ڈگڈگی خاموش ہوچکی، ڈگڈگی بجانے والے بھی، خود ساختہ نجومی اور ماہر فلکیات بھی، سوچ سمجھ کر، جان بوجھ کر، جھوٹی پیش گوئیاں کرنے والے، ہر وقت کسی تماشے کی آس میں کہ ان کی بقا تماشوں میں ہی ہے، غیر جمہوری تماشوں میں، جن کا امکان اب نہ ہونے کے برابر ہے۔
پنڈی کے ایک عامل، نجومی نما سیاست دان، اقتدار کے لیے، رنگ برنگی چوکھٹوں پر جو سجدہ ریز رہے، اقتدار سے دوری پر، اب صبح شام تلملاتے ہیں، نِت نئے جنتر منتر پڑھتے، پورے نظام کو ایک ہی پھونک سے بھسم کرنے کی شیخیاں بگھارتے ہیں۔ دو برس ہوتے ہیں، قربانی سے پہلے، قربانی کا دعویٰ ان صاحب نے کیا، ایک دو بار نہیں، درجنوں مرتبہ۔ ایسے مُکے لہرا کر، ایسے پکے منہ بنا کر کہ جیسے وہ خود فیصلہ ساز ہوں۔ قربانی تو نہ ہوئی، ان صاحب کی سبکی ضرور ہوئی، اگرچہ اسے محسوس کرنے کی صلاحیت، اُن میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ جب سب الٹے سیدھے راگ، جھوٹی موٹی پیش گوئیاں، اور تخیلاتی جوڑ توڑ، ہوا میں اُڑ گئے تو پٹاری سے نئی کہانی نکال لائے۔ آخری سو دنوں کی کہانی۔ منہ سے جھاگ اڑاتے، علم الاعداد کا حساب کتاب لگاتے، موصوف نے نئی پیش گوئی داغ دی، سو دن میں بڑا انقلاب آنے کی پیش گوئی، ایسا تصوراتی انقلاب جس کے لیے وہ اشارے کے منتظر ہیں، لیکن انہیں اشارہ دینے والا کوئی نہیں۔
سول اور عسکری حلقوں میں کبھی قربتیں اور کبھی دوریاں، یہ کوئی راز نہیں۔ اکسانے والوں کی افلاطونی منطق ایک طرف، لیکن فوج کی ترجیحات کیا ہیں؟ ایک نہیں، کئی بار آرمی چیف واضح کر چکے۔ اقتصادی راہداری کو ملکی ترقی کا ضامن وہ قرار دیتے ہیں، اور اس کی حفاظت کو اولین ترجیح۔ آپریشن ضرب عضب میں کامیابیوں اور قربانیوں کی تاریخ پاک فوج نے رقم کی۔ وطن اور وطن والوں پر حملہ آور جتھوں سے، اب بھی وہ نبرد آزما ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحد کی نگرانی، ملک دشمن ایجنسیوں اور بھارتی عزائم سے نمٹنے کے چیلنجز فوج کے سامنے ہیں۔ اس صورت حال میں فوج سیاسی عدم استحکام چاہے گی؟
سیاسی یتیم اور نجومی، عمران خان کو ورغلانے کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ عمران خان، جو بڑے بڑے جلسے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگرچہ اپنی مقبولیت کو انتخابی کامیابیوں میں ڈھالنے کا ہنر انہیں کم ہی آتا ہے۔ خان صاحب جلتے کڑھتے زیادہ، سوچتے اور غور کم کرتے ہیں۔ یہ صرف ان کے حریفوں کا نہیں، حلیفوں اور دوستوں کا بھی خیال ہے۔ سیاسی پسماندگان نے عمران کو ہمیشہ احتجاج پر اکسائے رکھا، مسلسل تین برس وہ جلسوں اور دھرنوں میں گرجتے برستے رہے۔ اپنا دل جلایا اور پارٹی کارکنوں کا بھی لیکن بے سود۔ پورے تین برس، پارٹی کی تنظیم سازی پر کوئی توجہ نہ دی گئی، یونین کونسلز اور مقامی سطح پر تحریک انصاف منظم جماعت میں نہ ڈھل سکی۔ پارٹی الیکشن کا مرحلہ آیا تو مرکزی رہنما ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے لگے۔ اندرونی اختلافات حد سے بڑھے اور چار و ناچار الیکشن ہی ملتوی کرنا پڑ گئے۔ مقامی سطح پر تنظیم سازی نہ ہونے کے باعث پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست تحریک انصاف کا مقدر بنی اور پھر بغیر تیاری کے آزاد کشمیر کے انتخابات میں کودنا پڑا۔ تبدیلی کے لیے نظرِ انتخاب کسی اور پر نہیں، بیرسٹر سلطان محمود پر ٹھہری، جو نظام کی تبدیلی نہیں، پارٹیاں تبدیل کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ عمران خان کے نو جلسے، اور صرف دو نشستیں، اکتالیس میں سے دو۔ بیرسٹر صاحب تبدیلی لائے، اور وہ یہ کہ اپنی آبائی نشست بھی گنوا بیٹھے۔ انتخابی نتائج نے پاناما سکینڈل اور بیماری کے بوجھ تلے دبے وزیر اعظم کو نیا ولولہ اور جوش و جذبہ بخش دیا۔ اُدھر خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کا نیا باغی گروپ سامنے آ گیا۔ عمران خان کی توانائیاں اب حکومت سے لڑنے پر کم‘ پارٹی کی اندرونی لڑائیاں ختم کرانے پر زیادہ صرف ہوں گی۔
پاناما لیکس سے جڑی احتجاجی تحریک کے معاملے پر بھی، عمران خان تنہا ہو چکے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ فی الحال سڑکوں پر آنے سے کوئی سیاسی مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ پیپلز پارٹی، جو آزاد کشمیر انتخابات سے پہلے عمران اور بلاول کے مشترکہ کنٹینر کے نعرے لگا رہی تھی، اب چپ سادھے ہوئے ہے۔ الٹا عمران خان کو احتجاج کے لیے تنہا پرواز کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔ پاناما لیکس کی شفاف ترین تحقیقات صرف عمران خان کی نہیں ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ تحریک انصاف اپوزیشن ہے اور احتجاج کرنا اپوزیشن کا حق ہوا کرتا ہے۔ عمران خان احتجاجی تحریک ضرور چلائیں، لیکن ان سیاسی شعبدہ بازوں سے بچیں، جو خود تو کچھ نہیں کر سکتے، دوسروں کو جھوٹے سچے لارے لگا کر، مہم جوئی کی ترغیب دیتے ہیں۔ کینیڈا کے ایک علامہ بھی مہم جوئی کی نیٹ پریکٹس کرنے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔ عمران خان جیسے عوامی سیاست دان کو نجومیوں اور موسمی مہم جوئوں کا سنگ زیب دیتا ہے؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ احتجاجی تحریکوں اور مہم جوئی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر کسی مہم جوئی کا فی الحال کوئی جواز نہیں۔ اس معاملے پر الیکشن کمیشن اور نیب میں ریفرنس دائر ہو چکے۔ اگر عمران خان کو ان اداروں سے انصاف کی امید نہیں تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کن تحریک چلانے کے لیے حالات سازگار نہیں۔ یہ بات خود عمران خان بھی جانتے ہیں۔ کیا تحریک انصاف یا اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت، قبل از وقت انتخابات کے لیے تیار ہے؟ اگر قبل از وقت انتخابات ہو بھی جائیں، تو کیا مسلم لیگ ن کو ہرانا آسان ہو گا؟ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات، اور آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج کیا بتاتے ہیں؟ عمران خان نے جتنا وقت، احتجاج اور دھرنوں میں صرف کیا، اس کا آدھا وقت بھی پارٹی کی تنظیم سازی پر لگاتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کا مکمل صفایا نہ ہوتا۔ وہ پنجاب جہاں عمران خان نے مسلم لیگ ن کو چیلنج کرنا تھا، وہ پنجاب جسے اگلے عام انتخابات میں جیتنا عمران خان کے لیے ناگزیر ہے، اگر انہوں نے وزیر اعظم بننا ہے! بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کا خمیازہ، تحریک انصاف کو 2018ء کے الیکشن میں بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، جس کے اندر بڑی کشش ہے، ہر عام پاکستانی اپنی زندگی اور نظام میں تبدیلی چاہتا ہے، لیکن یہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ عمران خان تبدیلی کے لیے، احتجاج اور دھرنے جیسے حربے آزما چکے، کیا کوئی تبدیلی وہ لا سکے؟ جس تبدیلی کے خواب عمران خان نے دیکھے اور دکھائے، وہ صرف اسی صورت آ سکتی ہے کہ اپنی پارٹی کو منظم کریں اور اگلے انتخابات میں ووٹ کی طاقت سے تبدیلی لے آئیں۔