"HNC" (space) message & send to 7575

الیکشن کے بعد کیا ہوگا؟

مجھے ہنسی آتی ہے اس دیوانگی پر…… ہر زبان پر ’’الیکشن‘‘ ہے یعنی لوگوں کی اکثریت بلا سوچے سمجھے اندھا دھند ’’الیکشن برائے الیکشن‘‘ کے مریضانہ انتظار میں مبتلا ہے حالانکہ محبوب ترین شاعر منیر نیازی نے کہا تھا ؎ ’’مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا لاکھوں ملتے دیکھے ہیں پھول بھی کھلتے دیکھے ہیں جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ عوام کو اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سونے کا کتنا شوق ہے؟ عشروں پہلے ایک فضول سی کتاب کی بڑی دھوم مچی۔ ہر دیوار اس کتاب کا اشتہار تھی اور کتاب کا عنوان تھا… ’’مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ گنہگار کے ساتھ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ بالکل ایسا ہی ہے جیسا الیکشن کے بعد عام ووٹر کے ساتھ ہوگا کہ بہت ہوا تو انیس (19) بیس (20)… اٹھارہ (18) بیس (20) کے فرق سے وہی خبیث پھر ’’حاضرِ خدمت‘‘ ہوں گے۔ وہی مخدوم اور خادم نئی نوٹنکیوں، بدمعاشیوں، ڈراموں، دھوکوں، فراڈوں کے ساتھ پھر ملک کی فالج زدہ گردن پر مسلط ہوں گے۔ کوئی انگلی نچا رہا ہوگا تو کوئی عوام کو نچا رہا ہوگا جیسے گرم توے پر گھی کے قطرے ناچتے ہیں۔ کوئی مخدوم کی اداکاری کرے گا تو کوئی خادم کی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ چند بنیادی اور فیصلہ کن تبدیلیوں کے بغیر کوئی بھی اس بے غیرت الیکشن سے کیا نکال سکے گا؟ وہی چور، اچکے، ٹھگ اور جیب کترے ہی تو ہیں۔ باگھ اور بھیڑیے میں سے کسی ایک کو ’’منتخب‘‘ کرنے کا اختیار ہی اگر ’’الیکشن‘‘ ہے تو میں اس پر لعنت بھیجتے ہوئے ’’شریکِ جرم‘‘ ہونے سے انکار کرتا ہوں لیکن خاکسار کے انکار کا جمہوریت کے بازار میں بھائو ہی کیا ہے کہ یہ افتادگان خاک، صدیوں سے خاک کو ہی اپنی خوراک سمجھے ہوئے ہیں، دھول چاٹنا اور دھولیں کھانا ان کا مقدر ہے۔ جتنا بڑا ڈکیت اور ڈرامہ… اتنا ہی بڑا اس ملک کا ماما… فرمایا ’’مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا۔‘‘ پھٹکار ہے پھٹکار، لعنت ہے ان گنت بار ہر اس شخص پر جو بدکردار ترین آزمائے ہوئوں کو بار بار آزمانے کے بعد پھر آزمانے پر آمادہ ہے… بیکاری، بیروزگاری، بھوک، ننگ اور بے عزتی کے مارو! جن کی اولادوں کو تم اربوں کھربوں ڈالر میں بیرون ملک کاروبار کرتے دیکھتے ہو، کیا ان وطن فروشوں کو ووٹ دو گے؟ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوگا کہ تم اپنی اولادوں کے تاجر ہی نہیں ان کے قاتل بھی ہو۔ مزید برباد ہو وہ غریب جو کسی امیر کو ووٹ دے۔ اور برباد ہو وہ شریف جو کسی بدمعاش کو ووٹ دے۔ برا ہو اس مزدور کا جو کسی صنعتکار کو ووٹ دے۔ تباہی اس کاشتکار کا نصیب ہو جو کسی بڑے زمیندار، جاگیردار کا ساتھ دے کہ نمائندہ تو دراصل اپنے جیسوں کا ہی نمائندہ ورنہ درندہ سمجھو۔ ستیاناس ہو اس نیم مردہ مرید کا جو اپنے ’’پنج ستارہ‘‘ ہٹے کٹے پیر کو ووٹ دے لیکن میں جانتا ہوں کہ پھر یہی کچھ ہوگا۔ الیکشن اگر ہو بھی گئے تو ’’ایکشن ری پلے‘‘ کے علاوہ عوام کے پلے کیا پڑے گا؟ پھر وہی فراڈ سکیمیں، پیلی ٹیکسیاں، سستی روٹیاں، بے نظیر بھیک پروگرام اور بلاول ہائوسوں سے لے کر جاتی عمروں تک کے باہر وہی ناپاک ناجائز قبضے، ناپاک ترین پروٹوکول اور سو پچاس مخصوص جملوں کی منحوس گردان۔ سوچتا ہوں الیکشن کے بعد ایسا کیا ہوگا جس کے لیے مرے جا رہے ہیں؟ کیا ان آزمائے ہوئوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو مردہ معیشت میں جان ڈال سکے؟ یہ فارن کرنسی اکائونٹ فریز کرکے اربوں ڈالرز کی دیہاڑیاں لگانے والے، یہ ایس آر اوز تبدیل کر کے مال بنانے والے، یہ زیرو مارجن پر ایل سیز کھول کر ذاتی فیکٹریوں کے بونڈڈ ویئر ہائوسز میں بغیر ڈیوٹی سکریپ رکھ کر فنشڈ گڈز تیار کرکے بیچنے کے بعد بینک کی رقم اور کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے والے پرہیزگار… یہ ریلوے، سٹیل مل اور پی آئی اے کھا جانے والے لکڑ ہضم، پتھر ہضم معدے… کیا یہ مردہ معیشت کو زندہ کریں گے؟ کیا دہشت گردوں کے بھائی وال امن بحال کریں گے؟ جو بار بار اقتدار میں آنے کے بعد بھی نہ تعلیم کا نظام تبدیل کر سکے نہ تھانہ کلچر… تو کیا الیکشن کے بعد شر کی ان علامتوں سے خیر کی توقع اور امید ہے تو بھائی! یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے کوئی گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جیکب آباد چلا جائے یا لاہور میں ذرا زیادہ سردی پڑنے پر بیوی بچوں سمیت سائبیریا جا پہنچے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ الیکشن ہوگا یا نہیں، ہوگا تو کب ہوگا؟… اصل سوال تو یہ ہے کہ الیکشن کے بعد کیا ہوگا؟ بد سے بدتر، ستیاناس سے سوا ستیاناس یا بہتری کی کوئی صورت جو کم از کم مجھے تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ ایسا گھڑمس پڑے گا کہ الیکشن الیکشن کا ورد کرنے والے ’’الامان الامان‘‘ کرتے نظر آئیں گے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں