تاریخ کا سبق یہ ہے کہ دشنام آرا لشکروں میں فاتح کوئی نہیں ہوتا۔ سارے مفتوح، سارے پسماندہ اور پامال۔ آخر کو سبھی خاک آلود ۔ آخر کو بس زخم رہ جاتے ہیں اور پچھتاوا۔ سچ پوچھیے تو پچھتاوا بھی نعمت ہے ۔ بعض کو وہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔
کبھی شائستگی کے وہ پیکر یاد آتے ہیں۔ تیس پینتیس برس نواب زادہ نصراللہ خاں سے ملاقات رہی۔ کبھی ایک ادنیٰ لفظ ان کی زبان سے نہ سنا۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی تھے، جن کے بارے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کہا تھا : انہوں نے اردو زبان کو شائستگی عطا کی ۔ ابتلا و آزمائش سے گزرتا ہے تو آدمی کا پتہ چلتا ہے ۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو ابتدا ہی سے مخاصمت کا سامنا رہا ۔ کوئی الزام ایسا نہیں ، جو ان پر عائد نہ کیا گیا ہو ۔ کانگرس کی ہمنوائی پر مولانا حسین احمد مدنی اور دوسرے دیو بندی اکابر سے انہوں نے اختلاف کیا تو یلغار کی زد میں آئے ۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد بعض مسلم لیگیوں کی طرف سے بھی ، جب حکومت پہ تنقید کی ۔ بے باک مدیر حمید نظامی ان میں پیش پیش تھے۔
اغلباً یہ 1944ء تھا ، جب وہ اسلامیہ پارک لاہور میں مقیم تھے۔ جواں سال حمید نظامی ان سے ملنے گئے تو کہا: ابوالکلام آزاد مدینہ منورہ میں پیدائش اور ایک بہت جیّد خاندان سے تعلق کا دعویٰ رکھتے ہیں ۔ میں نے تحقیق کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ اعظم گڑھ کے حجام ہیں ۔ سیّد صاحب خاموش رہے ۔ جب وہ تشریف لے گئے تو صرف اتنا کہا: یہ اندازِ فکر زیبا نہیں ۔ ان صاحب کو معلوم نہیں کہ خود ان کے باب میں مخالفین کیا کہتے ہیں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں حمید نظامی اس دنیا سے اٹھے تو ملک بھر میں ان کا سوگ منایا گیا۔ اس کے باوجود کہ رشتہ مخاصمت کا تھا ، مجید نظامی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی درخواست کی ۔ دونوں طرف کے تحفظات اس کے بعد بھی باقی رہے ۔ کئی امور پر، اللہ ان کی مغفرت کرے ، مجید نظامی بھی جماعتِ اسلامی کے نقطۂ نظر کو مسترد کرتے لیکن ربط برقرار رہا ، نامہ و پیام باقی رہا ۔ آمریت کے خلاف جماعتِ اسلامی کی جدوجہد پران کا اخبار کبھی ان کی تحسین بھی کرتا۔
تحریکِ پاکستان کے باب میں سید ابوالاعلیٰ مودودی تقریباً غیر جانبدار بلکہ لا تعلق رہے؛ اگرچہ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قیامِ پاکستان کے حق میں رائے دی ۔ لیگیوں نے اس پر انہیں معاف نہ کیا۔ جماعتِ اسلامی کی پہلی نسل بھی قائدِ اعظم کی قائل نہ ہو سکی۔
انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ، اختلاف فطری ہے ۔ کبھی یہ زیادہ شدت سے بروئے کار آتا ہے ۔ انسانوں کی اکثریت حقیقی علمی تجزیے پر قادر نہیں ہوتی۔ اس کا ردّ عمل پسند اور نا پسند کے دائروں میں ابھرتا ہے ۔ کبھی کبھی تو پڑھے لکھے لوگ بھی اس روش کا شکار ہوتے ہیں ۔ ماحول سے اخذ کردہ تعصبات سے رہائی خال خال ہی ہوتی ہے۔
مشاہدہ یہ ہے اور تاریخ شہادت دیتی ہے کہ جذبات بھڑکتے ہیں تو بد گمانی راہ پاتی ہے ۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے : تم میں سے بعض ، بعض کے دشمن ہوں گے ۔ آدمی خوف ، بھوک اور جانوں کے نقصان سے آزمایا جاتا ہے ۔ اولاد اور مال کی محبت سے‘ لیکن مستقل طور پر اس کا ایک امتحان محاذ آرائی میں بھی ہوتا ہے ۔ اس میدان میں جو لوگ عالی ظرفی کا مظاہرہ کریں ، وہی نجیب کہلانے کے مستحق ہیں ۔ پھر حسد ایک فطری جذبہ ہے ۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ ہر صاحبِ نعمت سے حسد کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ جس سے حسد کیا جائے گا، نعمت اس کے لیے بڑھا دی جائے گی ۔ کوئی نہیں ہے، کارگہ حیات میں کوئی نہیں، جو اس میں آزمایا نہ گیا ہو ۔ ایک عجیب حیرت سے عبقری اسد اللہ خاں غالبؔ نے کہا تھا
یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہوں میں
اور یہ بھی اردو زبان کا نیا اسلوب تراشنے والے اسی نابغہ نے کہا تھا
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
بات جب ذاتیات پہ آتی ہے تو کوئی حد باقی نہیں رہتی ۔ حریف کو تباہ کرنے کی وحشیانہ خواہش الزام تراشی پہ اکساتی ہے ۔ 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں سوشلزم اور اس کے مخالفین میں صف آرائی نے بڑی حدّت پیدا کی ۔ جلسہ گاہیں اور کوچہ و بازار ہی نہیں ، تعلیمی ادارے بھی زد میں آئے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں طالبِ علموں کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوتے ۔ دونوں طرف سے نعرے بازی کا مقابلہ ہوتا ''ایشیا سبز ہے ‘‘ اور ''ایشیا سرخ ہے‘‘۔ دیر تک فضا جوانی کے جذبوں سے دہکتی آہوں سے بھری رہتی ۔ جیسا کہ اس دور کا ایک مشہور متفنی طالب علم لیاقت علی کہا کرتا: بعد میں معلوم ہوا کہ ایشیا سبز ہے اور نہ سرخ ، ناتوانی سے اس کا رنگ زرد ہے ۔ جہالت، جاگیر داری، جذباتیت اور استعمار کے مارے ہوئے معاشرے ، جس کے دانشور اور رہنما عصری صداقتوں کا شعور رکھتے تھے اور نہ تاریخی دانش سے بہرہ ور۔ جن کے پیروکار باہم الجھتے رہتے اور اقوام کی توانائیاں برباد ہوتی چلی جاتیں ۔ 1967ء کے بعد اگلے پندرہ بیس برس میں سوشلزم اور اسلامی نظام کی بحث میں دونوں فریق انتہا پسندی کا شکار رہے ۔ سوشلزم کے حامیوں کو ''سرخے‘‘ اور کبھی کبھی تو کافر کہا جاتا ۔ مخالفین کو امریکی ایجنٹ قرار دیا جاتا۔ یاد ہے کہ پرویز رشید نواز شریف سے وابستہ ہونے کے لیے پر تول رہے تھے ۔ اتفاقاً ملاقات ہوئی ۔ اتفاقاً ہی قریشی برادران کا تذکرہ ہوا تو چھوٹتے ہی بولے : کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ وہ سی آئی اے کے کارندے ہیں ۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی کا جرم یہ تھا کہ ان کے جرائد میں سوشلزم اور سوشلسٹوں پر تنقید کی جاتی۔
کٹھ ملائوں کے علاوہ ، جو معاف کرنا جانتے ہی نہیں، مولانا مودودی بائیں بازو کا سب سے بڑا ہدف تھے ۔ ہر الزام ان پہ روا تھا۔ نواب زادہ نصر اللہ خان بھی قابلِ معافی نہ تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کا جرم روا رکھتے ۔ جواب میں جماعتِ اسلامی والے بھی کبھی حد سے گزر جاتے۔ دائیں بازو کے بعض لوگوں نے بھٹو کی والدہ محترمہ کے بارے میں زبانِ طعن دراز کی؛ حالانکہ وہ ایک نہایت ہی ہمدرد ، غریب پرور گھریلو خاتون تھیں۔ فضا آلودگی سے بھر جاتی تو نواب زادہ نصر اللہ کبھی یہ شعر پڑھا کرتے
لگے منہ بھی چڑانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا
عاقبت نا اندیش سوشلسٹ اور اسلامی نظام کے یہ علم بردار گروہ آخر کار ہلکان ہو کر گر پڑے ۔ اپنے زخم چاٹتے رہے۔ پسماندگان اب نون لیگ کا حصہ ہیں یا تحریکِ انصاف کا۔ بچے کھچے پیپلز پارٹی میں۔ وقت نے انہیں آئینہ دکھا دیا۔ معلوم نہیں، کتنوں کو خود پر غور کرنے کی فرصت ملی۔ کسی دل میں تاسف ابھرا یا نہیں۔ کسی نے اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس کی یا نہیں۔ وقت کا پہیہ انہیں روند کر گزر گیا۔
تین چار عشرے قبل جیسی محاذ آرائی بھٹو اور ان کے مخالفین، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کے حریفوں میں تھی، آج پی ٹی آئی اور مد مقابل قوتوں میں ہے۔ وہی تلخ لہجہ ، وہی طعنہ زنی، وہی بد زبانی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ دشنام آرا لشکروں میں فاتح کوئی نہیں ہوتا۔ سارے مفتوح ، سارے پسماندہ اور پامال۔ آخر کو سبھی خاک آلود ۔ آخر کو بس زخم رہ جاتے ہیں اور پچھتاوا ۔ سچ پوچھیے تو پچھتاوا بھی نعمت ہے ۔ بعض کو وہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