ڈان لیکس، کلبھوشن اور گریٹ گیم

زخم بھر جاتے ہیں، نشان مگر چھوڑ جاتے ہیں، ایسے نشان برسوں جو مٹتے نہیں۔ جسم پر اگر وہ دھندلا بھی جائیں، ذہنوں میں لیکن زندہ رہتے ہیں۔ ایک اور گھائو ہے، سول اور عسکری تعلقات پر جو لگا ہے، ڈان لیکس کے معاملے پر۔ یہ گھائو اگرچہ اب بھر رہا ہے، نشان مگر اس کا کب مٹے گا؟ ستر برس میں کوئی جان سکا نہ جان پائے گا۔ آپس میں لڑتے بھڑتے سانحہ مشرقی پاکستان ہم پر گزر گیا، کتنے اور سانحوں کے ہم منتظر ہیں؟
معاملہ فوجی ٹویٹ یا حکومتی نوٹیفکیشن بدلنے کا نہیں، سوچ بدلنے کا ہے۔ سوچنے کی زحمت اگرچہ ہم کم ہی کرتے ہیں۔ ایک نہیں، بیک وقت کئی محاذ ہمارے لیے کھل چکے۔ ایک جال ہے، ہمارے گرِد جو بُنا جا رہا ہے۔ مودی سرکار اور ان کے سرپرستوں کا منصوبہ واضح ہے۔ تمام ہمسایوں سے پاکستان کو الگ تھلگ کرنا، پھر اسے مکمل عدم استحکام سے دوچار کرنا۔ سرمایہ ان کے پاس بہت ہے، کابل سے چاہ بہار تک پیسہ وہ بہا رہے ہیں۔ افغانستان ہم پر بارود برسانے لگا ہے، ایران ہمیں دھمکانے لگا ہے۔ ہماری تین سرحدیں آگ اُگلنے لگی ہیں۔ مستونگ سے گوادر تک، دہشت گردی کی نئی لہر ہے۔ یہ ایک ''گریٹ گیم‘‘ کا آغاز ہے۔ جاننے والے سب جانتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری صرف بھارت کو نہیں، امریکا کو بھی کھٹکتی ہے۔ دنیا میں ایک ''نیو ورلڈ آرڈر‘‘ آ رہا ہے، اس مرتبہ امریکا کا نہیں، چین کا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کا نام ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبہ ہے۔ پہلے مرحلے میں ہی اڑسٹھ ممالک اس منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ اس منصوبے پر ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا چکی۔ اگلے دس برس میں اس پر مزید آٹھ ہزار ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کا پہلا حصہ ''سِلک روڈ اکنامک بیلٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ منصوبے کے تحت وسطی اور شمالی بیلٹ (یعنی سڑکیں) وسط ایشیا اور روس سے گزرتی ہوئی یورپ تک پہنچیں گی۔ دوسری جانب جنوبی بیلٹ چین سے شروع ہو گی، پھر پاکستان سے گزرتے ہوئے ساحلی پٹی تک پہنچے گی۔ اس منصوبے کا دوسرا حصہ ''میری ٹائم سِلک روڈ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ مال بردار بحری جہازوں کے راستوں کا نیٹ ورک ہے۔ اس منصوبے کے تحت نئی بندرگاہوں کا جال بچھایا جائے گا۔ ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبہ چار ارب چالیس کروڑ افراد کی زندگیوں پر مثبت اثرات ڈالے گا۔ دنیا کی سپر پاور بننا چین کا خواب ہے، پاک چین اقتصادی راہداری اس خواب کی پہلی تعبیر ہے۔ سی پیک کو ہی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا پائلٹ پروجیکٹ قرار دیا گیا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت سی پیک پہلا منصوبہ ہے جس پر عملی کام شروع ہو چکا۔ اسی کے ذریعے چین دیگر ملکوں کو قائل کر رہا ہے، اس بات پر کہ ون بیلٹ ون روڈ فسانہ نہیں، حقیقت ہے۔ روس، ترکی، وسط ایشیائی اور چند یورپی ممالک بھی اس منصوبے پر چین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ منصوبہ مکمل ہو گیا تو دنیا پر امریکا کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ چین کا عالمی اثر و رسوخ بھی امریکا سے کئی گنا بڑھ جائے گا۔ بھارت بھی اس منصوبے سے خائف ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کا عالمی فورم گزشتہ ہفتے بیجنگ میں ہوا۔ اس فورم میں پاکستان، روس اور ترکی سمیت انتیس ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم شریک ہوئے۔ بھارت نے اس عالمی فورم کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ ساتھ ہی وہ پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف زہر بھی اگلتا رہا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے سی پیک کو بھارت کی سرحدی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دے ڈالا۔ راہداری منصوبہ پاکستان کی تقدیر بدل دے گا، یہ بھارت بھی جانتا ہے۔ بھارت اس منصوبے کی پورے ''عزم‘‘ سے مخالفت کرے گا، سشما سوراج یہ پہلے ہی کہہ چکیں، کیا اس کا مطلب سمجھنے کے لیے افلاطونی عقل درکار ہے؟ کہنے والے کہتے ہیں‘ امریکا بھی ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کو ناکام دیکھنا چاہتا ہے، چین کا راستہ روکنے کے لیے۔ اس منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے سی پیک کو سبوتاژ کرنا ضروری ہے، اسی لیے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ مرے مِٹے دہشت گرد گروہ پھر سر اُٹھانے لگے ہیں، جو کالعدم تنظیمیں تھک ہار کر قصہ ماضی بننے لگی تھیں، ان میں دوبارہ جان پڑ گئی ہے۔ ان کی سرپرستی کون کر رہا ہے، اب یہ کوئی راز نہیں۔ بھارت کے ساتھ سرحد پہلے ہی گرم تھی، اب افغان سرحد بھی سلگنے لگی ہے۔ کوئی دلیل، کوئی منطق افغانستان سننے اور ماننے کو تیار نہیں۔ ایرانی آرمی چیف پاکستان کے اندر کارروائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بجا کہ بہت سی غلطیاں ہم سے ہوئیں، اپنے گھر میں آگ ہم نے خود لگائی، اس آگ کو مگر اب دشمن بھڑکا رہے ہیں، کوئی اور نہیں ہم خود ہی ان کے سہولت کار ہیں۔
دشمن اپنی چالیں چل رہے ہیں، ہم مگر اپنی مستی میں مست ہیں۔ حریفوں کا مقابلہ ہم نے کیا کرنا، آپس میں لڑنے سے ہمیں فرصت نہیں۔ ہماری فوج پہلے ہی چومکھی جنگ لڑ رہی ہے، کچھ یار لوگ اسے سیاست میں بھی الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے ٹویٹ اور نوٹیفکیشن پر ہم لڑتے بھڑتے رہے، اب کلبھوشن کے معاملے پر دست و گریباں ہیں۔ کوئی حکومت کو عالمی عدالت انصاف میں جانے پر لتاڑ رہا ہے، کوئی فوج پر تنقید کے نشتر برسا رہا ہے، اگرچہ یہ فیصلہ مشترکہ تھا۔ عدالتی فیصلے سے ایک روز پہلے تک پاکستانی وکیل خاور قریشی ہیرو تھے، فیصلے کے بعد زیرو ہو گئے۔ دنیا کا کوئی تضحیک آمیز سابقہ یا لاحقہ نہیں، جو ہم نے ان کے نام کے ساتھ نہ جوڑا ہو۔ ہوش نہیں جوش ہم پر غالب رہتا ہے۔ بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے، عالمی طاقتوں کے مفادات فی الحال بھارت سے جُڑے ہیں۔ اس کا عالمی اثرورسوخ بھی پاکستان سے کہیں زیادہ ہے، یورپ اور امریکا میں سزائے موت ختم کی جا رہی ہے۔ اس صورت حال میں عالمی عدالت کی ابتدائی سماعت سے کیا توقع کی جا سکتی تھی؟ بھارت والے جشن منا رہے ہیں، ہم سوشل میڈیا سے ٹی وی اسکرینوں تک، آپس میں جنگ عظیم لڑ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں کوئی وفادار نہیں، سب غدار ہیں۔ قومی سلامتی کسی ایک خبر یا اخبار سے نہیں، اندرونی انتشار سے دائو پر لگتی ہے، ڈھاکہ سے بغداد تک یہی سبق تاریخ کے سینے پر رقم ہے۔
دنیا میں ایک ''نیو ورلڈ آرڈر‘‘ آ رہا ہے، اس مرتبہ امریکا کا نہیں، چین کا۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کا نام ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبہ ہے۔ پہلے مرحلے میں ہی اڑسٹھ ممالک اس منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ اس منصوبے پر ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا چکی۔ اگلے دس برس میں اس پر مزید آٹھ ہزار ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کا پہلا حصہ ''سِلک روڈ اکنامک بیلٹ‘‘ کہلاتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں