ہز ماسٹرز وائس کی فخریہ پیشکش/ پاکستانی گلوکاروں کے گائے ملی نغمے گرامو فون ریکارڈ کی شکل میں قیام پاکستان کی پہلی سالگرہ پر دستیاب ہیں۔ تو مرد مجاہد ہے، نچھاور تجھ پہ جان و دل- نسیم اختر اینڈ پارٹی/ اے مسلم ہندوستاں جب تو غلام تھا، للہ اپنی سست روانی کو اب بدل- ماسٹر ممتاز/ وے تو اٹھ بہہ شیرا ستیا- اختر علی نذر خانم/ بسم اللہ بسم اللہ کہہ کے، کل دنیا نوں دسیا اس نے- عبدالعزیز سیالکوٹی/ آؤ نی شکر اللہ دا کرئیے، اللہ عمر کریں لکھ سال قائد اعظم دی- زینت بیگم اور ہیرا بائی/ میں تیرے قربان محمد- آغا بشیر احمد قوال اینڈ پارٹی/ کہاں سے میں لاؤں جواب محمد- کلن خان قوال اینڈ پارٹی۔
یہ اشتہار پنجاب پبلک لائبریری میں پندرہ اگست 1948 سے ایک دو دن پہلے کے انگریزی اخبار میں موجود تھا۔ وہ پوری فائل 1948 کی تھی۔ وہاں ایک اشتہار اس ہوٹل کی طرف سے تھا جو سمندر کی کھاڑیوں کے ساتھ اب بھی بستا ہے۔ اس میں پاکستان اینیورسری ڈنر اور ڈانس کے ساتھ منانے کی دعوت دی گئی تھی۔ 15 اگست 1948، آٹھ تا ایک بجے شب۔ ڈریس کوڈ قومی لباس یا شام کا لباس (ڈنر سوٹ) تھا۔ ایک دو صفحات بعد مہاجرین میں کھانا بٹنے کی تصویر لگی تھی۔ ایک بڑی سے دیگ ہے، بہت سے لوگوں نے اسے گھیرا ہوا ہے، پورے بازوؤں والی بنیان اور دھوتی پہنے ایک شخص ان میں چاول بانٹ رہا ہے۔ بانٹنے والے اور لینے والے ایک سے پھٹے حال دکھائی دیتے ہیں۔ عورتیں بڑی بڑی پراتیں لے کر کھڑی ہیں مردوں کے ہاتھ میں دیگچیاں ہیں اور یوم آزادی کا لنگر بٹ رہا ہے۔ اگلے صفحوں میں بیگم لیاقت علی خان خطاب کر رہی ہیں، ''دنیا میں کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام نہ کریں۔ ہمیں فخر ہے کہ پاکستان بنانے میں عورتوں کا حصہ مردوں سے کسی صورت کم اہم نہیں ہے‘‘۔ قائد اعظم فرما رہے ہیں، ''اس پرمسرت موقعے پر میں آپ کو مبارک دیتا ہوں۔ اگست 15 ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کی سالگرہ کا دن ہے‘‘۔
بعد میں یومِ پاکستان چودہ اگست کو منایا جانے لگا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا، ہماری آزادی کا دن ہے، ہم جب مرضی منائیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ مملکت کی بقا کا سوال تھا، سرحدوں پہ خطرات موجود تھے، نسیم اختر اینڈ پارٹی کا نغمہ وقت کی آواز تھا، تو مرد مجاہد ہے، نچھاور تجھ پہ جان و دل، ماضی قریب کے مرد مجاہد پرویز مشرف کون سا راگ الاپ رہے ہیں۔ فیض آباد میں استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے بعد پی پی اور ن لیگ دونوں نے ملک کو لوٹا۔ اس کانفرنس میں آل پاکستان مسلم لیگ، پاکستان نیشنل مسلم لیگ، عوامی لیگ، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، پاکستان مزدور اتحاد، مسلم لیگ جونیجو، مسلم کانفرنس آزاد کشمیر اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن شامل تھے۔ کل ملا کے ان جماعتوں کی نشستیں پچھلے الیکشن میں کتنی تھیں؟ اے پی ایم ایس کی چترال سے اور ایک سیٹ عوامی مسلم لیگ کی؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کوئی آج کی بات نہیں، گلوبل کرپشن انڈیکس کی رہورٹ کے مطابق مشرف دور میں سب سے زیادہ کرپشن ہوئی، یہ چیز ریکارڈ پر ہے۔ پاکستان کا سکور ان کے دور حکومت میں کرپشن کے حوالے سے خراب ترین رہا۔ اس امرِ واقعہ پر بھی طویل ٹی وی انٹرویوز موجود ہیں۔ شہدا کے لواحقین کی زمینوں کا معاملہ ہو، 2006 کا چینی بحران ہو، واٹر فلٹریشن والا سکینڈل ہو یا کشمیر کے زلزلہ فنڈز کی خردبرد ہو، پینشن میں بے ضابطگیوں کے معاملے ہوں، سٹاک ایکسچینج کے گھپلے ہوں یا وہ جکارتہ والے پاکستانی اثاثوں کی فروخت ہو، سبھی کچھ سامنے ہے، واقعی کچھ بچا تو شاید ان کے بعد لٹا ہو۔ پی پی اور ن لیگ کی بات کیجیے تو یوسف رضا گیلانی عدالتوں میں پیش ہوئے، راجہ پرویز اشرف بنفس نفیس گئے، زرداری صاحب کے تو مقدر ہی شاید کرپشن کی مقدمے بازی سے بندھے ہیں، میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت ہو چکے ہیں، سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ مشرف کس برتے پر ایسے ایمان افروز خطاب فرماتے ہیں؟ سیاست دانوں کے پینتیس سال پرانے مقدمے کبھی بند نہیں ہوتے اور سابق ڈکٹیٹر کمر درد کے بوتے پر راج کرتا نظر آتا ہے، یہاں کرپشن کیوں نظر نہیں آتی؟ کمزوری کس کی ہے؟ عوام کی حمایت کس کے ساتھ ہے؟ ان سوالوں کے جواب کیا ہمیں ٹیلی فونک خطاب میں وہ سابق ڈکٹیٹر دیں گے جو اپنی مرضی سے ہم پر مسلط ہوئے اور اپنی مرضی سے باہر بیٹھے ہیں؟ ان لوگوں کو سامنے بٹھا کر مجمع بازی ہو گی جنہیں عوام کبھی اسمبلیوں کی شکل نہیں دیکھنے دیتے؟ دو سیٹوں اور دو لاکھ ووٹوں کا مقابلہ بیس کروڑ لوگوں کے مینڈیٹ سے ہو گا؟
ابھی پچھلے دنوں ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمانے لگے کہ ڈکٹیٹروں نے ملک ٹھیک کیا، سویلینز نے بیڑا غرق کر دیا۔ ٹھیک ہے، چت بھی آپ کی ہے پٹ بھی آپ کی، سویلینز اگر کچھ کہنے کے قابل ہوتے تو کم از کم نواب اکبر بگٹی کے قتل والے معاملہ ہی دیکھ لیا جاتا، لیکن ظاہر ہے ایسا گمان بھی خوش فہمی ہے۔ ملک ٹھیک کرنے کا دعویٰ رکھنے والے ڈکٹیٹروں کی شروعات ایوب خان سے ہوئی اور یحییٰ خان کے بعد ضیا صاحب سے ہوتے ہوئے جنرل مشرف پر آ کے یہ سینما بظاہر رک گیا۔ البتہ جس ہنگامے کی بنیاد دور ایوبی سے شروع ہوئی وہ یحییٰ خان کے عہد زریں سے ہوتا ہوا سقوط ڈھاکہ پر ختم ہوا اور جو بیج ضیاالحق بو گئے اس کی فصلیں کاٹتے کاٹتے تو عوام خود کٹ گئے‘ مگر اس ساون کی ہریالی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، وہی سبز عینک لگائے سابق ڈکٹیٹر بھی خطاب فرماتے رہتے ہیں۔
چودہ ہو یا پندرہ اگست، کیا مسلمانان برصغیر نے قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں وہی سیاست گالی بنا دی جائے جس کی وجہ سے ہمیں آزادی ملی؟ علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، فاطمہ جناح، ان میں سے کون تھا جو سیاست دان نہیں تھا؟ کوئی ایک راہنما جو ڈکٹیٹرشپ کا دعوے دار ہو؟ یہ سیاست تھی، یہ سب سیاسی راہنما تھے، بدقسمتی نے اسی دن دستک دے دی تھی جب لیاقت علی خان قتل کیے گئے لیکن ہمارے کان اسے سننے سے قاصر تھے۔ قائد اعظم پہلے ہی سے بار بار وارننگ دے رہے تھے ''خدمت گار صرف خدمت کے ذریعے ہی اپنے فرائض منصبی اور ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو سکتے ہیں۔ وہ دن گئے جب ملک پر افسر شاہی کا حکم چلتا تھا۔ یہ عوام کی حکومت ہے، عوام کے سامنے جمہوری خطوط اور پارلیمانی طرز پر جواب دہ ہے۔ 25 مارچ 1948ء کو اسی طرح کرنل اکبر خان نے قائد اعظم سے گلہ کیا کہ ہماری فطری صلاحیتوں اور دیسی ذہانت کا فائدہ اٹھانے کی بجائے اہم عہدے ماضی کی طرح غیر ملکیوں کو دئیے جا رہے ہیں تو قائد اعظم نے قاطع برہان لہجے میں فرمایا؛ ''مت بھولو کہ تم ریاست کے ملازم ہو تم پالیسی نہیں بناتے۔ ہم عوام کے نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔ تمہارا کام صرف اپنے سول حاکموں کے فیصلے پر عمل کرنا ہے‘‘۔
دیکھیے آج 14 اگست ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ اپنی جانوں کی قیمت پر ہم اس نعمت کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ ابھی کل کوئٹہ میں کتنے ہی نڈر سپاہی اور عام شہری دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ وقت سمت متعین کرنے کا وقت ہے، ہر ادارہ اپنے تفویض کردہ فرائض سرانجام دیتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں میلی نظر سے نہیں دیکھ سکتی۔ سینتالیس ہو یا سترہ ہو، مسائل اب تک وہی ہیں اور ان کا حل بھی وہی قائد اعظم والا ہے۔ افلاک سے نالوں کے جواب نہیں آتے، جو کرنا ہے زمین زادوں نے ہی کرنا ہے، سینیٹر رضا ربانی نے کرنا ہے یا ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں نے کرنا ہے۔