ڈھائی سال قبل عام انتخابات کی کوریج کے دوران بہار کے وسطی ضلع سمستی پور کے دوردرازگائوں میں کالج کے پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ ان کا تجزیہ مدلل اور فرقہ واریت سے مبرّا تھا۔گائوں کی گلیوں سے گزرتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے ایک زیر تعمیر مدرسے اور مسجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شکایت کی کہ مسلمانوں کے پاس خلیجی ممالک سے خاصا پیسہ آ رہا ہے، لیکن دوسر ی جانب ہندوئوں کا کوئی پرسان حال نہیں، اس لئے نریندر مودی کو ایک بار وزیر اعظم بننا چاہیے تاکہ مسلمانوںکو تھوڑا بہت سبق سکھایا جاسکے۔ بات پوری کرنے سے قبل ہی ان کو احساس ہوا کہ وہ اپنا درد دل ایک مسلم صحافی کے سامنے بیان کر رہے ہیں، اس لئے جلد موضوع بدل دیا۔
اس وقت بھارت کے پانچ صوبوں اتر پردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور کی اسمبلیوں کے لئے انتخابات کا عمل جاری ہے۔ پنجاب اورگوا میں ووٹنگ مکمل ہو چکی جبکہ اتراکھنڈ میں ایک دو روز میں مکمل ہو جائے گی، مگر سبھی نگاہیں سیاسی لحاظ سے سب سے اہم صوبہ اترپردیش پر لگی ہوئی ہیں، جہاں انتخابی عمل سات مرحلوں پر محیط ہے اور ابھی پہلا مرحلہ ختم ہوا ہے۔ 19کروڑ نفوس پر مشتمل اس صوبے سے لوک سبھا کی 543 میں سے 80 نشستیں ہیں، اس لئے اسمبلی کے نتائج کا مرکزی سیاست پر اثر انداز ہونا لازمی ہے۔ اس صوبے میں مسلمانوں کی آبادی 3کروڑ یعنی 19.3فیصد ہے۔ مشہور ملی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دارالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم، بریلی مکتبہ فکر کا مرکزی ادارہ بھی اسی صوبے میں ہیں۔ چونکہ بھارت میں ووٹنگ اکثر ذات پات اور برادری کی بنیاد پر ہوتی ہے، اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہاں دلت 21.1 فیصد، دیگر پسماندہ ذاتیں 44 فیصد، اعلیٰ ذاتیں 16فیصد اور مسلمان سب سے زیادہ یعنی 19.3فیصد ہیں۔ بھارت میں انتخابات قومی میڈیا کے لئے ملک کے اندرونی علاقوں سے رابطہ رکھنے کا نایاب موقع فراہم کرتے ہیں، اس لئے انتخابات کا بگل بجتے ہی راقم نے صوبے کی مسلم سیاست اور سب سے بڑی اقلیت کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لئے میرٹھ، دیوبند، سہارنپور، بجنور، مراد آباد، رام پور اور بریلی کا سفر کیا۔۔۔تقریباً 1400کلومیٹر! ایک خوشگوار صورتحال تو یہ دیکھنے کو ملی کہ تمام مسلمان مسلکی اختلافات کو بالائے طاق پر رکھ کر نریندر مودی اور ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ گزشتہ برس جس تنظیم نے مودی اور مرکزی حکومت کے ایما پر مسلکی منافرت کو ہوا دینے کے لئے دہلی میں ورلڈ صوفی کانفرنس منعقدکی تھی اس نے بھی بی جے پی کو ہرانے کے لئے ان انتخابات میں دلت لیڈر مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس صورتحال کا منفی پہلو یہ ہے کہ مسلمان پہلی بار اجتماعی عدم سلامتی کے شکار ہیں اور ان کی ترجیحات تعمیر و ترقی کے بجائے بقا اور تحفظ ہے، جو خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بریلی میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کے پڑ پوتے توقیر رضا خان نے پتے کی بات کہی: ''صرف ہم مسلمان ایک دوسرے کوکافر قرار دیکرگلہ کاٹنے پر اتر آتے ہیں،کافر ہم سب کو مسلمان سمجھ کر اس کی سزا دیتا ہے۔ ایسے میں آخر ہم کیوں ملی اتحاد کی طرف مائل نہیں ہوتے؟‘‘ دیوبند اور بریلی کے درمیان محض 300کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر مسلکی منافرت نے اس کو صدیوں کا فاصلہ بنا کر رکھا ہے۔ توقیر میاں نے گزشتہ سال دارالعلوم دیوبند میں حاضری دیکر اور وہاں کے علماء سے گفت و شنید کرکے منجمد برف میں شگاف ڈالنے کا قابل تعریف کارنامہ انجام دیا تھا، جس کے لئے ان کو خاصی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ کئی مفتیوں نے ان کے لئے تجدید نکاح کا فتویٰ صادر کر دیا۔ تاہم ان کے ساتھ ملاقات کے دوران ظاہر ہوا کہ وہ اتحاد ملت کے مشن پر کار بند ہیں۔
