"HNC" (space) message & send to 7575

دیر تو ہے اندھیر نہیں

سر درد شدید ہو تو اس کا شرطیہ اور تیر بہدف علاج یہ ہے کہ سر ہی اڑا دیا جائے جیسے ٹرین حادثہ سے بچنے کا بہترین، محفوظ ترین طریقہ یہ ہے کہ ریلوے کو ہی پیک اپ کر دیا جائے۔ سو اسی پیٹرن پر بجلی کے بحران سے نمٹنے کا نسخہ یہ ٹھہرا کہ پنجاب میں ہفتہ وار دو چھٹیوں کا دھماکہ دار فیصلہ کیا گیا۔ کل کلاں خدانخواستہ لوڈشیڈنگ میں مزید اضافہ ہوا تو چھٹیاں بھی مزید بڑھا دی جائیں گی۔ دو کی بجائے چار چھٹیاں، اتوار تو ہے ہی اور جمعہ ہاف ڈے۔ قوم ہفتہ میں ڈیڑھ دن کام کرے جو عملاً آدھا دن بھی نہیں رہ جائے گا کیونکہ دیگر چھٹیوں کی بھی بھرمار ہے: ’’وطن کو ہم عظیم سے عظیم تر بنائیں گے‘‘ اس سیون سٹار سکھا شاہی اور مسخرہ بازی پر مجھے ایک بار پھر میٹروبس یاد آئی جس پر صوبہ کے لوگوں کا 70ارب روپیہ اجاڑ دیا گیا جس سے صرف ایک فیصد سے بھی کم لاہوری فیض یاب ہورہے ہیں۔ میں نے ’’میری دنیا‘‘ میں اس منصوبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی جنون سونا بنانے میں کامیاب ہوجائے لیکن یہ سونا قدرتی سونے سے کئی گنا مہنگا ہو۔ یہ مثال ہوائی نہیں تھی بلکہ سوفیصد ایک تاریخی حقیقت پر مبنی تھی۔ ہوا یوں کہ 1980ء میں ایک جنونی امریکی سائنسدان گلین سی بورگ نے سیسے کے ہزاروں ایٹموں سے پروٹان اور نیوٹران نکالنے کے لیے ایک انتہائی طاقتور سائیکلوٹرون (CYCLOTRON)استعمال کیا تاکہ سیسے (ایٹمی نمبر 82) کو سونے (ایٹمی نمبر79) میں تبدیل کیا جاسکے۔ منصوبہ تو کامیاب ہوگیا لیکن یہ احمقانہ عمل اتنا مہنگا ثابت ہوا کہ سونے کا ایک ایٹم بنانے کیلئے جو لاگت آئی وہ کئی اونس سونے کی قیمت کے برابر تھی۔ یہ ہے میٹرو بس! بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے چھٹیوں میں اضافہ بھی میٹرو بس جیسا بے تکا خیال ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بے وقوف اقتدار میں آجاتے ہیں یا لوگ اقتدار میں آ کر بے قوف بن جاتے ہیں۔ ہر فیصلے اور منصوبے کے پیچھے سستی شہرت، وقتی مقبولیت، سطحی واہ وا اور بڑھک بازی، رنگ بازی اور دروغ گوئی کے علاوہ اور ہوتا ہی کچھ نہیں۔ ایک تازہ ترین ننگا‘ حیرت انگیز جھوٹ ’’ترجمان‘‘ ن لیگ نے یہ بولا کہ… ’’شہبازشریف نے کبھی شاہانہ پروٹوکول نہیں لیا اور گارڈز استعمال کرنے کے حوالہ سے خبریں گمراہ کن ہیں۔‘‘ یہ دروغ گوئی کی انتہا اور غلط بیانی کی معراج ہے کیونکہ میں گزشتہ چند سال میں سینکڑوں بار یہ نظارہ کر چکا ہوں کیونکہ شریفوں کے ’’جاتی عمرے‘‘ سے ہمارے ’’بیلی پور‘‘ تک فاصلہ صرف چند منٹ کا ہے۔ اول تو خادم صاحب نے ساری سڑک پر قبضہ کرکے اسے عوام کے لیے ’’نوگو ایریا‘‘ بنا رکھا ہے، دوسرا یہ کہ وہاں پولیس ملازمین کی فوج ہوتی ہے، تیسرا یہ کہ ’’خادم‘‘ اس پروٹوکول کے ساتھ نکلتا ہے کہ ایک بار مجھے لکھنا پڑا کہ حضور لائولشکر کے ساتھ یوں نکلتے ہیں جیسے کشمیر کا قبضہ لینے جارہے ہوں۔ سڑکیں تو اب تک اس امید پر روک رکھی ہیں کہ ’’ہم نے ہی واپس آنا ہے۔‘‘ ادھر مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد ہے کہ بیشک میں نے اپنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا (مفہوم)۔ گزشتہ کل کے کالم میں میں نے پُر وجاہت بھٹو خاندان کے انجام پر روشنی ڈالی ہے تو یہ کس کھیت کی مُولیاں گاجریاں ہیں؟ اگر اقتدار سے نسل در نسل چپکے رہنے کا اتنا ہی بخار ہے تو خدارا! اپنے لچھن تبدیل کرو کہ جھوٹ، مکر، فریب اور ریا کاری کی عمر لمبی نہیں ہوتی اور ’’ترجمان‘‘ یہ بھی سن لے کہ ’’برادران‘‘ کا یہ رویہ جاتی عمرے سے ماڈل ٹائون ودیگر علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ آئو مجھے چیلنج کرو! تازہ ترین انکشاف یہ کہ نوازشریف کے اعلان کردہ اثاثوں میں بھی تضادات کی نشاندہی کی گئی ہے تو دوسری طرف شریف فیملی کی نادہندگی کا معاملہ دو رکنی بنچ میں اختلاف رائے پر ایک ریفری جج کو مقرر کردیا گیا ہے۔ شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی جو کئی دن تک لٹکے رہے کے تضادات بھی مجھے مختلف لوگوں نے فیکس کیے ہیں جو بالآخر ریٹرننگ افسر نے منظور فرما دیئے اور حریف ہائیکورٹ پہنچ رہے ہیں۔ چھوٹے میاں کے تضادات پر تبصرہ بلکہ تفصیلی تبصرہ ادھورا رہا۔ فی الحال تو میں صرف اتنا سوچ رہا ہوں کہ رسی دراز تو ہوتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ کتنی؟ کارخانہ قدرت میں دیر تو ہوسکتی ہے، اندھیر نہیں۔ اندھیرے سے پھر یاد آیا کہ اس کا علاج یہ ہے کہ ہفتہ وار دو چھٹیاں کرلو، لوڈشیڈنگ مزید ہو تو مزید چھٹیاں… یہاں تک کہ قوم ہفتے میں دس چھٹیاں شروع کردے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں