آپ کی شادی نہیں ہوئی اب تک؟

جب لڑکیاں یونیورسٹی پہنچ جائیں تو دو کام ہوتے ہیں۔ ایک تو دنیا کے بہت بڑے ہونے کا احساس، دوسرا بہت سی جاننے والی خواتین کی مسلسل تشویشناک نظروں کا خیال۔ دنیا یوں بڑی ہوئی کہ پہلے گھر سے سکول تک جانا ہوتا تھا یا تھوڑی بہت آزادی کالج میں دیکھ لی جاتی تھی، ان دونوں جگہوں میں لیکن ایک چاردیواری کا احساس رہتا تھا۔ ایک ان دیکھی سی روک ہوتی تھی، ٹیچرز کے رویے نسبتاً ڈسپلن زدہ ہوتے تھے اور خود اپنی عمر بھی کچھ کم ہوتی تھی۔ یونیورسٹی میں آنے کے بعد پہلا دن تو ایسا لگتا ہے جیسے خدا جانے کس جنگل میں آ گئے، اِدھر کینٹین پہ ایک رش لگا ہوا ہے، اُدھر ڈیپارٹمنٹ کے باہر سیڑھیوں پر الگ غدر ہے، کیا لڑکا کیا لڑکی سب اپنی دھن میں مست ہیں، استاد آتا ہے اور بے چارہ بغیر کسی رعب داب کے پڑھا کر چلا جاتا ہے۔ بے فکری اور لاپروائی ہر دوسرے چہرے پر ہے۔ فلک شگاف قہقہے گونج رہے ہیں، چھٹی دو بجے ہونی ہے، گھر آخری بس پر جانا ہے۔ تو یہ سب ایک بہت بڑی کائنات کے جیسا لگتا ہے کہ جس کا باقی دنیا سے کوئی الگ ہی نظام ہو۔ 
اس کائنات سے روزانہ جب اپنی دنیا میں واپسی ہوتی ہے، اصل مسئلہ تب شروع ہوتا ہے۔ کسی فنکشن میں جائیں گی تو ہر دوسری ملنے والی خاتون کا پہلا سوال ہو گا، ''بیٹا آپ پڑھتی ہیں؟‘‘ اگر جواب میں جی کہہ دیا تو اصولی طور پر بات ختم ہو جانی چاہیے، وہ لیکن ہو گی نہیں، دوسرا سوال کہاں پڑھنے کا ہو گا۔ اس کے جواب میں بتلایا جائے گا کہ بھئی یونیورسٹی میں فلاں ڈگری چل رہی ہے اور یہاں سے اصل رپھڑ شروع ہو گا۔ پہلے سوال پوچھنے والی خاتون تھوڑی بھنویں اٹھائیں گی، پھر تھوڑا قریب آئیں گی، پھر رازدارانہ انداز میں پوچھیں گی، ''آپ کی شادی نہیں ہوئی اب تک؟‘‘ سوال یہ ہے کہ شادی کا پڑھنے سے کیا تعلق ہے؟ بلکہ شادی کا کسی بھی چیز سے کیا تعلق ہے؟ کوئی پڑھے یا نہ پڑھے، کوئی شادی کرے یا نہ کرے ہماری ٹوہ لینے کی عادت ختم کیوں نہیں ہوتی؟ یہ منحوس عادت آہستہ آہستہ مخاطب کو نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ پوچھنے والی خاتون اگر کوئی رشتہ جوڑنا چاہتی ہیں تو سرپرستوں کا پتہ لگا کر ان کا انٹرویو کر لیں، اس طریقے سے یونیورسٹی کو ''اب تک‘‘ سے مشروط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ 
اس اب تک کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی اور اس کے والدین بے چارے گھڑی کی ٹک ٹک اور پنکھا چلنے کی آوازوں میں بھی اب تک اب تک سننے لگتے ہیں۔ یہ سوال صرف آپ نے نہیں پوچھا ہوتا، چھتیس سو بندہ پہلے بھی پوچھ چکا ہوتا ہے۔ شادی نہیں ہوئی تو ہماری نہیں ہوئی، یا ہم فی الحال موڈ میں نہیں ہیں یا پڑھائی ضروری ہے یا کوئی جوڑ کا نظر نہیں آیا، بات ختم ہو گئی۔ سوال پوچھنے والے اگر یہ تین جواب ذہن میں رکھ لیں اور آرام سے کوئی اور سوال پوچھنے کا سوچیں جو ذاتیات کے آنگن میں رستم کی طرح دھم سے نہ کودتا ہو تو خدا جانے کتنوں کا بھلا ہو جائے۔ یہ مفروضہ اس قدر بھیانک طریقے سے ذہنوں میں پرورش پا چکا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی بیٹیوں کو یونیورسٹی نہیں بھیجتے کہ جب کوئی سنے گا تو سمجھے گا لو بھئی بنو یونیورسٹی جا رہی ہیں گویا اب تک رشتہ نہیں کیا۔ یار اپنے گھر کا کھاتے ہیں، اپنا پہنتے ہیں، کیا یا نہیں کیا آپ کیوں مشوش ہوتے ہیں؟ بات رکتی نہیں ہے، پرائیویسی کس چڑیا کا نام ہے‘ شاید ہر دو لاکھ میں سے ایک بندہ جانتا ہو۔ اب اگلے مرحلے پر آ جائیے۔
لڑکی نے کہہ دیا: جی ہاں شادی ہو چکی ہے، اب یونیورسٹی جانا یا نہ جانا ایک دم بے معنی ہو جائے گا، اگلا سوال یہ ہو گا، ''کتنے بچے ہیں؟‘‘ مطلب یہ سوال تو اس قدر نارمل ہو چکا ہے کہ آپ کسی سے بھی پوچھ لیتے ہیں، اگر سامنے والا اس نعمت سے محروم ہے تو باقاعدہ تعزیت نما افسوس کیا جائے گا، بات یہ ہے کہ پوچھا ہی کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ کیا موسم یا کھیل پر بات نہیں ہو سکتی، سیاست یا حالات حاضرہ سب ٹھنڈے پڑ گئے ہیں، بچوں کا ہی پوچھنا کیوں لازم ہے؟ آپ کے تین ہیں، پانچ ہیں، دس ہیں کیا اس غریب نے پوچھا؟ فرض کر لیجیے جواب آ گیا، ''جی ہاں‘‘... اب کوئی اور بات چھیڑ دیں مگر نہیں، جب تک بات کسی تکلیف دہ پہلو پر جا کے نہیں رکے گی کریدنا فرض ہے۔ ''اچھا کتنے ہیں؟‘‘ تعداد بتا دی تو بھی سکون نہیں آئے گا۔ ''بیٹے کتنے ہیں؟‘‘ او ہماری اولاد ہے، جتنی بھی ہے، جو بھی ہے، سکون کر لیجیے سرکار، ہم خوش ہیں، شکر ہے مالک کا، مگر سوال ہی نہیں پیدا نہیں ہوتا۔ جواب دیا جائے گا ایک بیٹا ہے تو مشورہ ملے گا: بیٹی بھی ہوتی۔ کہیے گا: ایک بیٹا ہے، ایک بیٹی ہے‘ تو افسوس کا اظہار ہو گا کہ بے چاروں کا ایک ایک دوست تو ہوتا کم از کم۔ بتائیے گا کہ دو بیٹے ایک بیٹی ہے تو ''ہائے بے چاری اکیلی بیٹی‘‘ کا کلمہ سنیے گا، اور جو کہا کہ اولاد نہیں ہے تب جا کے سوالات کو بریک لگے گی اور مشوروں کا سیشن شروع ہو جائے گا۔ 
