بھوک مِٹ جاتی ہے، ہوس کی لیکن کوئی حد نہیں، پیٹ بھر بھی جائے تو نیت نہیں بھرتی۔ امیر کبیر ارکان پارلے منٹ کی تنخواہوں میں اضافہ، تھوڑا بہت نہیں، ڈیڑھ سو فیصد تک، بھوک ہے یا ہوس؟ جاننے والے جانتے ہیں، ہوس کبھی تمام نہیں ہوتی۔
پاکستان کیسے عجیب و غریب تضادات کا ملک ہے، غریب ترین عوام، امیر ترین حکمران، آٹھ کروڑ لوگ جہاں غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں، زندگی جن کے لیے مشکل، موت آسان ہے، سسکتے تڑپتے دن وہ پورے کر رہے ہیں۔ غربت کی لکیر کا تعین بھی سفاکانہ اور بے رحمانہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غریب صرف وہ ہے‘ جو تین ہزار روپے ماہانہ سے کم کما رہا ہے، یعنی اس سے زیادہ کمانے والا امیر ہے؟ غذائی قلت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 118 ملکوں میں 107ویں نمبر پر ہے، صرف خانہ جنگی اور قحط کا شکار چند ملک پاکستان سے پیچھے ہیں۔ بھارت اور سری لنکا تو ایک طرف، بنگلہ دیش تک ہم سے 17 درجے آگے ہے۔ پاکستان میں ہر سال تین لاکھ بچے غذائی قلت اور طبّی سہولتیں نہ ہونے کے باعث پانچ سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں۔ ہر ایک ہزار میں سے چالیس بچے پیدائش کے پہلے ہی دن فوت ہو جاتے ہیں، پاکستان میں یہ شرح تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ زچگی کے دوران ہر سال اٹھائیس ہزار پاکستانی خواتین کی موت ہو جاتی ہے۔ ملک میں ہر 1683 مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں صرف ایک بستر دستیاب ہے۔ ہر ایک ہزار اڑتیس مریضوں کے علاج کے لیے صرف ایک ڈاکٹر جبکہ ہر دو ہزار مریضوں کے لیے صرف ایک نرس موجود ہے۔ قومی آمدن کا صرف 0.8 فیصد صحت عامہ پر جبکہ 2.2 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پاکستانیوں کو صاف پانی میسر نہیں۔ صاف پانی کی عدم فراہمی کے حوالے سے پاکستان کا نمبر آخری دس ممالک میں ہے۔ گمنام افریقی ممالک بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ گندے پانی کی وجہ سے ہر برس تیس لاکھ پاکستانی خطرناک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں اڑتالیس فیصد سکولوں میں چاردیواری، ٹوائلٹ اور پانی کی سہولت نہیں، ان سکولوں میں ہمارے مستقبل کے معمار پڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں پانچ سے سولہ برس کے اڑھائی کروڑ بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ سرکار نے مزدور کی ماہانہ اجرت چودہ ہزار روپے مقرر کر رکھی ہے، آدھوں کو اس کا آدھا بھی نہیں ملتا، حکومت کوئی بھی ہو، ہر سال اس میں ایک ہزار روپے سے زیادہ اضافہ نہیں ہوتا۔ ترقی یافتہ ملک تو ایک جانب، ترقی پذیر ملکوں میں بھی کم سے کم اجرت پاکستان سے تین گنا تک زیادہ ہے۔ یہ اس ملک کے عوام کا حال ہے جس کے حکمرانوں نے خود ہی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں روپے کا اضافہ کر لیا ہے۔
ہماری پارلے منٹ میں کس طبقے کے لوگ ہیں؟ کم سے کم ستر فیصد جاگیردار، وڈیرے، صنعت کار اور سرمایہ کار، قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے پر اوسط اخراجات سات کروڑ جبکہ صوبائی حلقے میں انتخاب کا اوسط خرچ چارکروڑ روپے ہے۔ بڑے اور اہم حلقوں میں یہ اخراجات بیس سے پچاس کروڑ روپے تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ 2015ء میں حلقہ این اے ایک سو بائیس کے ضمنی انتخابات میںمجموعی طور پر اڑھائی سے تین ارب روپے خرچ کئے گئے، وہی حلقہ جہاں ایاز صادق اور علیم خان آمنے سامنے تھے۔ سینیٹ کی نشستوں کا باقاعدہ بھائو بھی ہوتا ہے، کئی امیدوار سینیٹر بننے کے لیے کروڑوں روپے کا ہدیہ دینے کو تیار رہتے ہیں۔ ایسی شاہی پارلے منٹ کے شاہی ارکان کو تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ الیکشن پر کیا گیا خرچہ عوام کے ٹیکسوں سے پورا کرنا ہے؟ یہ امیر کبیر قانون ساز خود کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟ پہلی پارلیمنٹیرینز ڈائریکٹری کے مطابق319 ارکان قومی اسمبلی
میں سے 108 نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا، مطلب ان کی ماہانہ آمدن 33 ہزار روپے سے بھی کم تھی؟ تین ارکان ایسے تھے جنہوں نے سو روپے سے بھی کم ٹیکس ادا کیا۔ گزشتہ برس 160 ارکان قومی اسمبلی نے صرف سترہ ہزار سے پچاس ہزار روپے تک ٹیکس دیا، یعنی ان کی ماہانہ آمدن 65 سے 95 ہزار روپے تھی۔ پارلے منٹ میں ان کی کارکردگی بھی ''اپنی مثال آپ‘‘ ہے۔ موجودہ پارلے منٹ میں 159 ارکان ایسے ہیں‘ جنہوں نے کبھی وقفہ سوالات میں ایک لفظ تک بولنا گوارا نہیں کیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سال میں ایک سو تیس دن ہوتا ہے، پچاس فیصد سے زائد ارکان، پچاس فیصد سے زائد دنوں میں ایوان سے غیر حاضر ہوتے ہیں، کئی تو ایسے ہیں جو مہینوں پارلیمنٹ کو اپنی زیارت نہیں کراتے۔ قانون سازی اور ایوان میں بل پیش کرنے کے معاملے میں بھی 90 فیصد ارکان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، کبھی کوئی بل انہوں نے پیش کیا‘ نہ ہی انہیں اس کی کوئی سمجھ بوجھ ہے، وہ صرف پارٹی پالیسی کے مطابق بِلز پر ہاں یا ناں کے ٹھپے لگانا جانتے ہیں۔ اہم ترین قومی معاملات پر بحث کے لیے اتنے ارکان بھی ایوان میں نہیں ہوتے کہ اجلاس جاری رکھا جا سکے۔ اس کے باوجود تمام ارکان تنخواہیں اور مراعات پوری
بٹورتے ہیں، اور اس کی ادائیگی کہاں سے ہوتی ہے؟ براہ راست عام لوگوں کی جیبوں سے۔ ارکان پارلے منٹ کی مراعات بھی ایسی ہیں کہ عام آدمی ان کا تصور تک نہیں کر سکتا، لاکھوں روپے کے بزنس کلاس ہوائی ٹکٹ، میڈیکل الائونس، اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے سفری الائونس، دفتر کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کے الائونس، یوٹیلٹی الائونس، پارلے منٹ لاجز کے پُرآسائش کمرے، قائمہ کمیٹی کا رکن بننے پر الگ معاوضہ، کمیٹی کا چیئرمین یا وزیر بننے پر اسلام آباد میں عالیشان گھر بھی۔ تقرریوں، تبادلوں، سفارشوں کے لیے اثر و رسوخ الگ۔ رواں مالی سال پارلے منٹ کا بجٹ 72 کروڑ روپے بڑھایا گیا‘ اور اب تنخواہوں میں اضافے سے قومی خزانے پر ہر سال 40 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، وہ قومی خزانہ جسے بھرنے کی ذمہ داری عوام کی ہے۔ سادہ لوح حیران ہیں کہ سیاسی معاملات پر آپس میں لڑنے بِھڑنے والے ارکان پارلیمنٹ ذاتی مفادات پر کیسے ایک ہو گئے۔ تنخواہیں اور مراعات بڑھائے جانے پر اسحاق ڈار کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سینیٹ میں باضابطہ قرارداد منظور کی گئی۔
کہنے والے کہتے ہیں‘ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، پاکستانی سیاست دانوں کے لیے سو فیصد درست۔ یہی سیاست دان ایوان اقتدار میں پہنچنے کے بعد پتھر کے بت بن جاتے ہیں، بے حس، گونگے اور بہرے۔ انہیں اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، سال بدل جاتے ہیں حکومتیں بھی لیکن عوام کی حالت زار بدلتی ہے نہ حکمرانوں کے شاہی اطوار۔