سربجیت سنگھ کی موت کے بعد جوابی کارروائی کے طور پر جموں کی کوٹ بلاول جیل میں سیالکوٹ کے رہنے والے پاکستانی شہری رانا ثناء اللہ کا قتل دراصل بھارت اور پاکستان کی جیلوں میں ایک دوسرے کے قیدیوں کی افسوس ناک صورت حال کی ایک معمولی جھلک ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں قید ایک دوسرے کے شہری دنیا کے شاید سب سے بدقسمت انسان ہیں۔ بھارتی جیلوں میں ہر جمعہ مغربی اور دوسرے ممالک کے سفارت کاروں کی قطار دکھائی دیتی ہے جو ان جیلوں میں قید اپنے شہریوں کوسفارتی اور قانونی امداد دینے کے لیے آتے ہیں‘ لیکن پاکستانی قیدیوں کو اس طرح کی قانونی اور سفارتی مدد دینے کے لیے کوئی پاکستانی سفارت کار دکھائی نہیں دیتا۔ یہی حال پاکستانی جیلوں میںبندبھارتی قیدیوں کا ہے۔ اگر انہیں کبھی سفارتی مدد حاصل ہو بھی جاتی ہے تو صرف قسمت کے سہارے یا سیاسی ہنگامہ آرائی کے سبب‘ اور اس کا انحصار دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات کی نرمی اور گرمی پر ہوتا ہے ۔ دونوں ملکوں کی سردمہری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت بھارت میں 35 پاکستانی قیدی دماغی توازن کھو چکے ہیں۔ یہ بدقسمت افراد اپنی سزا کی مدت پوری کر چکے ہیں اور بھارتی حکام انہیں رہا کرنے کے لیے تیار ہیں مگر ان کی شہریت کا تعین کرنا ایک مسئلہ ہے۔ ان میں سے چھ گونگے بہرے قیدی امرتسر کی جیل میں سزا پوری کرنے کے باوجود بند ہیں۔ وہ اپنا نام تک نہیں بتا سکتے۔ پولیس نے بھی کاغذات میں انکا نام گونگا ولدیت نامعلوم درج کی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل جب بھارتی جیلوں میں بند پاکستانی قیدیوں کو سفارتی مدد کے لیے دہلی کی تہاڑ جیل میں لایا گیا تھا تو ان میں ایک ذہنی طور پر معذور 45 سالہ قیدی بہاء الدین بھی تھا جو کوئٹہ کے نواحی گائوں کا رہنے والا تھا۔ وہ بیچارا اس گمان میں تھا کہ وہ پاکستان کی کسی جیل میں بند ہے۔ کھیتوں میں مزدوری کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے والے بہائو الدین کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ فوجیوں کو دیکھا اور ان سے پینے کے لیے پانی کی درخواست کی لیکن پانی کے بجائے اسے جیل کی کال کوٹھری مل گئی۔ اسے صرف اپنے گائوں کے مکھیا فتح سلیمان خیل اور اپنے ایک پڑوسی فیض محمد کا نام یاد رہ گیا تھا۔ ایسے بہت سے پاکستانی ہیں جو ہندوستانی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کمسن بچوں کی عمر صرف پانچ برس ہے۔ان کی حالت انتہائی کربناک ہے۔ ان کی باتیں سن کر دل تڑپ جاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کے غریب دیہاتی پاکستان کی جیلوں میں تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگرچہ پاک بھارت جوڈیشل کمیٹی قائم کی جاچکی ہے لیکن اس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ کمیٹی میں شامل دونوں ملکوں کے ریٹائرڈ جج صاحبان صرف مشورے اور سفارشات پیش کرسکتے ہیں‘ حکام شاذ و نادر ہی ان کی سفارشات پر غور کرتے ہیں۔ جب سربجیت سنگھ کا معاملہ جنوبی ایشیا کے اخبارات میں صفحہ اول پر چھایا رہا اُس وقت اس طرف کسی کی نگاہ نہیں گئی کہ ایسے سینکڑوں قیدی بھارتی اور پاکستانی جیلوں میں بند ہیں جن میں سے اکثر کے جرم کی نوعیت بھی بہت معمولی ہے۔ کچھ مبینہ طور پر جاسوس ہیں لیکن زیادہ ایسے ہیں جن پر ہندوستان میں مقررہ مدت سے زیادہ دنوں تک قیام کرنے یا سرحد پار کرکے ہندوستانی علاقے میں داخل ہوجانے کا الزام ہے۔ تہاڑ جیل میں بند پاکستانی قیدیوں کو سفارتی امداد کی فراہمی کے موقع پر پتہ چلا کہ ان قیدیوں میں پانچ بچے بھی ہیں جن میں سے پانچ سالہ زبیر اور نو سالہ سہیل اپنی ماں سلمیٰ بیگم کے ساتھ اور 5سالہ آمنہ ‘8 سالہ سہیل اور 10سالہ عائشہ اپنی والدہ ممتاز کے ساتھ قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ ان کا معاملہ میڈیا میں نہیں اٹھایا گیا۔ کراچی کی رہنے والی روبی تقریباً پاگل ہوچکی ہے۔ اسے نئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں اس کے تین بچے لاپتہ ہوگئے تھے۔ مطلقہ روبی بنگلہ دیشی شوہر کا گھر چھوڑ کر جعلی دستاویزات کے ذریعہ دہلی سے کراچی جانے کی کوشش کررہی تھی کہ گرفتار ہو گئی۔ 26 جولائی 2004ء کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر اترنے کے بعد اسے اپنے بچوں کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ جو شخص اسے دہلی لے کر آیا تھا اس نے اسے راجستھان جانے والی ایک ٹرین پر بچوں کے بغیر ہی سوار کردیا۔ اپنے بچوں کو نہ پاکر وہ گھبرا گئی اور اسی گھبراہٹ اور افراتفری میں پولیس کے ہتھے چڑھ گئی۔روبی کہتی ہے کہ وہ اس وقت تک پاکستان نہیں جائے گی جب تک اس کے بچے مل نہیں جاتے۔ لاہور کے باٹا پور کا رہنے والا 32سالہ محمد اعجاز 1999ء سے تہاڑ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔وہ ہریانہ اور دہلی میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے ایک باضابطہ اور قانونی پاکستانی پاسپورٹ پر ہندوستان آیا تھا۔4اکتوبر 1999ء کو دہلی میں اس کے ایک پڑوسی اسلم نے اُسے تاج محل دکھانے کے لیے آگرہ چلنے کی پیش کش کی اور ا ُس سے سفری دستاویزات لے لیں مگر بعد میں پلٹ کر نہیں آیا۔ پولیس نے اعجاز کو گرفتار کرلیا۔ اعجاز نے درخواست کی کہ کم از کم سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعہ اس کے دہلی آنے کے ریکارڈ پر ایک نگاہ تو ڈال لیں لیکن عدالت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بیشتر قیدیوں کو شکایت ہے کہ چونکہ وہ پاکستانی ہیں اس لیے انہیں بھارتی قیدیوں کے ہاتھوں جسمانی تشدد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ پاکستانی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے دنوں انہوں نے جن پاکستانی قیدیوں سے ملاقات کی ان میں سے کم از کم چار ایسے تھے جو چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے ہیں۔لاہور کے ٹمپل روڈ کا رضوان الحق 1996ء سے ہندوستانی جیل میں بند ہیں‘ اس کا ٹخنہ اور پائوں ٹوٹ گیا ہے۔24 سالہ محمد ثقلین اور خرم شہزاد علی دونوں 2005ء سے ہندوستانی جیلوں میں بند ہیں۔ان کے جسم کو کئی بار تیز دھار ہتھیاروں کی مار جھیلنی پڑی اور کئی جگہ کٹنے کے نشانات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ملتان کے حاجی اقبال کھوکھر ممبئی کے آرتھر روڈ جیل میں ہیں اور انہیں چھڑی کے سہارے چلنا پڑتا ہے جب کہ 26 سالہ شفیق احمد 1999 سے جیلوں میں بند ہیں اور ان کی پیٹھ پر تشدد کے نشانات اپنی کہانی سناتے ہیں۔ شفیق احمد رحیم یار خان کی ایک درگاہ پر زیارت کے لیے گئے تھے کہ اپنا راستہ بھول گئے اور گرفتار کرلیے گئے۔ وہ ان دنوں جودھپو رسنٹرل جیل میں اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔ بہر حال سربجیت اور ثناء اللہ کی موت کے واقعات سے یہ امیدپیدا ہوئی ہے کہ دونوں ملکوں کے بے آسرا قیدیوں کو شاید راحت مل سکے۔دونوں ملکوں کی حکومتوں کو کم از کم ایسے قیدیوں کو تو رہا کر دینا چاہئے جنہوں نے اپنی سزا کی مدت پوری کرلی ہے اور جن کی شہریت کی تصدیق بھی ہوچکی ہے۔صرف کراچی جیل میں ہی 26 ایسے بھارتی قیدی ہیں جنہوں نے اپنی سزا کی مدت مکمل کرلی ہے۔اسی طرح ہندوستانی جیلوں میں بند 47 پاکستانی قیدیوں کی سزا کی مدت پوری ہوچکی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب اعلیٰ عہدے پر فائز ائر مارشل کری اپا جیسے آفیسر کو پاکستانیوں نے پکڑا تو ان کی آناََ فاناََ رہائی کو یقینی بنایا گیا ۔ حتی کہ کرگل جنگ کے دوران جو بھارتی پائلٹ غلطی سے پاکستانی علاقے میں چلے گئے تھے انہیں چند دنوں کے اندر ہی واپس بھیج دیا گیا لیکن دونوں ملکوں کے عام شہریوں کی قسمت ایسی نہیں ہے۔ وہ افسر شاہی اور لال فیتہ کا شکار ہوکر برسوں اندھیری کوٹھری میں اپنی قسمت کو کوسنے کے لیے مجبور ہیں۔شاید اب دونوں ملکوں کی حکومتوں کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ جاگے اور ان بدقسمت قیدیوں کے دن پھریں۔