"HNC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل

مہذب دنیا میں نگران حکومت اور نگرانیے نہیں ہوتے کیونکہ یہ اس حقیقت کا آئینی اعتراف ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی نہ نیتیں صاف ہوتی ہیں نہ ہاتھ۔ نگران حکومت دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ نہ ہماری کوئی حکومت قابلِ اعتبار ہوتی ہے نہ اپوزیشن اور اسی لیے انہیں ’’وچولوں‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے جو انہیں ’’برابر‘‘ چھڑادیں کیونکہ بصورت دیگر یہ واردات کرنے اور ہاتھ صاف کرنے سے باز نہیں آئیں گے کہ دھاندلی ان کے جینز میں شامل اور فراڈ ان کے ڈی این اے کا اٹوٹ انگ ہے۔ کاش ہزار ڈیڑھ ہزار سال میں ہم بھی اتنے مہذب ہوجائیں کہ الیکشن اور انتقال اقتدار کیلئے وچولوں کی ضرورت نہ رہے اور اقتدار باوقار و ہموار طریقے سے بغیر نگرانوں کے منتقل ہوسکے۔ عجب تماشا ہے کہ ناتجربہ کار ترین لوگوں سے چند ہفتوں کے اندر اندر معجزوں کی امیدیں وابستہ کرلی جاتی ہیں۔ اتنے ہفتوں میں تو معاملات کی اے بی سی کے بارے میں علم نہیں ہوسکتا اور یہاں ملک مع صوبوں کے چلوایا جاتا ہے۔ اس مضحکہ خیز صورت حال کو چند مثالوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کیجئے اک بہت بڑا سائنسدان ہے اور آپ ایک ٹیکسٹائل مل اس کے حوالے کردیتے ہیں کہ چند ہفتوں کے اندر اندر اسے چلا کر دکھائو۔ کوئی بہت بڑا انجنیئر ہے اور آپ ایک شوگر مل کا انتظام اس کے سپرد کردیتے ہیں یا کسی پی ایچ ڈی کو سٹیل مل کا کام سونپ دیتے ہیں… نتیجہ؟؟؟ صحافت میں میرا تجربہ تقریباً 40سال پر محیط ہے‘ میں لاتعداد ماہناموں اور کچھ روزناموں کا کامیاب ایڈیٹر رہا ہوں لیکن اگر آج مجھے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی کا ایڈیٹر بنا دیا جائے تو چند ہفتے تو سٹاف کو سمجھنے اور شہر شناسائی میں ہی گزر جائیں گے کہ سٹاف میں صرف ادارتی سٹاف ہی نہیں ہوتا‘ تو ملک اور صوبے چند ہفتوں کیلئے سٹیٹ کرافٹ سے نابلد لوگوں کو سونپ کر ہمارے سیانے کس کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں؟ خود کو یا عوام کو؟ اتنے دنوں میں تو پرچون کی دکان کیا گنڈیریوں کی ریڑھی کا سرپیر سمجھ میں نہیںآتا۔ اتنے وقت میں تو بندہ کوچوان بننے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جو مشکل ترین پاکستان کو پرچون کی دکان جتنی اہمیت دینے پر بھی تیار نہیں۔ یہی ڈھونگ اور ڈھکوسلے ہماری پہچان ہیں تو دوسری طرف گزشتہ کالم پر قارئین کا ردعمل بہت دلچسپ تھا۔ اکثر نے کہا کہ اگر میرے نزدیک ’’بے رحمانہ جانچ پڑتال‘‘ الیکشن کمیشن کی فقط گیدڑ بھبکی ہے تو ٹھیک لیکن اگر واقعی الیکشن کمیشن نے سچ مچ اس پر عمل کر دکھایا تو پھر اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ میرا جواب پھر وہی کہ یقیناً ایسا ہوگا نہیں اوراگر ہوگیا تو پھر یہ ’’عمل‘‘ دھڑا دھڑ انڈے بچے دے گا، سنو بالنگ شروع ہوجائے گی اور وہ پنڈورا بوکس کھل جائے گا جو بہت پہلے کھلنا چاہیے تھا لیکن اس سے خطرہ عوام کو نہیں ان ’’خواص‘‘ کو ہوگا جو چھوٹے موٹے جیب کتروں سے لیکر ڈاکوئوں تک پر محیط ہیں۔ لیکن بوجوہ ’’مقبول اور معزز‘‘ سمجھے جاتے ہیں کیونکہ اس پراسیس میں حقیقی جمہوریت اور جمہور یعنی عوام کی فلاح وبہبود پوشیدہ ہے اس لیے اک بار پھر عرض کرتا چلوں کہ اس کا کوئی ’’خطرہ‘‘ نہیں لیکن اگر کوئی ایسا معجزہ ہوجاتا ہے تو شہد کے چشمے پھوٹیں نہ پھوٹیں، دودھ کی نہریں بہیں نہ بہیں، یہ ملک پٹڑی پر ضرور چڑھ جائے گا۔ میں نے اوپر کہیں ڈھکوسلوں کا ذکر کیا ہے تو یاد رکھیں 62, 63 سے بڑا ڈرامہ اور ڈھکوسلہ بھی ممکن نہیں ورنہ ممتاز دانشور، بیرسٹر، سیاستدان اعتزاز احسن یہ کہنے پر مجبور نہ ہوتا کہ…… ’’قائداعظم بھی ہوتے تو 63, 62پر پورے نہ اترتے۔‘‘ یہ وہ سچ ہے جسے بولنے کی بصیرت اور جرأت ہر کسی کو ہرگز نصیب نہیں لیکن اعتزاز احسن آگے چل کر تھوڑی سی ڈنڈی مار گیا۔ کہا، ’’جانچ پڑتال ہونی چاہیے مگر اتنی نہیں کہ سب کو ہی فارغ کر دیا جائے۔‘‘ مجھے اس طرح کی لگی لپٹی، اگر مگر، چونکہ چنانچہ ٹائپ باتوں سے چڑ ہے۔ منافقت کی اس سے مکروہ مثال کیا ہوگی کہ 63, 62رکھنی بھی ہیں اور ان پر پوری طرح عمل بھی نہیں کرنا یعنی عوام کو بھی دھوکہ دینا ہے اور آئین کی دُم میں بھی نمدہ کسنا ہے۔ اللہ کے بندو! اگر 63, 62 احمقانہ اور انتہائی مثالیت پسندانہ ہیں تو انہیں گرم چمٹے سے پکڑ کر آئین سے باہر نکالو اور اگر درست ہیں تو ان پر سوفیصد عملدرآمد یقینی بنائو۔ لنچ سیزر کے ساتھ ڈنر بروٹس کے ساتھ… انہی لجلجے رویوں نے پوری قوم کو کیچوا سا بنا کے رکھ دیا ہے۔ گرو تو ساتھ گرے شانِ شہسواری بھی زوال آئے تو پورے کمال میں آئے آخر پر شہباز شریف کا یہ دلچسپ بیان کہ …’’عوام کا موڈ بتا رہا ہے کہ آئندہ حکومت مسلم لیگ ن کی ہوگی۔‘‘ سمجھ نہیں آرہی کہ شہباز شریف کی ’’عوامی موڈ‘‘ کے ساتھ ملاقات کب؟ کہاں؟ اور کن حالات میں ہوئی؟ کیونکہ مجھے اندازہ ہے کہ ’’انجنیئرڈ عوام‘‘ کے علاوہ کسی اور سے ان کی ملاقات ممکن ہی نہیں۔ حتیٰ کہ وہ ’’بوڑھے‘‘ اور ’’بوڑھیاں‘‘ جو پریس ریلیزوں میں خادم اعلیٰ کو دعائیں اور کبھی کبھی بوسے دیتے دکھائی دیتے ہیں وہ بھی ’’پلانٹڈ‘‘ اور ’’انجنیئرڈ‘‘ ہوتے ہیں۔ جسے یقین نہ آئے وہ شعیب بن عزیز کو انعام اکبر کی قسم دے کر تصدیق کرلے لیکن ایک بات بہرحال بہت پازیٹو ہے کہ ن لیگ نے لاہور سے تقریباً 50فیصد سابق ن لیگی ارکان کو ٹکٹیں نہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو شاید شہباز شریف کی بات ’’جزوی‘‘ طور پر سچ ہوسکے…… اس ’’جزوی‘‘ پر روشنی کسی اگلے کالم میں کیونکہ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کالم کی طوالت میرے قاری کے صبر سے زیادہ نہ ہونے پائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں