آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں پاکستانی جمہوریت کو اول درجہ کا فراڈ اور مراعات یافتہ طبقات کا جن جپھاسمجھتا ہوں۔ الیکشن کمیشن اور پھپھے کٹنی سکروٹنی کی پرفارمنس دیکھ کر اس سارے پراسیس سے میری نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ایسا ایسا بدنام زمانہ ’’اہل‘‘ قرار پاچکا کہ یہ سب تو فرشتے لگنے لگے ہیں …’’شیطان‘‘ میں یا صرف وہی ہیں جو پاکستان کارس اور لہو پینے والوں کی نشاندہی کرتے رہے ورنہ ان بے پر کے فرشتوں میں نہ تو کوئی نادہندہ ہے‘ نہ ٹیکس چور‘ نہ قرضہ وحرام خور‘ نہ جھوٹا‘نہ جعلساز‘ نہ منشیات فروش‘ نہ ایفی ڈرینیا… یہ تو اولیاء ، فقراء، درویشوں، سَنتوں، سادھوئوں ،جوگیوں، مجذوبوں اور سائیں لوکوں کا ہجوم ہے جو ٹکٹیں لینے کی ’’تپسیا‘‘ سے گزر کر دردر مراقبے کرنے کے بعد کروڑوں روپیہ دان وقربان کرے گا تاکہ اسمبلیوں میں پہنچ کر پاکستانیوں کی ’’خدمت‘‘ کرسکے… لعنت ہے اس پر جو خواب میں بھی ایسا سوچے ! اس تمام ترجگاڑ یا جمہوریت اور کباڑیا الیکشن سے نفرت کے باوجود بھی اس الیکشن سے اس لیے دلچسپی تھی کہ پی ٹی آئی میدان میں ہے لیکن جب سے ان خبروں اور اطلاعات کا سونامی آیا کہ پی ٹی آئی بھی کان نمک میں نمک ہوچکی اور اس ’’تھرڈ فورس ‘‘ میں بھی فراڈیئے فٹ ہوچکے تو اب سارے پراسیس سے ہی متلی سی محسوس ہونے لگی ہے۔ ’’ہیلن آف ٹرائے ’’کوئی آئے کوئی جائے‘‘ احمد فراز مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ غم دنیا میں غم یار بھی شامل کرلو گندبڑھتا ہے غلاظت جو غلاظت میں ملے اب پی پی پی ، ن لیگ اور پی ٹی آئی میں صحیح جوڑ پڑے گا کہ تینوں طرف ہی میٹرئیل ایک جیسا ہے۔ نہلے پر دہلے۔ سوائے اس ایک فرق کے کہ پی ٹی آئی کا قائد کم ازکم مالی معاملات میں بددیانت نہیں لیکن الٹا بھی لٹک جائے تو 90کیا 90ہزار دنوں میں بھی کرپشن ختم نہیں کرسکے گا کیونکہ ٹیم کے انتخاب میں ہی بازی ہار چکا اور اگر کوئی معجزانہ جیت مل بھی گئی تو اس کا سارا وقت، ساری انرجی اور ساری دیانت کرپٹ ڈڈوئوں کو سمیٹنے میں ہی صرف ہوجائے گی۔ ’’تبدیلی‘‘ صرف اتنی ہوگی کہ چورتازہ دم ہوں گے جس کا خطرہ کچھ زیادہ نہیں۔ باعزت تعداد میں سیٹیں مل جائیں یہی غنیمت ہوں گی۔ میرے گزشتہ کالم پر ری ایکشن رلادینے والا تھا۔ خصوصاً خواتین کا۔ سوال یہ تھا کہ اگر پی ٹی آئی بھی پی پی پی اور ن لیگ ہی بن گئی ہے تو ہم کیا کریں ؟ہم کدھر جائیں؟تو میں نے جو مشورہ اپنے کالرز کو دیا وہی قارئین کی خدمت میں پیش ہے کہ اپنی اپنی پارٹیوں پر لعنت بھیجیں اور امیدواروں پر فوکس کریں۔ جس بھی پارٹی کا جو امیدوار آپ کو بہتر نظرآئے، اسے ووٹ دے دیں کیونکہ جو جس حلقہ میں رہتا ہے، وہ اپنے امیدواروں سے کم یا زیادہ واقف ضرور ہوتا ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میرا مشورہ عام، سادہ ووٹر کے لیے ہے۔ ان سپورٹرزٹائپ ووٹرز کے لیے نہیں جن کے بلاواسطہ یا بالواسطہ مفادات اپنی اپنی پارٹیوں سے وابستہ ہوتے ہیں کیونکہ میرٹ ان لوگوں کے بس کی بات ہی نہیں ہوتا‘ البتہ عام سادہ سپورٹر میرٹ کی یہ لگژری افورڈ کرسکتا ہے‘ سواب جبکہ تینوں پارٹیاں تقریباً ملتے جلتے امیدوار میدان میں اتارچکی ہیں تو باضمیر ووٹر کے پاس آپشن اور چوائس ہی ایک ہے کہ امیدوار کا ناپ تول کرے کہ اور کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی۔ کیسی کم بختی اور حرماں نصیبی ہے کہ کل تک جس پارٹی کی آمد کے لیے دعا گو تھے …اب یہ سوچ کر ڈر رہے ہیں کہ اگر واقعی آگئی تو کیسی قیامت آئے گی۔ بھوکے چوروں کی چنڈال چوکڑی! یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ لیڈر شپ میں اہم ترین کوالٹی کیا ہوتی ہے ؟ اس کا غیرمتنازعہ ترین جواب ہے۔ ’’مردم شناسی‘‘ ورنہ ان پڑھ اکبر، اکبراعظم ومغل اعظم نہ کہلاتا اور تغلق جیسا جینئس سپر فلاپ حکمران ثابت نہ ہوتا کہ کوئی بھی لیڈر’’عقل کل‘‘ نہیں ہوسکتا‘ سواسے مختلف قسم کی مہارتوں اور عقلوں کا ’’پول‘‘ تیار کرنا ہوتا ہے۔ یہ طے ہے کہ بدقسمتی بلکہ ’’بدمردم شناسی‘‘ کے سبب عمران آئندہ الیکشن میں وہ کچھ ہرگز حاصل نہ کرسکے گا جو بہتر امیدواروں کے انتخاب کی صورت میں حاصل کیا جاسکتا تھا لیکن وہ اچھا LEARNERہے کہ اس الیکشن کے نتائج بھگتنے کے بعد اس کے بعد والے الیکشنز میں شاید وہ بہتر لوگوں کا چنائو کرسکے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کے ہمدردوں اور خیر خواہوں کی خواہش اور دعا یہی ہوگی کہ ہمارا یہ نیا نیا مرد مومن موجودہ سوراخوں سے دوبارہ نہ ڈسا جائے۔ اک ہلکی پھلکی بات کہ جس نیم خواندہ رانا نعیم کو گوجرانوالہ سے ٹکٹ ملا، اس کی سیاسی وجہِ شہرت یہ ہے کہ عمران خان پنجاب میں جہاں بھی پایا جاتا، موصوف روسٹ بکرا یا دنبہ مع دیگر ڈشز لے کر نہ صرف وہاں پہنچ جاتے بلکہ سرعام یہ بتانا بھی نہ بھولتے کہ ’’یہ سب کچھ ازراہ عقیدت عظیم قائد کے لیے میری بیوی نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے‘‘ ’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘ یا پھر ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ الیکشن کے نتائج سارا نتارہ کردیں گے لیکن قصور عمران کا بھی نہیں کہ ہماری عمرانیات کا لیول ہی ایسا نیچ ہے ورنہ کس میں جرأت تھی کہ اقبال پر یہ طنز کرتا۔ ہم نے اقبال کا کہا مانا اور فاقوں کے ہاتھ مرتے رہے جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں، ہم خودی کو بلند کرتے رہے اس معاشرہ میں کامیابی کی کلید اول وآخر ہی یہ ہے کہ ۔’’بہت سی بے عزتی کراکے تھوڑے سے عزت دار ہوجائو‘‘ یا یہ کہ ’’چند لوگوں کی بے تحاشہ خوشامد کرکے بہت سے خوشامدی اپنے گرد اکٹھے کرلو‘‘۔’’بکرے کھلائو‘ ریوڑ کھائو‘‘ اگر الیکشن ہوئے اور اگر رانا نعیم بکرا روسٹ پر سوار ہوکر اسمبلی پہنچ گیا تو منظر کیسا ہوگا؟ موت کے منظر سے بدتر اور وہ معزز رکن اسمبلی ہوگا لیکن آخری فیصلہ بہرحال گوجرانوالہ کے عوام نے کرنا ہے کہ وہ اندھا دھند عمران کا یہ تحفہ قبول کرتے ہیں یا اپنی عقل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کالم تبدیلی کے ماتم کی بھینٹ چڑھ گیا ورنہ پیپلز پارٹی کو انڈر اسٹیمیٹ کرنے والوں کے لیے بھی کچھ عرض کرتا کہ ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے ،’’سرپرائز ‘‘ بھی کوئی چیز ہے اور پنجاب صرف چند شہروں کا نام نہیں اور سندھ کو بھٹوز کے خون سے رہا ہونے میں بہت سال درکار ہوں گے۔