خدا کا نام لیجیے صاحب، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کی شادی اور بچوں کا موضوع صرف ہمارے یہاں ہی مباح ہے، مغرب میں اسے شدید بداخلاقی سمجھا جاتا ہے اور پہلی ملاقات کے دوران تو غلطی سے بھی ایسا پرسنل نہیں ہوا جاتا۔ دوسری بات یہ کہ ان دو سوالوں نے کتنے گھر تباہ کیے‘ آپ جانتے ہیں؟ وہ جو ''اب تک شادی نہیں ہوئی؟‘‘ والا سوال تھا اس کے چکر میں ہر روز کتنی ہی بے جوڑ اور جلدی کی شادیاں ہوتی ہیں، کوئی زیادہ پروا نہیں ہوتی کہ لڑکے کا مزاج کیسا ہے، ہماری بیٹی کیسی ہے، بس ''اللہ کا شکر ہے فرض ادا ہوا‘‘ قسم کے ڈائیلاگ بولنے کے چکر میں دو لوگ ساری عمر کے لیے سولی چڑھا دیے جاتے ہیں‘ اس میں سے بھی زیادہ خمیازہ عورتیں ہی بھگتتی ہیں (خصوصاً وہ بیٹی جسے ماں باپ ''اب تک؟‘‘ سے بچنے کے لیے یونیورسٹی نہیں بھیجتے۔ کم تعلیم کے ساتھ چونکہ وہ خود نوکری بھی نہیں کر پاتیں اس لیے مستقل شوہر کی طرف ہی دیکھنا اور سب کچھ برداشت کرنا لازم ہو جاتا ہے۔) 
اب دوسرے سوال کی طرف آئیے، بچے کتنے ہیں؟ یہ اوکھا سوال ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو پہلے دن سے ایک ان دیکھے پریشر میں ڈال دیتا ہے۔ ''نارمل‘‘ حالات میں دو انسانوں کی زندگی شروع نہیں ہوتی کہ تیسرے نے لپک کے دامن پکڑ لیا۔ پریگنینسی میں عورت کا مزاج ویسے ہی تبدیل ہو جاتا ہے، مرد اپنی جگہ پریشان ہوتا ہے کہ یار یہ معاملہ چل کیا رہا ہے، ابھی شادی ہوئی ابھی ڈاکٹروں کے پھیرے شروع ہو جاتے ہیں، خرچے منہ پھاڑے کھڑے ہوتے ہیں۔ تھوڑا ساتھ رہ لیتے، گھوم لیتے، اچھا برا وقت گزر جاتا، مزاج کا اندازہ ہو جاتا مگر نہیں، ہوتا کیسے؟ ہوتا اس وقت کہ اگر سر پر وہ تلوار نہ لٹک رہی ہوتی کہ لوگ پوچھیں گے۔ پوچھے گا بھی کون، اپنی ماں، اپنا باپ، اپنی ساس، اپنی نند، اپنی بہنیں۔ 
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی! 
اگر کوئی یقین کرے تو یہ بائیس کروڑ کی آبادی صرف ان سوالوں کی وجہ سے ہے۔ بچوں کو سپیس دینا سیکھیے، انہیں بتائیے کہ اس دنیا میں آنے کا واحد مقصد شادی اور بچے پیدا کرنا نہیں ہے۔ شادی کر دی ہے تو اتاولے ہونے کی بجائے انہیں کہیے کہ بیٹا کچھ گھوم گھام لو، سینما جاؤ، پارک دیکھو، پیسے ہیں تو دو تین سال موج کرو پھر سکون سے مردم شماری والوں کو دہلاتے رہنا۔ جلدی کی شادی اور بچوں کی جلدی زندگی کو مشینی بنا دیتی ہے، روایات کے پردے سے تھوڑا سا باہر منہ نکال کر سوچیے، تازہ ہوا کے جھونکے اتنے بھی برے نہیں ہوتے! 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں