آسیب زدہ قوم

محرومیوں سے بھرا بچپن، ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی جوانی، آہوں سے بھرا بڑھاپا اور اذیتوں سے بھری موت، یہ کہانی ہے، اُن آٹھ کروڑ پاکستانیوں کی، جنہیں سرکار نے، سرکاری طور پر غریب قرار دیا ہے، غیرسرکاری اعداد و شمار اگرچہ مختلف، حقیقت سے قریب تر اور زیادہ مستند ہیں، وہ اعداد و شمار جو لگ بھگ بارہ کروڑ پاکستانیوں کو غریب بتاتے ہیں۔ باقی آٹھ کروڑ بھی امیر نہیں، نسبتاً کم غریب ہیں، اگر امیر ہیں تو صرف جاگیردار، وڈیرے، کرپشن میں لتھڑے بڑے بابو، وزیر، مشیر اور انہی کے عزیز اور رشتہ دار جو صنعتکار اور سرمایہ کار ہیں۔ ہاں گنتی کے چند ایسے بھی ہیں، جنہوں نے محنت، دیانت اور قابلیت سے، اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں سنوار لیں۔ 
غربت کا آسیب، ہمارے بچوں کا بچپن نگل جاتا ہے اور نوجوانی بھی۔ ہوش سنبھالتے ہی، گھر سنبھالنے کی فکریں آن گھیرتی ہیں۔ بچپن نوجوانی میں ڈھلتا نہیں، کہ ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑتا ہے۔ اپنے لیے، اور گھر والوں کے لیے کمانے کا بوجھ۔ کھیلنے کودنے، ہنسنے ہنسانے، گھومنے پھرنے کے دن، نوجوانی کے دن، جنہیں زندگی کے بہترین دن کہا جاتا ہے، انہی دنوں میں ایسی مشقتیں کرنا پڑتی ہیں کہ کمریں دہری ہو جاتی ہیں۔ خواب مر جاتے ہیں اور خواہشیں بھی، ہر دن، اگلے دن کی فکر میں کٹ جاتا ہے۔ پھر جوانی میں ہی بڑھاپا نازل ہونا شرو ع ہو جاتا ہے، محرومیاںجھریاں بن کر چہروں پر نمودار ہونے لگتی ہیں، گہرے سیاہ حلقے، آنکھوں کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں، گھر اور گھر والوں کی ذمہ داریاں سنبھالتے سنبھالتے، شادیوں کی عمریں گزر جاتی ہیں۔ صرف لڑکوں نہیں، لڑکیوں کی بھی یہی کہانی ہے، جن کے چہرے، وقت سے پہلے مرجھا جاتے ہیں، دل کے ارمان بجھ جاتے ہیں، بالوں میں چاندی اتر آتی ہے، اور شادی سے پہلے ہی، زندگی جوانی کی دہلیز پار کر جاتی ہے۔
خوشی کیا، غم کیا، ہمارے لوگوں کی زندگی میں ایک ہی وقت، ایک ہی موسم ٹھہرا رہتا ہے۔ شادی کا موقع ہو، عید یا کوئی اور تہوار، گھر کا مالی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، جو مہینوں سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ کوئی بیمار ہو جائے تو صرف اپنی نہیں، مدد کرنے والے، دوستوں اور عزیزوں تک کی جیبیں خالی ہو جاتی ہیں، پھر زندگی کے کئی برس، قرض کا بوجھ اتارنے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ہماری زندگیوں اور خوشحال معاشروں کی زندگیوں میں کتنا فرق ہے، وہ معاشرے، جہاں آئے روز خوشیوں کے تہوار منائے جاتے ہیں، جو خوشیاں منانے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، کہیں ایک دوسرے کو ٹماٹر مارنے کا تہوار، کہیں نقلی تلواروں سے جنگ، کہیں پانی کی بندوقوں سے لڑائی، کہیں برف کے گولوں کی بوچھاڑ، کہیں مصنوعی بلائوں سے مقابلہ، کہیں جوکروں کی پریڈ، کہیں شہزادوں اور پریوں کے کارواں، کہیں پورے چاند کا استقبال، کہیں آتش بازی سے رنگین آسمان کا نظارہ، ہر برس درجنوں تہوار، لاکھوں کروڑوں لوگوں کی شرکت، غریب امیر کی تفریق سے بالاتر، فکروں سے آزاد، پورے دل و جان سے، زندگی کا پورا لطف اُٹھاتے، اپنے حصے کی پوری خوشیاں مناتے، ان کا حال، ہماری حالت زار سے کتنا مختلف ہے۔
ہماری بدحالی کتنی قابل رحم، اور خوش حال معاشروں کی خوش حالی کتنی قابل رشک ہے۔ کیسے تندرست و توانا لوگ، لمبے قد، چوڑی چھاتیاں، تر و تازہ چہرے، طویل عمریں، اور ہمارے ہاں؟ پیدائش سے پہلے ہی ماں اور بچہ دونوں غذ ائی قلت کا شکار، ہر ہزار میں چھیاسٹھ بچے دو برس کے اندر موت کا لقمہ بن جاتے ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں، ان میں بھی کئی، طویل عرصہ بیماریوں سے لڑتے رہتے ہیں، ان کی جسمانی نشوونما ہو پاتی ہے نہ ذہنی۔ طبی سہولتوں کا یہ حال کہ ہر 1600 افراد کے لیے ہسپتال کا صرف ایک بیڈ۔ اوسط طبعی عمر کے لحاظ سے پاکستان کا دنیا میں ایک سو اڑتالیسواں نمبر ہے، صرف جنگ زدہ اور افریقہ کے قحط زدہ ممالک ہم سے پیچھے ہیں۔ پاکستان میں اوسط عمر پینسٹھ جبکہ بنگلہ دیش تک میں اکہتر برس ہے۔ بھوٹان اور نیپال جیسے ممالک بھی، اوسط عمر میں پاکستان سے آگے ہیں۔
پاکستان میں غربت کا حالیہ جائزہ بھی چونکا دینے والا ہے۔ اس جائزے کے مطابق، قبائلی علاقوں میں غربت اور پسماندگی کی شرح تہتر، بلوچستان میں اکہتر، خیبر پختونخوا میں انچاس جبکہ سندھ اور گلگت بلتستان میں تینتالیس فیصد ہے۔ پنجاب میں یہ شرح اگرچہ اکتیس فیصد ہے لیکن اس کے جنوبی اضلاع سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار کیا ظاہر کرتے ہیں؟ جن علاقوں میں قبائلی، سرداری، وڈیرانہ اور جاگیردارانہ نظام ہے، وہاں پسماندگی زیادہ ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اگر پسماندگی ختم ہو جائے، تو سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کا راج ختم ہو جائے گا۔ لوگوں کو نسل در نسل، غلام اور مزارعے بنانے کا چکر نہیں چل سکے گا۔ حکومتوں کی توجہ بھی، ان علاقوں پر کم ہی ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا سیاسی مفاد دیکھتی ہیں۔ استحصالی نظام ختم کرنے کے بجائے، اسے برقرار رکھنے کے لیے، اہل اقتدار زیادہ معاونت کرتے ہیں۔
انہتر برس میں، کتنی حکومتیں بدل گئیں، اقتدار کے کھیل میں کتنے ہی کھلاڑی فرش سے عرش پر جا پہنچے، وہ جو ککھ پتی تھے، لکھ پتی نہیں، کروڑ پتی اور ارب پتی ہو گئے، لیکن اقتدار کی راہداریوں سے باہر، عام آدمی کے حالات بھی بدلے؟ کتنے غریب خود یا ان کی اگلی نسل امیر ہو گئی؟ سرکار کبھی ایسا سروے بھی کروائے گی؟ وہ سرکار، عشروں سے جس کے صرف اداکار بدلتے ہیں، لیکن ان کے کردار، ایک جیسے ہی رہتے ہیں۔ خود امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں، اور غریب بیچارے، غریب تر۔
اٹھارہویں صدی کے آخر میں، فرانسیسی ملکہ سے ایک مقولہ منسوب ہوا، لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں، تو انہیں کہو کیک کھائیں۔ سوا دو سو برس ہوتے ہیں، آج تک، جب بھی کسی حکمران کی بے حسی کا ماتم کرنا ہو تو یہ مقولہ دہرایا جاتا ہے۔ بے حس فرانسیسی ملکہ، ہمارے وزیر خزانہ کے سامنے کیا بیچتی ہے، انہوں نے اس ملکہ کا مقولہ دہرانے کے بجائے، اسے نئی جہت عطا کی، فرماتے ہیں، دال مہنگی ہے تو مرغی کا گوشت کھائیں۔ ان کا یہ شاہی فرمان، ملکی ہی نہیں، بھارتی، عرب اور مغربی میڈیا کی زینت بھی بنا۔ ایسی ایسی سرخیاں نکالی گئیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام مزید روشن ہو گیا۔
سالہا سال سے حکمرانوں کی بے حسی نے ہمارے لوگوں کو بے حس و حرکت کر رکھا ہے، ان کی خوشی محسوس کرنے کی حس تک مر چکی، فکرِ معاش میں جکڑی، محرومیوں میں لپٹی، بے کیف، بے رنگ اور اکتا دینے والی زندگی، ان کا مقدر بن چکی، ان کے دلوں میں کوئی امنگ جاگتی ہے، نہ کوئی آرزو کروٹ لیتی ہے۔ سب سے بڑا مقصد، سب سے بڑا خواب بس یہی ہے کہ کسی طرح دو وقت کی روٹی پوری ہوتی رہے، اس سے آگے سوچ بڑھتی ہی نہیں، پوری زندگی یہی مقصد پورا کرنے میں پوری ہو جاتی ہے۔ انہتر برس سے، نسل در نسل یہی ہوتا آ رہا ہے، اور شاید نسل در نسل یہی ہوتا رہے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں