زندہ رہنے اور بروئے کار آنے کے لیے معاشروں کو امید کی مشعل درکار ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ مشعل جلا دی ہے۔ کیا عجب ہے کہ چراغ سے چراغ جلے اور بالآخر چراغاں ہو جائے۔
اندازے کے عین مطابق، نہال ہاشمی کی سزا پر ردّعمل دو طرح کے ہیں۔ ایک یہ کہ سزا کم ہے۔ اس شخص کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے تھا۔ دوسرا وہی جو ڈاکٹر شاہد مسعود کی افسانہ طرازی پر تھا... اور یہ بہت دلچسپ ہے۔ مثلاً یہ کہ سینیٹر کی سزا پہ جو شادماںہیں‘ جنرل مشرف کے احتساب کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے، وغیرہ وغیرہ۔ گیلپ والے اگر سروے کریں تو تعداد کا تعین ہو سکے گا۔ وہ بالکل نہیں کریں گے۔ کریں تو نتیجہ شاید جاری نہ کریں، الّا یہ کہ اکثریت (ن) لیگ کی حامی نکلے‘ جس کا امکان بہرحال بہت کم ہے۔ نواز شریف مقبول ہیں مگر عدلیہ پر اعتبار ان سے زیادہ ہے۔ اور دہشت گردی کے مقابل ڈٹی ہوئی فوج اور بھی کئی گنا زیادہ مقبول۔ کارگہِ حیات میں ہر طوفان کے مقابل ایک طوفان ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ کی مخلوق بے موت ماری جاتی۔ نواز شریف ایک پارٹی اور دو اداروں کو نہیں بلکہ قدرت کے ایک عظیم اصول کو ریزہ ریزہ کرنے کے آرزو مند ہیں۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہو گا۔ زمین و آسمان اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں مگر اللہ کا قانون نہیں بدل سکتا۔
1995ء کے موسمِ خزاں میں اسلام آباد کی چند ممتاز شخصیات کو عمران خان سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا۔ ان میں گیلپ کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی بھی شامل تھے۔ یوں تو وہ ایک مہذب اور نیک نام آدمی ہیں مگر ان کا دل جاتی امرا میں اٹکا ہوا ہے۔ چند دن بعد ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان کا ردّعمل یہ تھا: وہ اپنا وقت ضائع کرے گا اور قوم کا بھی۔
عمران خاں کی حماقتوں میں کلام نہیں۔ ٹھیک اس وقت، جب تحریکِ انصاف کا طیارہ فضا میں بلند ہونے کے لیے تیار ہوتا ہے، وہ پہاڑ ایسی کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ باایں ہمہ، اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ آج کی پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا چیلنج وہی ہے۔ نواز شریف کتنا ہی چیخیں چلّائیں، آخر کو صدا بہ صحرا ہو ں گے۔ چوتھی بار تبھی وزیراعظم بن سکتے ہیں اگر تمام مخالف سیاسی قوتیں، عدلیہ اور پاک افواج دریا برد کر دی جائیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے، اپنی مجبوریوں کے تحت ان دنوں وہ (ن) لیگ کے سامنے صف آرا ہے۔ زرداری صاحب کا اگر بس چلے تو فوراً جاتی امرا جا پہنچیں۔
بہت سے متحارب لشکر ایک ہی وقت میں گرد اڑا رہے ہوں تو منظر دھندلا جاتے ہیں۔ حقیقت ورنہ یہی ہے کہ 2006ء کے لندن میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے طے کر لیا تھا کہ فوجی حکومت سے چھٹکارا پاکر باری باری دونوں اقتدار کے مزے لوٹا کریں۔ 12 اکتوبر 1999ء کے فوراً بعد یہ خیال پیش کیا گیا تھا لیکن اسے متشکل ہونے میں سات برس لگے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان نفرت کی دیوار اتنی اونچی تھی کہ پھلانگنے کی خواہش کے باوجود میاں صاحب اسے پھلانگ سکے اور نہ محترمہ بے نظیر بھٹو۔
نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم نے کوشش کی اور ایک حد تک یہ کوشش کامیاب رہی مگر اصل کھیل امریکیوں نے کھیلا۔ پاکستان کو منحصر اور محتاج رکھنے پر تلے ہوئے امریکی ہمیشہ کی طرح باریک بینی سے پاکستان کی صورتِ حال کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس کاروبار میں سی آئی اے ہمیشہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس سے تعاون کی طلبگار ہوتی ہے، برصغیر کے باب میں، جس کا تجربہ طویل اور گہرا ہے۔ 2005ء میں آخرکار امریکیوں نے یہ ذمہ داری برطانوی وزارتِ خارجہ کو سونپ دی۔ باقی تاریخ ہے۔
عمران خاں اب سیاست کے میدان میں تھے لیکن یہ ان کے لیے دلدل تھا۔ شوکت خانم ہسپتال کا معمار مقبول بہت تھا لیکن سیاسی حرکیات سے نابلد اور ناقص مشیروں میں گھرا ہوا۔ آکسفرڈ میں پولیٹیکل سائنس کی تعلیم بھی اسے سیاست کے پیچ و خم کا ادراک عطا کرنے میں ناکام رہی۔ مردم شناسی اس میں کبھی تھی ہی نہیں۔ 22 سالہ تجربے کے باوجود آج بھی وہ کسی ڈاکو کو ولی اللہ سمجھ سکتا ہے۔ ایک آدھ نہیں، اس کے دفتر اور گھر میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایک سے زیادہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ مشورہ اسے دیا گیا تھا کہ اپنے دفتر میں کسی تیز نگاہ‘ لائق نگراں کا تقرر کرے۔ سیف اللہ نیازی، صداقت عباسی اورعامر کیانی قسم کے لوگوں سے‘ جو اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔ 2013ء کے الیکشن سے چھ ماہ قبل اسے بتا دیا گیا تھا کہ سیف اللہ مشکوک ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا ہتھ ٹوکا صداقت عباسی بھی۔ آخرکار ان دونوں سے تو اس نے نجات پا لی کہ بالکل ہی بے نقاب ہو گئے تھے۔ عامر کیانی اب بھی وہیں ہے اور یاللعجب شمالی پنجاب کا منتظمِ اعلیٰ۔ جیسا کہ ایک بار پہلے عرض کیا تھا، تاوان کی طرح وہ چندہ وصول کرتا ہے۔ اس منصب پہ اگر وہ براجمان رہا، ٹکٹوں کی تقسیم میں اگر اس کا عمل دخل ہوا تو بہار اور برسات کے باوجود شمال میں تحریکِ انصاف کی شاخ ہری نہ ہو سکے گی۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اب کی بار امیدواروں کے انتخاب میں ایسے لوگوں کا مشورہ بھی شامل ہے جو مخلص ہیں، سنجیدہ اور باصلاحیت بھی۔ اب کی بار نقصان کم ہو گا۔ یہ تو مگر ممکن ہی نہیں کہ خان صاحب اپنی پسند اور ناپسند استعمال نہ کریں۔ زیادہ نہیں تو پانچ دس فیصد ٹکٹ ناقص امیدواروں کو لازماً دیں گے۔ اس لیے کہ اردگرد خوشامدیوں کا جھرمٹ رہتا ہے۔ جس طرح کے تمام دوسرے لیڈروں کے آس پاس۔ ستارے چاند کے ساتھ چمکتے ہیں اور سیاست کی ضیاء میں اپنے حصے کی داد وصول کرتے ہیں۔
بندوں کا نہیں، یہ اللہ کا کلام ہے۔ قرآنِ کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں، جس کے سب مفاہیم قاری پہ روشن ہو جائیں۔ ہو جائیں تو وہی عارف ہوتا ہے اور وہی مردِ کامل۔ قرآن کی اہم ترین آیات میں سے ایک یہ ہے ''اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ نے ملک کو برباد کیا۔ اور بھی برباد کرتا لیکن دو بالکل عجیب واقعات رونما ہوئے، جن کی کوئی امید نہ رکھتا تھا۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر نے میڈیا کو ایسی آزادی بخش دی کہ کوئی چیز اب راز نہیں رہ سکتی۔ پنجاب اور مرکز کے خزانے سے اربوں روپے لٹانے کے باوجود، نواز شریف کو اب دیانت دار ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ثانیاً نئی نسل میں عمران خان کی حیرت انگیز مقبولیت، جو کرپشن، لوٹ مار اور بدانتظامی سے تنگ آ چکی۔ جو اس فرسودہ نظام کو دفن کر دینا چاہتی ہے۔
عمران خاں کی سیاسی صلاحیت کتنی ہی کم ہو مگر بدعنوان وہ بالکل نہیں۔ مغرب میں اپنے طویل قیام کی وجہ سے وہ جانتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مستقبل کا انحصار سول اداروں پر ہوتا ہے۔ آخرکار یہ پولیس، عدلیہ اور سول سروس ہی ہوتی ہے، قانون کے دائرے میں مکمل آزادی کے ساتھ جو امن اور استحکام عطا کر سکتی ہے۔
جمعرات کا فیصلہ امید کی کرن ہے۔ عدالت کو دھمکیاں دینے پر نہال ہاشمی سزا یاب ہو سکتے ہیں تو مریم نواز اور ان کے والدِ گرامی کیوں نہیں۔ مقابلہ دو پارٹیوں میں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ نواز شریف عدلیہ، افواج اور مخالفین کو اس نوجوان کی طرح کچل ڈالیں، جی ٹی روڈ پر جو ان کی زد میں آ گیا تھا۔ دعا یہ بھی ہے کہ شہباز شریف بچ نکلیں۔ (ن) لیگ فنا کے گھاٹ نہ اتر جائے۔ صحت مند سیاسی عمل کا امکان تمام نہ ہو جائے۔
زندہ رہنے اور بروئے کار آنے کے لیے معاشروں کو امید کی مشعل درکار ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ مشعل جلا دی ہے۔ کیا عجب ہے کہ چراغ سے چراغ جلے اور بالآخر چراغاں ہو جائے۔