جذبات‘ ناقص اور ادھوری معلومات کی وجہ سے ایک بار کسی ٹی وی پروگرام کے دوران میرے منہ سے یہ جملہ سرزد ہو گیا کہ…… ’’دوہری شہریت دوہری ولدیت کی مانند ہے‘‘ بات ضرورت سے زیادہ پھیل گئی اور دوہری شہریت والے پاکستانیوں کا ردِعمل آنا شروع ہوا۔ بات کے پیچ اور پرتیں کھلتی چلی گئیں تو میری شرمندگی اور ندامت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ میں سخت بے چین اور پریشان تھا کہ میری زبان درازی کے سبب میرے وہ ہم وطن HURT ہوئے ہیں جنہیں مختلف وجوہات یا مجبوریوں کے سبب وطن چھوڑنا اور آبِ حیات میں زہر ملا کر پینا پڑا۔ خود میری تین سگی بہنیں انگلینڈ اور امریکہ میں ہیں۔ سسرال کو امریکہ شفٹ ہوئے تقریباً 20 سال ہو چکے۔ حفیظ خان اور صلاح الدین درانی جیسے دوست بھی کینیڈا کو پیارے ہو چکے یعنی بیرونِ خانہ نہیں‘ اندرون خانہ بھی مجھ پر ناقابلِ برداشت دبائو تھا۔ گو میں نے یہ بات اک خاص تناظر میں خاص قسم کے لوگوں کے حوالہ سے کی تھی لیکن میں نے وضاحتیں پیش کرنے کی بجائے غیر مشروط معذرت کا فیصلہ کیا اور مختلف مواقع اور فورمز پر پاکستانی بھائیوں سے معذرت طلب کی۔ اتفاق سے انہی دنوں امریکہ جانا ہوا۔ انیس شہروں میں پاکستانیوں سے ملاقاتوں کے دوران بھی میرا یہ جملہ زیرِ بحث رہا۔ میں نے جگہ جگہ تسلیم کیا کہ واقعی سیر و سیاحت کے علاوہ اپنا ملک چھوڑنا‘ کہیں اور سیٹل ہونا دو جنموں میں زندگی گزارنے کی اذیّت سے بھی زیادہ اذیّت ناک ہے۔ 1980ء کی دہائی کے شروع میں ضیا الحقی مقدموں اور جیلوں سے تھک ہار کر جب خود میں نے مجبوری کے عالم میں پاکستان چھوڑا تو اپنے ساتھ عہد کیا کہ کاغذ قلم سے رشتہ توڑ دوں گا‘ شاعری اور نثر نگاری پر لعنت بھیجوں گا لیکن ہوا کیا؟ جدہ ایئرپورٹ پر میں ٹرانزٹ میں تھا کہ منزل ریاض شہر تھی جب میں نے لاشعوری طور پر قلم اٹھایا اور یہ شعر لکھا جو میرے شعری مجموعہ میں بھی شامل ہے۔ بدن لے کر چلا ہوں جان پیچھے چھوڑ آیا ہوں وطن سے دُور ہوں پہچان پیچھے چھوڑ آیا ہوں سمندر پار پاکستانی صرف پاکستانی ہو یا دوہری شہریت کی دو دھاری تلوار کے نیچے فائیو سٹار زندگی گزار رہا ہو…… قابلِ احترام‘ صد احترام ہے اور اس مکروہ نظام کو اس کے سامنے جرم و ندامت کا احساس ہونا چاہیے جو اپنے شہریوں کو وہ عزت اور آسودگی دینے میں بُری طرح ناکام ہے جن کی تلاش میں انہیں ہجرتوں پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ میرا یہ سارا دکھ سپریم کورٹ کے اک عبوری حکم پر جاگ اُٹھا ہے کہ جو ہجرتوں کے زخم کھا کر اس ملک کو کھلا‘ پلا اور چلا رہے ہیں ان کے ساتھ مادرِ وطن…… سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہے جس کا جتنا ازالہ ہو سکے کم ہوگا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے مقدمہ میں عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’نگران حکومت الیکشن کمیشن کی ضرورت کے مطابق آرڈیننس کے ذریعہ قانون سازی کرے اور یہ کام انتخابات سے پہلے مکمل کیا جائے‘ ہم نے گلی کوچوں میں نہیں‘ سفارت خانوں میں پولنگ کا بندوبست کرنے کو کہا تھا جس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا‘‘۔ عزت مآب چیف جسٹس نے کیا خوب کہا: ’’تارکینِ وطن آپ کا ملک چلا رہے ہیں اور آپ کچھ کرنے کو تیار نہیں‘‘۔ حکمران طبقات بے حسی کے حصار میں ہیں۔ ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ کسی نظم کا عنوان ہے یا کتاب کا…… ’’دشمنوں کے درمیان ایک شام‘‘ سچ یہ ہے کہ ملکی نظام اور حکام دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پوری پوری زندگیاں قاتلوں کے درمیان گزر رہی ہیں۔ ہر ایک کا ہاتھ کسی دوسرے کی جیب میں اور ہر ایک کا ہتھیار کسی دوسرے کی گردن پر ہے۔ برسرِ اقتدار جاتے جاتے اس طرح لوٹ مار کرتے ہیں جیسے بیرونی حملہ آور ہوں تو ایسے میں تارکینِ وطن پاکستانیوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے عدلیہ ہی کچھ کرے تو کرے‘ سیاسیہ اور انتظامیہ سے توقعات وابستہ کرنا ’’پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ درخت کب کا سوکھا اور مرا ہوا ہے…… مر چکے درختوں پر بہار نہیں آتی۔ چلتے چلتے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ دوہری شہریت والے مسئلہ کو بھی ’’اوور سمپلی فائی‘‘ کرنا مناسب نہ ہوگا‘ اسے بھی REVISIT کرنے اور تفصیلاً بڑے سکیل پر زیرِ بحث لانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بیرونِ ملک پاکستانی…… پاکستان کا اثاثہ ہی نہیں‘ حصہ بھی ہیں۔ ’’لان میں ایک بھی بیل ایسی نہیں جو بدیسی پرندے کے پر باندھ لے جنگلی آم کی جان لیوا مہک جب بلائے گی واپس چلا آئے گا‘‘ وطن سے نکل جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وطن بھی آپ کے اندر سے نکل گیا۔ ’’بیرونِ ملک پاکستانی‘‘…… ’’اندرونِ ملک پاکستانی‘‘ سے زیادہ پاکستانی ہوتا ہے۔