میاں برادران سے تام جھام طمطراق میں لپٹی سکیورٹی بلکہ اضافی وغیر ضروری سکیورٹی واپس لے لی گئی اور وہ بھی الیکشن کمشن کے حکم پر، تو خیر ہے انشاء اللہ انہیں کچھ نہیں ہوگا کیونکہ اصل ’’سکیورٹی‘‘ کا فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے ورنہ میاں برادران میں سے سب سے چھوٹا درویش صفت معصوم عباس شریف یوں اچانک رخصت نہ ہوجاتا: موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی اور کیا انہیں اس قول پر یقین نہیں کہ جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آسکتی اور کیا یہ تقریروں کے مسالہ تک محدود ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔‘‘ ان کا تو انتخابی نشان ہی شیر ہے تو شیروں کی طرح زندگی گزارنا بھی سیکھیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ قدم قدم پر خلفائے راشدین کے حوالے تو دیتے ہیں جن میں سے تین شہید ہوئے لیکن ’’سکیورٹی‘‘ نہیںمانگی جبکہ انہوں نے سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو اپنے ساتھ چپکایا ہوتا ہے۔ دراصل سکیورٹی سے کہیںزیادہ ان کے کچھ نفسیاتی مسائل ہیں۔ چند عشرے پہلے تک جن کیلئے باوردی پولیس والا کسی بھوت بلا سے کم نہ تھا آج سینکڑوں لوگوں کو اپنے اردگرد بھاگتے دیکھ کر انہیں جو ’’تسکین‘‘ ملتی ہوگی، ان کی سدا سے پیاسی انائیں جس طرح سیراب ہوتی ہوں گی، میں بخوبی اس کا اندازہ لگا سکتا ہوں ورنہ یہ رسمی طور پر اتنے تعلیم یافتہ ضرور ہیں کہ اس حقیقت سے باخبر ہوں کہ اگر سکیورٹی ابراہم لنکن اور کینیڈی سے لیکر اندراگاندھی اور راجیو گاندھی کو نہ بچا سکی تو ان کی ’’سکیورٹی‘‘ زندگی کی ضمانت کیسے ہوسکتی ہے؟آئی ہوئی ہو تو اندارا گاندھی اور سلمان تاثیر کی طرح ذاتی گارڈز ہی کام دکھا دیتے ہیں۔اندر اور آپس کی بات دراصل وہی ہے جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا کہ ان کی شخصیات پر ان کی نفسیات حاوی ہے ورنہ انہیں سرکاری عوامی رستوں پر قبضوں کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن یہ شروع سے اس کام پر شروع ہیں۔ ماڈل ٹائون میں بھی اقتدار ہو تو یہ دائیں بائیں قبضہ کر لیتے ہیں۔ منظور وٹو ہولا آدمی تھا۔ اس نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب ٹیک اوور کرتے ہی ان کے ناجائز قبضوں کا حشر نشر کردیا اور وہ بھی بدتمیزی کے ساتھ حالانکہ یہی کام آرام اور شائستگی سے بھی ہوسکتا تھا۔ بعد ازاں جلا وطن ہوئے تو ماڈل ٹائون والے اسی گھر میں بڑے قبضہ گروپ نے قبضہ کرکے اسے اولڈ ہوم ٹائپ شے میں تبدیل کردیا لیکن انہوں نے سبق نہیں سیکھا اور جاتی عمرے سے ماڈل ٹائون تک عوام کے رستوں پر قابض ہیں کہ بات نفسیات پر ہی ختم ہوتی ہے ورنہ جاتی عمرے میں ان کے پاس سینکڑوں ایکڑ ہیں، گھر سڑک سے بہت ہی دور، پیچھے ا ور اندر … پھر بھی خوف زدہ تھے تو اپنی ریاست کے اندر، اپنی زمین میں ’’ڈی‘‘ (D) سی بنا کر سڑک کو ٹیک اوور اور ڈسٹرب نہ کرتے، اسی طرح ماڈل ٹائون والے گھر کے سامنے پورے پارک کے گرد سرکاری خرچ پر جنگلے لگا کر عوام کے لیے بین کر رکھا ہے اور ساتھ ہی ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہلانے کا شوق بھی پال رکھا ہے تو یقین مانو یہ ننگا بے ہودہ تضاد دور تک نہیں جاسکتا۔ آج نہیں تو کل نہیں تو پرسوں… لوگ اس منافقت کی دھجیاں اڑا کے رکھ دینگے کیونکہ انٹرنیٹ جنریشن کے دلوں اور دماغوں میں وہ زہر بھر رہا ہے جس کا تریاق کسی چالاک ترین وارداتیے کے پاس بھی نہ ہوگا سو ہوش کرو کہ نہ تم قذافی سے زیادہ طاقت ور ہوسکتے ہو نہ اس سے زیادہ دولت کا تصور کرسکتے ہو تو حضور! دھیرج، ہتھ ہولا رکھو ورنہ سڑکوں، پارکوں پر قبضے اور سکیورٹیاں اتنی مہنگی پڑیں گی کہ خریدنا بس سے باہر ہوگا۔ گورنر مغربی پاکستان ( آج کا ٹوٹل پاکستان) امیر محمد خان خاندانی آدمی تھا، پشتینی نواب جب گورنر بنا تو اس نے سختی سے منع کردیا کہ ذاتی گھر پر کوئی جھنڈا وغیرہ نہیں… چمچوں نے وجہ پوچھی تو نواب کالاباغ نے کہا : ’’اقتدار آنی جانی شے ہے۔ کل جب جھنڈا اورپر وٹو کول وغیرہ واپس ہوگا تو شریکا اور حاسد خوش ہوں گے۔‘‘ اس خاندانی آدمی کا رویہ ذرا مزید ملاحظہ ہو کہ گورنر ہائوس میں بھی مخصوص سامان ذاتی تھا۔ جب فارغ ہوا تو یہ سوچ کر اپنا ذاتی سامان بھی نہ اٹھایا کہ کوئی یہ نہ سوچے نواب صاحب گورنر ہائوس کا سامان لے گئے۔ میری معروضات بہت کڑوی ہیں لیکن کبھی کبھی کڑوی دوا مکمل شفاء کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ ڈیش ڈرامے، ڈھکوسلے، نوٹنکیاں چھوڑ کرسچ مچ مرمٹ کے تو دیکھو… کون تھے کیا ہوگئے؟ کہاں سے چلے کہاں پہنچ گئے؟ سڑکیں گھیر کے غیر ضروری سکیورٹیاں سمیٹ کر کیا ہزار پانچ سو سال جی لو گے؟ مندرجہ بالا مشورہ صرف میاں برادران کے لیے ہی نہیں ہر برسراقتدار سیاستدان حکمران کیلئے ہے کہ کچھ تو خیال کرو کہ عوام کو تم نے اسلاف کی کہانیوں پر رکھا ہوا ہے اور خود تم آج کے مغربی حکمرانوں کے جوتوں کے دھول اور تسمے بھی نہیں ہو۔ تم ہر معاملہ میں اہل مغرب کی نقل کرتے ہو تو کیا ان کا انسانی انداز حکمرانی اپناتے ہوئے تمہیں موت پڑتی ہے یا مرگی کا دورہ؟ یہ کیسے جو کرنما لیڈر ہیں کہ اقتدار میں ہوں تو پولیس آگے پیچھے اور اقتدار سے باہر ہوں تو پولیس ان کے پیچھے۔ ٹھیک سے یاد نہیں کب یہ تاریخی جملہ کہاں پڑھا تھا: \"THE TROUBLE WITH BEING A LEADER TODAY IS THAT YOU CAN NOT BE SURE WHETHER PEOPLE ARE FOLLOWING YOU OR CHASING YOU\" رہ گئی موت جو بقول شیر خدا حضرت علی ’’زندگی کی محافظ ہے‘‘ تو سنو مغربی دانش کیا کہتی ہے… \"DEATH IS WHAT HAPPENS WHEN YOU ARE MAKING OTHER PLANS\" اور اب آخر پر ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہلانے کا مشکل شوق پالنے والے شہباز شریف کیلئے: \"HE WHO LIVES TO LIVE FOREVER, NEVER FEARS DYING.\"