بی جے پی لیڈروں کی طرف سے آئے دن مسلم مخالف بیانات، قصبوں اور دیہات میں قبرستانوں پر قبضے کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی اور اس نوعیت کے دوسرے جھگڑوں نے مسلمانوںکی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کالے دھن کو ختم کرنے کے نام پر مودی نے ہزار اور پانچ سو کے نوٹ بند کرکے مسلمان کاریگروں اور تاجروں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ اتر پردیش ہنر مندوں کی سرزمیں ہے، مسلمان اور دوسرے بادشاہوں نے صنعتوں کو پذیرائی بخشی۔ ہر علاقے کی مخصوص صنعت پر اجارہ داری تھی۔ مثلًا فرنیچر کے لئے سہارنپور، سجاوٹ کا سامان بنانے کے لئے سنبھل، کپڑے کے لئے بنارس، قالینوں کے لئے مرزا پور اورتالوں کے لئے علی گڑھ وغیرہ۔ سرکاری سرپرستی سے محرومی، تحقیق و ترقی کی عدم دستیابی اور نئے ڈیزائن کی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے باعث یہ ہنر اب آخری سانسیں لے رہے ہیں جبکہ نوٹ بندی نے بچے کھچے کاریگروں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ بریلی کے شاہمت گنج میں زردوزی کے کارخانے بند ہوچکے ہیں۔ معین خان کا ایکسپورٹ کا بڑا آرڈر کینسل ہوچکا ہے۔سہارنپور میں فرنیچر کے تاجر حاجی فرقان بتاتے ہیںکہ ان کے کارخانے میں دسمبر تک 50 کاریگر تھے، مگر اب 10 رکھنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس صنعت سے سالانہ 6 ارب روپے کا کاروبارہوتا تھا جو اس سال بمشکل ایک سے ڈیڑھ ارب رہ جائے گا۔ رام پور میں چاقوئوں کی صنعت کو تقریباً بند کردیا گیا ہے۔ ان صنعتوں کے کاریگر اکثر مسلمان ہیں، انہیں تعلیم کے ساتھ منسلک کرکے اور ادارہ جاتی صورت دینا کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔
اگرچہ ہندوئوں کے کاروبار بھی نوٹ بندی کی زد میں آچکے ہیں، شاید دیہی علاقوں میں مودی کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔ شہری علاقوں میںکاروباراعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے پاس ہوتا ہے لیکن وہ بھی مودی کے اس اقدام کی مخالفت توکرتے ہیں، مگر پھر یہ بھی کہتے ہیںکہ ملک کے لئے تھوڑی بہت قربانی تو دینی پڑتی ہے۔
دارالعلوم دیوبند نے غیر جانبداری ظاہرکرنے کے لئے سیاسی لیڈروں اور میڈیا پر الیکشن کا عمل مکمل ہونے تک اپنے دروازے بند کرلے ہیں، مگر مدرسے سے متصل مولانا انور شاہ کشمیری لولابی کے پوتے وجاہت شاہ اس پر برہم ہیں کہ اس نازک وقت پر قوم کی رہنمائی کرنے کے بجائے دارالعلوم کے ذمہ داروں نے چادر اوڑھ لی ہے۔
1992ء میں بابری مسجد کے سانحہ کے بعد اس صوبے میںکانگریس کے زوال کے بعد سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کے مسیحا کے روپ میں ابھرکر سامنے آئے تھے۔ اگرچہ ترقی کے نام پر انہوں نے بھی کچھ نہ دیا مگر فسادات کو
قصہ پارینہ بنا دیا تھا۔ سلامتی کے احساس نے مسلمانوں کو تجارت اور دیگر شعبوں کی طرف بھی مائل کر دیا تھا۔ اس بار ملائم سنگھ کے صاحبزادے اکھلیش سنگھ نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے مسلم ووٹوں کی مضبوط دعویداری پیش کی ہے، مگر مایاوتی نے بھی مسلم ووٹ حاصل کرنے کی خاطر 96 مسلمان امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ دلت مسلمان اتحاد مثالی تو لگتا ہے، تاہم یہ اتحاد ابھی ایک خواب ہے کیونکہ مسلمان خود بھی اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی طرح دلتوںکو مساواتی نگاہ سے دیکھنا گوارا نہیں کرتے، انہیں غلیظ اور اچھوت سمجھتے ہیں۔ چونکہ اقتصادی طور پر دونوں ہی حاشیہ پر ہیں، اس لئے قصبوں اور دیہات میں دلت اور مسلم بستیاں ساتھ ساتھ ہوتی ہیں اور وسائل ہتھیانے کے لئے آپس میں ٹکرا بھی جاتے ہیں، جو اکثر ہندومسلم فساد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس اتحاد کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے دونوں طرف مضبوط لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ دیوبند کی میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین ضیاء الدین انصاری کا کہنا تھا کہ یہ مسلمانوں کے لئے آزمائش کا وقت ہے۔ اگر مسلمانوں کا بڑا حصہ 21 فیصد دلتوں کے ساتھ اتحاد کرتا ہے تو مایاوتی انتخابات میں سب کا صفایا کر دے گی۔ مایاوتی کے برعکس اکھلیش یادو کی کمیونٹی صرف 9 فیصد ہے۔ مقامی سطح پر مسلمانوں کو یہ احساس بھی ہے کہ ان کی طرف سے سیکولر امیدوارں کی حمایت کو ان کی مجبوری سمجھا جاتا ہے جس سے ان کی سیاسی حیثیت بے اثر ہو جاتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخابی سیاست میں ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، یہی قوت آئندہ کے لیے سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کا سبب بنتی ہے۔ ہار اور جیت کی پروا کیے بغیر اگر مسلم ووٹر طویل مدتی منصوبے سے جنوبی صوبہ کیرالا کی طرز پر اپنی قیادت کھڑی کرکے ان کو مضبوط بنائیں تو شاید منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا۔