں‘ حالانکہ پتہ ماری ہی کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت ہوتی ہے۔
ناروے اور سویڈن کے بعد‘ اب ڈنمارک کا قصد ۔یورپ میں چار پانچ دن کے قیام میں کیا دیکھا اور محسوس کیا؟ فراز سے نشیب تک‘ ایک نظم و ضبط ہے۔ قانون کی پاسداری ہے بلکہ احترام۔ خلق کی حکومتوں کو فکر لاحق رہتی ہے ۔فرض شناسی طرزِ زندگی ہے۔ ترقی کا زینہ تعلیم ہے۔ ذمہ داری کا شعار عام ہے۔ سب سے بڑھ کر احساسِ تحفظ ‘ جو استحکام کی پیداوار ہے۔ وہ استحکام جو امن کے دوام اور باہمی اعتماد میں جنم لیتا ہے۔ آبادی کے مختلف طبقات ‘ ایک دوسرے سے متصادم نہیں بلکہ مددگار ہیں۔ خوش دلی سے سماجی سرگرمیاں انجام دینے والوں کی تعداد بہت ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔ فقط ثروت مندی اور منصب نہیں بلکہ عزت کا انحصار‘ ایثار کے جذبے پر ہے، عوام میں اس کی پذیرائی ہوتی ہے اور اقتدار اس پہ سایہ کرتا ہے۔
''سکون‘‘ نام کی ایک تنظیم نے مدعو کیا۔ یہ Special Children Organization of Norway کا مخفف ہے۔ پاکستانیوں کی قائم کردہ اس انجمن کی ابھی ابتدا ہے۔ مگر‘ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ دائرہ کار اس کا محدود ہے۔ ہاتھ پائوں جن کے حرکت نہیں کر سکتے‘ ان کے لیے پہیے دار کرسیوں Wheel Chairs کا اہتمام۔
2008ء میں اس تنظیم کی رجسٹریشن ہوئی۔ کام کا آغاز مگر 2016ء میں ہوا۔ پورا ایک سال منصوبہ بندی میں بسر ہوا اور اب وہ فراٹے بھرنے کے لیے تیار ہے۔ شاہد جمیل اس کے کرتا دھرتا ہیں۔ تعلق ان کا گوجرانوالہ کے ایک گھرانے سے ہے۔ تعلیم بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پائی ۔ناروے میں‘ جہاں ان کی شادی ہوئی‘ تحصلِ علم کے مزید مدارج طے کئے۔ ٹیکس کے سرکاری محکمے سے وابستہ ہیں۔ غیر معمولی جسمانی اور ذہنی تحرک کے حامل شاہد میں انکسار پایا جاتا ہے مگر اتنی ہی خوش دلی اور اپنائیت۔
اوسلو‘ سٹاک ہوم اور مالمو‘ ان چار دنوں میں 300پہیے دار کرسیوں کے لیے عطیات انہوں نے جمع کر لیے۔ اندازہ یہ ہے کہ موسمِ گرما کے آخر تک پاکستان کے ایک ہزار شہریوں کی مدد وہ کر چکے ہوں گے۔ میری موجودگی میں ناروے میں پاکستانی سفیر محترمہ رفعت مسعود اور سویڈن میں عزت مآب طارق ضمیر سے ان کی ملاقات رہی۔ محترمہ رفعت ''سکون‘‘ کی تقریب میں شامل ہوئیں‘ پاکستانی برادری کا جو ایک بڑا اجتماع تھا۔ سویڈن میں پاکستانی سفیر طارق ضمیر‘ برادرم زمان خان کے گھر پہ تشریف لائے۔ رات گئے تک محفل برپا رہی۔ طالب علمانہ ذوق‘ ادب‘ شاعری‘ فنون ۔ چونکا دینے والے تپاک اور خاکساری کے اس آدمی نے کہا‘ آپ کو اپنے ہاں مدعو کرنے کا ارادہ تھا مگر زمان خان صاحب نے طلب کر لیا۔ سٹاک ہوم کے پاکستانیوں نے بتایا کہ افسرانہ خوبُو اس آدمی کو چھو کر نہیں گزری۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے پرانے دوست ہیں۔ بے تکلفی سے گاہے ''امجد‘‘ کہہ کر ان کا ذکر کرتے تو میں چونک اٹھتا‘ عبدالستار ایدھی کو جیسے ان کا کوئی ہم نفس ''ستار‘‘ کہتا ہو۔
''سکون‘‘ کے ایما پر سکینڈے نیویا کے دورے کی دعوت میاں طارق جاوید نے دی تھی۔ دو ماہ قبل ایک دن ٹیلی فون پر یاد کیا۔ کسی تمہید اور تکلف کے بغیر کہا: ناروے‘ سویڈن‘ سپین‘ ہالینڈ اور ڈنمارک کے پاکستانی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ عام طور پہ معذرت پیش کرتا ہوں۔ پانچ سات دن کے غیاب کا مطلب ہے‘ دفتر سے ایک بڑی بے وفائی۔ ''تھنک ٹینک‘‘ کے نام سے نئے پروگرام کی تیاری تھی۔ اندازہ تھا کہ دو تین ہفتے درکار ہوں گے۔ 5 اپریل کو اوسلو پہنچا تو انکشاف یہ ہوا کہ 7 اپریل سے آغاز کرنا تھا۔ انشاء اللہ اب 14 اپریل سے۔
باغبان پورہ لاہور سے تعلق رکھنے والے میاں طارق جاوید ایک پرانے سیاسی کارکن ہیں‘ زمانۂ طالب علمی سے۔ حضرت مولانا طاہر اشرفی جب مولانا مفتی محمود مرحوم کی جمعیت طلباء اسلام میں نمایاں تھے۔ موصوف کے ذاتی دوست ہیں مگر مزاج اور نظریات یکسر مختلف۔ ایک آدھ قدرِ مشترک بھی ہے ۔ اس کا ذکر سفر نامے کی کسی دوسری قسط میں‘ اگر وہ لکھا جا سکا۔ کبھی ایک اور پارٹی سے وابستہ تھے‘ اب تحریک ِانصاف کے لیڈر ہیں۔ یورپ میں عمران خان کے میڈیا مشیر۔ اب یہ منصب انہیں چھوٹا محسوس ہوتا ہے اور ان کے رفقاء کار کو۔ زیادہ بڑی خدمات نمل یونیورسٹی کے لیے انجام دی ہیں‘ دردِ دل رکھنے والے ممتاز صنعت کار عبدالرزاق دائود بھی‘ جس سے وابستہ ہیں۔ عمران خان کی خواہرِ محترم‘ علینہ خان بھی۔ برسوں سے یورپ سے عطیات جمع کرنے کی مہم انہی کے سپرد ہے۔
ایک آدھ دن ہی میں کھل جاتا ہے کہ یورپ کے پاکستانیوں کی اکثریت‘ کپتان پر فدا ہے۔ یہ محض اس کی کرشماتی شخصیت کا ثمر نہیں۔ دو عوامل اور بھی ہیں۔ مالی معاملات میں دیانت داری اور عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگی کا شعور۔ جناب آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف انہیں قدامت پسند دکھائی دیتے ہیں۔ بڑے بوڑھے بہت کم‘ سیاست سے شغف نوجوانوں کو ہے۔ طالب علم‘ ڈاکٹر‘ اور انجینئر ‘دکاندار‘ ٹیکسی ڈرائیور اور پاکستانی ریستوران چلانے والے بھی ۔ مثلاً اوسلو میں فری لانس فوٹو گرافر شاہ رخ اور کئی عدد ریستوران چلانے محمد شمعون۔ جذبات کی رو میں بہتے ہوئے‘ بحث کے ہنگام‘ ان کی آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہیں۔ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے وہ بے تاب ہیں۔ اگر یہ رونما نہ ہو سکا تو بعید نہیں کہ گہری مایوسی میں بغاوت کی طرف وہ مائل ہو جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ناراض ہو کر بتدریج عدم تعلق کا شکار۔ عمران خان سمندر پار پاکستانیوں کو اپنے وطن سے جوڑنے کا ذریعہ ہیں۔
ہر کہیں ایک سوال انہوں نے پوچھا: اگلا الیکشن کیا کپتان جیت جائے گا؟ ہر کہیں آموختے کی طرح میں نے دہرایا: اگر پارٹی کی تنظیم وہ بہتر بنا سکے‘ اگر موزوں امیدواروں کو بروقت وہ ٹکٹ دے سکے۔ اپوزیشن لیڈر کی بجائے اگر وہ حکمران دکھائی دینے لگے۔ عسکری قیادت اور کاروباری طبقات کے علاوہ‘ دوست ممالک‘ چین‘ ترکی‘ عرب ریاستوں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے تعلقات کار قائم کرتے نظر آئے۔ پنجاب سے پہلے اگر باور کرا سکے کہ کاروبار کے لیے موزوں حالات پیدا کرنے کی ضمانت دے گا۔ اگر پاکستان ریلوے‘ پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل مل‘ واپڈا‘ افسر شاہی‘ عدلیہ‘ پولیس‘ زراعت‘ گیس اور بجلی کی پیداوار کے لیے قابل عمل منصوبے واشگاف کرے۔ سارا وقت ٹی وی اور ایجی ٹیشن میں برباد کرنے کے بجائے‘ عملی سیاست پر توجہ دے۔ ٹی وی میزبانوں کے ساتھ وقت ضائع نہ کرے۔ الیکشن 2018ء کے لیے ہزاروں کی تعداد میں‘ سمندر پار پاکستانی‘ اپنے وطن پہنچیں گے۔ تحریکِ انصاف ابھی سے منصوبہ بندی کرے تو ان کی خدمات‘ پانسہ پلٹنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ کیا پی ٹی آئی کی لیڈرشپ یہ صلاحیت رکھتی ہے؟ صاف الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ برائے نام ہی۔
اس کی پارٹی کپتان کے لیے حصولِ اقتدار کا پلیٹ فارم ہے Jumping Pad....۔ کارکنوں کی تربیت اور تنظیم سازی سے کوئی دلچسپی اسے نہیں۔ موقعہ پرستوں نے اسے گھیر رکھا ہے۔ ذہن اس کا غیر سیاسی ہے اور مشیر ناقص۔ اس کا اور اس کے حواریوں کا بہت سا وقت نواز شریف کی غیبت و مذمت اور خود ستائی میں بیت جاتا ہے۔
پتہ ماری ہمارا شعار نہیں‘ حالانکہ پتہ ماری ہی کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت ہوتی ہے۔