"HJC" (space) message & send to 7575

دفاعی پالیسی کی بنیاد

بعض حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ عسکریت پسندی سمیت پاکستان کے بہت سے مسائل اس وجہ سے ہیں کہ یہ ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ لیکن دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جو سکیورٹی سٹیٹ نہیں ہے۔ ہر ملک نے اپنی حفاظت کے لئے کم یا زیادہ افواج اور دفاعی ساز و سامان رکھا ہُوا ہے۔ ہر ملک کا ایک نیشنلزم ہے اور اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51 کے تحت ہر ملک کو اپنے دفاع کا پورا اختیار ہے۔ دفاعی ساز و سامان کی مقدار اور نوعیت کا دار و مدار بھی اس بات پر ہوتا ہے کہ اس ملک کو کس قسم کے بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ لیکن پاکستان پر سکیورٹی سٹیٹ ہونے کا الزام اس وجہ سے لگتا ہے کہ یہاں طویل المدت مارشل لاء اور فوجی اقتدار قائم رہا۔ مگر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بے شمار ممالک میں امریکہ کی حمایت یافتہ فوجی آمریتیں کئی کئی عشروں تک قائم رہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ لیکن وہاں اس قسم کی عسکریت پسندی نے جنم نہیں لیا جس سے پاکستان دو چار ہے۔ پاکستان کا معاملہ دوسروں سے مختلف تب ہُوا جب اس کی دفاعی پالیسی کو مذہب کی ایک مخصوص تشریح کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ۔ ریاستی امور میں بہت اہم حیثیت دفاعی پالیسی کو حاصل ہے۔ چنانچہ خواہ پاکستان کی اکثریت مسلمان تھی، پاکستان کی دفاعی پالیسی کو کسی مخصوص مذہب سے وابستہ کرنے کے بجائے، پاکستانی قوم پرستی (نیشنلزم )کی بنیاد پر پروان چڑھنا چاہیے تھا۔ لیکن اُس وقت اینگلو امریکی سامراج کمیونسٹ بلاک یعنی چین اور روس کی حصار بندی کے لئے دفاعی معاہدوں کی جو زنجیر کھینچ رہا تھا، پاکستان کی ملٹری سول بیورو کریسی بہت جلد اس کا حصّہ بن گئی۔ نظریہ ٹرومین (Truman Doctrine) کے مطابق مذہب کو بھی اس حصار بندی میں استعمال کیا جانا تھا۔ اس لئے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اینگلو امریکی دفاعی منصوبوں کی راہ ہموار کرنے کے لئے اسلامستان کی تجویز دے کر چوہدری خلیق الزمان کو مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک میں بھیجا لیکن وہاں اس تجویز کی پزیرائی نہ ہوسکی۔ تاہم 1954ء میں اینگلو امریکی سامراج معاہدہ بغداد کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ جو بعد میںسینٹو کہلایا۔ پاکستان سینٹو کے علاوہ جنوب مشرقی ممالک کے اینگلو امریکی دفاعی معاہدے سیٹو کا بھی رکن بنا۔ اور پھر ’’کافر‘‘ کمیونسٹ بلاک کے خلاف فرنٹ لائن ریاست کی حیثیت سے امریکی دفاعی نظام کا حصّہ بنا رہایہاں تک کہ1970ء کے عشرہ کے اواخر میںافغان جہاد میں کود پڑا۔ ریگولر افواج کے علاوہ بیرونی لوگوں کو جہاد کے نام پر اپنی دفاعی حکمت عملی میں شامل کرنے کا پہلا مظاہرہ 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر کیا گیا تھا لیکن بڑے پیمانے پر یہ کام اس وقت ہُوا جب افغان جہاد کے دوران دنیا بھر کے ’جہادیوں‘ پر ملک کی سرحدیں کھول دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ امریکہ اور سعودی عرب نے دنیا بھر سے جہادیوں کو بھرتی کیا اور پھر وہ مستقلاً ہماری دفاعی پالیسی کا حصّہ بن گئے۔ دفاعی پالیسی کی بنیاد جغرافیائی سرحدوں کے بجائے ’نظریاتی سرحدوں ‘پر رکھ دی گئی۔ یہ دفاعی پالیسی نہ صرف قائداعظم کے افکار کے برعکس تھی بلکہ علامہ اقبال کے دفاعی نظریے کے بھی منافی تھی۔ الٰہ آباد میں 1930ء کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے تاریخی صدارتی خطبہ میں اقبال نے فرمایا ’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیر جانبدار بری اور بحری فوجوں کو قائم کرنے کے لیے بخوشی تیار ہو جائیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غیر جانبدار فوجی طاقت مغلیہ دور حکومت میں موجود تھی۔ اکبر کے زمانہ میں ان تمام سرحدی فوجوں کے افسرہندو تھے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیر جانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی حب الوطنی میں اضافہ ہوگا۔‘‘ جس قسم کے نام نہاد جہاد کا مظاہرہ گزشتہ تین عشروں میںکیا گیا ہے کہ دنیا بھر سے مذہبی انتہا پسندوں کوبھر تی کر کے یہاں لایا گیا اور انہیں ہر قسم کے جدیداسلحہ سے لیس کر کے ہمسایہ ملک میں داخل کر دیا گیا ، اس قسم کے جہاد کا کوئی ماڈل مسلمانوں کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں قرونِ اولی ٰکے توسیع کے دور کے بعد جب باقاعدہ سلطنتیں وجود میں آگئیں تو پھر مسلمانوں نے جو بھی جنگیں کیں خواہ وہ دفاعی تھیں یا توسیع سلطنت کی تھیں، انہیں معمول کی جنگیں قرار دیا گیا۔ قرونِ وسطیٰ کے مسلمان مؤرخین نے ان جنگوں کے لیے جہاد کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ یہاںتک کہ بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں یورپ کے عیسائی بادشاہوں اور کلیسا ئوں نے شام اور مصر پر حملہ کیا اور یروشلم پر قبضہ کیا تو ان کے نزدیک تو وہ کروسیڈیا مقدس صلیبی جنگیں تھیں لیکن اِدھر نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے انہیں اپنی شام و مصر کی سلطنتوں پر کسی بیرونی حملہ کے طور پر لیا اور اس کا دلیری سے دفاع کرتے ہوئے بالآخر اُنہیں شکست سے دو چار کیا۔ بغداد سے کسی عباسی خلیفہ نے اسے عالم اسلام پر عالم عیسائیت کا حملہ قرار دیتے ہوئے جہاد کا فتویٰ صادر نہیں کیا اور نہ ہی دوسرے مسلمان ملکوں سے جہادیوں نے آکر ان جنگوں میں حصّہ لیا۔ ابنِ خلدون سمیت تمام معروف مسلمان مؤرخین نے ان جنگوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کے لئے جہاد کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ انہیں حروب الافرنج کہا گیا یعنی فرنگیوں کے ساتھ جنگیں۔ ایسا ہی معاملہ تاتاریوں کی یلغار کے دوران پیش آیا جب خود عباسی خلیفہ بغداد نے چنگیز خاں کو وسط ایشیاء کے مسلمان فرماں روا محمد خوارزم شاہ پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ ان جنگوں کا احوال بیان کرتے ہوئے بھی اُس وقت کے ہم عصر معتبر مسلمان مؤرخین جہاد کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ نہ ہی عالم اسلام سے جہادیوں نے جمع ہو کر ان کا مقابلہ کیا بلکہ ہر شہر میں فرقہ واریت اور خونریزی جاری تھی۔ ایک فرقہ دوسرے کو کافر قرار دے رہا تھا اور باہم دست و گریباں تھا۔تاتاریوں نے اس نفاق سے بہت فائدہ اُٹھایا تھا۔ پاک فوج کے عسکری ترجمان کا حالیہ بیان خوش آئند ہے کہ مسلح افواج کا لشکرِ جھنگوی سمیت کسی عسکری تنظیم کے ساتھ رابطہ نہیں ہے۔لیکن محض یہ کافی نہیں ہو گا۔کیونکہ کئی عشروں پر محیط ایک مخصوص سوچ خود مسلح افواج کے اندر اور باہر پروان چڑھائی گئی ہے جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں ہر سطح پر عدم برداشت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا زہر سرایت کر گیا ہے۔اس مخصوص اندازِ فکر میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ خوو جی ایچ کیو پر حملہ، مہران بیس پر حملہ اور کامرہ بیس پر حملہ کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ کاروائیاں اندرونی حمایتیوں کی مدد سے انجام دی گئی تھیں۔ جب غیر سرکاری تنظیمیں، دفاعی نظام کا حصّہ بن کر اسلحہ سے لیس ہوگئیں تو پھر وہ کسی کے قابو میں نہیں رہیں۔ پاکستان کو اپنی دفاعی پالیسی پر نظرثانی کر کے اس کی بنیاد صرف قوم پرستی (Nationalism)پر رکھنی چاہیے اور اپنی جغرافیائی سرحدوں تک محدود رکھتے ہوئے مضبوط دفاعی صلاحیت پر انحصار کرنا چاہئے۔ ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کو اس بارے میں اہم فیصلہ کرنا ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں