"HJC" (space) message & send to 7575

کیا انتخابات ہائی جیک ہو چکے؟

قریباً دو ماہ قبل تحریک طالبان پاکستان نے پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو ان کے انتخابی جلسوں جلوسوں پر حملوں کی واضح الفاظ میں دھمکی دی تھی۔ اُسی زمانے میں پاکستانی طالبان کے رہنمائوں کی جانب سے نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور منور حسن کی گارنٹی کی بنیاد پر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس پس منظر میں پنجاب میں روائتی طور پر انتخابی جلسے جلوس کرنے میں پیش پیش پیپلز پارٹی انتخابی مہم کے منظر سے غائب ہوگئی۔ خیبرپختون خوا میں یوں تو ایک عرصہ سے اے این پی کے رہنمائوں اور کارکنوں کو چن چن کر مارا جارہا تھا لیکن انتخابی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی پشاور اور دوسرے شہروں میں اے این پی کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی میں بہت تیزی آگئی۔ ادھر کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور انتخابی دفاتر پر بھی مسلح حملہ ہوئے جس کے بعد قائدِ تحریک کی ہدایت پر تمام دفاتر بند کر دیئے گئے۔ طالبان کی دھمکیاں حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ چنانچہ ان تینوں سیاسی پارٹیوں کے اس دعوے میں بھی حقیقت آگئی ہے کہ انہیں سیکولر یا لبرل سیاسی نظریات کی بناء پر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے اور انتخابی عمل میں بالکل مفلوج کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اُدھر مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جمعیت العلمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی اپنے انتخابی جلسے کھل کر منعقد کررہی ہیں؛ البتہ بلوچستان میں نون لیگ کے صوبائی صدرثناء اللہ زہری کے قافلے پر حملہ ہوا اور ان کا بھائی، بیٹا اوربھتیجا مارے گئے۔ مگر بلوچستان کا معاملہ مختلف ہے۔ وہاںانتخاب میں حصہ لینے کے حامیوں اور مخالفوں کا جھگڑا ہے۔ جبکہ باقی ملک میں ایک مخصوص سوچ کی حامل جماعتوں کو انتخابی عمل میں کھلا ہاتھ دینے اور ان کی مدمقابل جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امتیازی سلوک صرف سوچ کے لیبل کے حوالے سے ہی نہیں ہے بلکہ اب اس میں علاقائی امتیاز بھی واضح ہوگیا ہے۔ تین صوبائی دارالحکومت کراچی، کوئٹہ اور پشاور بری طرح دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ آمدہ انتخابات سے مخصوص ’’مثبت نتائج‘‘ نکالنے کا گہرا تعلق اس خطے کی تزویراتی سیاست کے سا تھ بھی ہے جن میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو افغانستان میں 2014ء میں امریکی افواج کے جزوی انخلا اور وہاں کرزئی کے بعد افغانستان میں بننے والے نئے سیاسی بندوبست میں طالبان اور پاکستان کا کردار ہے، دوسرے ایران کی حصار بندی۔ اس ضمن میں صدر بارک اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد جو نئی امریکی انتظامیہ وجود میں آئی ہے‘ وہ ماضی کے برعکس اب افغانستان میں پاکستان کے کلیدی کردار کو تسلیم کرتی ہے اور طالبان سے مذاکرات کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ 2012ء کے وسط تک پاکستان میں لگتا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا ستارہ گردش میں ہے اور عمران خان اندرونی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہیں اور اگلے انتخاب کے ممکنہ ہیرو بھی۔ مگر نئی اوباما انتظامیہ کے آنے کے بعد بدلے ہوئے تناظر میں کچھ خاص سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ شریف برادران کے امریکہ اور سعودی عرب کے دورے، برطانیہ کا کردار، قطر میں امریکی مرکزی کمان CENTCOM کے ہیڈ کوارٹر کے قریب طالبان کا دفتر کھولنے اور وہاں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مولانا فضل الرحمن کی شرکت، پاکستان میں امریکی، برطانوی اور دیگر یورپی سفیروں کی شریف برادران کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد سیاسی منظر بدلنے لگا۔ امریکی سروے کمپنیوں کے نتائج میں مسلم لیگ (ن) یکایک نمبر ایک پر نظر آنے لگی۔ پیپلز پارٹی، ق لیگ اور دیگر جماعتوں سے راتوں رات ممبران قومی و صوبائی اسمبلی جوق در جوق مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے لگے۔ طاہر القادری کا کنٹینرڈرامہ ہوا تو رائے ونڈ میں شریف خاندان کے در دولت پر مولانا فضل الرحمن، منور حسن اور دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں نے اپنی یک جہتی میاں صاحبان کے ساتھ واضح کر دی اور سیاسی صف بندی کھل کر سامنے آگئی۔ طالبان نے بھی انہی جماعتوں کی گارنٹی پر یقین کیا ہے۔ جہاں تک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کا تعلق ہے ان جماعتوں نے اسے گیس کے نرخوں کو بنیاد بنا کر دبے لفظوں میں رد کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن نے لاہور میں مینار پاکستان کے جلسہ عام میں کھل کر اعلان کر دیا کہ ہمیں گیس درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ پاکستان میں ترکی اور مصر کی طرح معتدل اسلام پسند حکومت کے ذریعہ طالبان کے ساتھ مُک مُکا کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا کیونکہ بہت سے داخلی قبائلی، اور علاقائی تضادات بھی راستے میں حائل ہیں اور کئی دوسرے کھلاڑی بھی یہاں اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اور بات صرف افغانستان کے طالبان تک نہیں ہے۔ پاکستانی طالبان کے ساتھ کیا مُک مُکا ہوگا۔ نون لیگ کے گرد بننے والی معتدل اسلام پسند حکومت سے اُنہیں کیا ملے گا جس پر وہ مطمئن ہو جائیں گے اور دہشت گردی ترک کر دیں گے؟ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں مذہبی انتہا پسندی زندگی کے ہر شعبہ میں سرایت کرچکی ہے۔ سیکورٹی اداروں سے لے کر تعلیمی اداروں تک ہر جگہ ان کا مورچہ لگا ہوا ہے۔ ہماری اہم دفاعی تنصیبات پر حملے انہی عناصر کے اندر تک رسائی رکھنے کی وجہ سے ممکن ہوئے۔ اگرچہ حال میں چیف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب کے کاکول اکیڈمی میں پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں ایک بار پھر اعادہ کیا گیا ہے کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، پاکستان اور اسلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا، پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔‘‘ کیانی صاحب کے اس بیان کی ایک تعبیر یہ کی جارہی ہے کہ یہ سیکورٹی اداروں کے اندر اور باہر موجود مذہبی انتہا پسند مکتب فکر کی خوشنودی اور تشفی کے لئے دیا گیا ہے۔ ہماری تاریخ میں بہت سے رہنمائوں نے مذہبی عناصر کی خوشنودی و تشفی کی کوشش کی مگر وہ انہیں مطمئن نہ کرسکے۔ لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد منظور کی، داخلی اور خارجی اسلامائزیشن کی کوشش کی مگر ان کے مخالفوں نے ایک مذہبی جنونی کو استعمال کر کے ان کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 73ء کے آئین میں بظاہر چند اقلیتی مگر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ دائیں بازو کی جماعتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلامی شقیں شامل کیں، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا، 77ء کی پی این اے کی تحریک کے سارے مذہبی مطالبات کو تسلیم کرلیا لیکن ضیاء الحق نے نہ صرف اُن کے اقتدار کا تختہ اُلٹا بلکہ اُنہیں تختہ دار پر بھی لٹکایا۔ گیارہ سال اسلامائزیشن کا عمل جاری رکھا مگر مذہبی عناصر کی تسلی کے مطابق نفاذ اسلام نہ ہوسکا۔ کیا نواز شریف اور عمران خان کی معتدل اسلام پسند قیادت طالبان کی انتہاء سے بڑھی ہوئی توقعات پوری کرسکیں گے؟ طالبان کی تسلی و تشفی کرتے کرتے یہ سیاسی رہنما پاکستان کو اکیسویں صدی کی دنیا کے ساتھ لے کر چل سکیں گے؟ کیا طالبان کا پاکستان ’’نیا پاکستان‘‘ ہوگا؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں