بھارت میں پانچ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا عمل مکمل ہونے کو ہے۔ اب سب کی نگاہیں11مارچ پرلگی ہوئی ہیں جب نتائج کا اعلان ہوگا۔ چونکہ یہ انتخابات وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں اور ان کی شخصیت کے لئے ایک طرح کے ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں، اس لئے لگتا ہے کہ نتائج نہ صرف ملکی صورتحال بلکہ خارجہ امور خصوصاً پاکستان پالیسی پر بھی اثر انداز ہوںگے۔
قرائن بتا رہے ہیںکہ مودی حکومت اب پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرکے جمود توڑنا چاہتی ہے اگرچہ باضابط مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرنے میں وقت لگے گا۔ لاہور میں سندھ طاس کمیشن کے اجلاس میں بھارت کی شرکت اور سارک تنظیم کے لئے پاکستانی سفارتکار امجد سیال کی بحیثیت سیکرٹری جنرل تقرری سے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ بھارت نے اس سے قبل اسی سفارتکار کے تقرر کی سخت مخالفت کی تھی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس سال جون میں قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے سربراہ اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور مودی کی ملاقات کا بھی بندوبست کیا جا رہا ہے۔ ادھر کچھ عرصے سے پانی کے تنازع اور بلوچستان کے حوالے سے بھارت کے رویے میں نرمی آئی ہے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسند جو گزشتہ برس قطار در قطار دہلی وارد ہورہے تھے، اب مودی حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے خلاف سخت گیر پالیسی اور سرجیکل اسٹرائیکس کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے اتر پردیش کی انتخابی مہم میں خوب اچھالا لیکن اب 2019ء کے عام انتخابات تک اس کارڈ کی افادیت ختم ہوگئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے بھارت اور پاکستان کے ذمہ داران کسی نہ کسی سطح پر رابطے میں ہیں۔ حافظ سعید کی نظر بندی اور ان کے کارکنوں کے اسلحہ لائسنسوں کی منسوخی جیسے
اقدامات اسی بیک چینل کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ ان حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی سفیر عبد الباسط کو نظر انداز کرکے تہمینہ جنجوعہ کو سیکرٹری خارجہ بنانا بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ عبد الباسط سے خارکھائے ہوئے ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی وزیراعظم نوازشریف بھارت پاکستان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے خاصے سرگر م تھے اور اس کا برملا اظہار انہوں نے دسمبر 2015 ء میں اپنی رہائش گاہ پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے کیا تھا، مگر پاکستانی سفیر نے دو بار قومی سلامتی مشیروں اور خارجہ سیکرٹریوں کی میٹنگ کے موقع پرکشمیری حریت رہنمائوں کو دہلی بلا کر اس عمل کو سبوتاژ کیا۔ بھارت نے تعلقات معمول پر لانے کے لئے یہ نیا عنصر شامل کیا ہے کہ سلسلہ جنبانی سے قبل کسی بھی صورت میں کشمیری رہنمائوں سے رابط نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس طرح ایک فریق کے طور پر ان کی حیثیت تسلیم ہوتی ہے جو مودی حکومت کے لئے قابل قبول نہیں۔کشمیر سے آنے والی تشویشناک رپورٹوں کے علاوہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، اپوزیشن لیڈر عمر عبدا للہ اور دیگر بھارت نواز لیڈروں کے دبائو پر دہلی حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے، مگر اس میں وہ کشمیر کو شامل کر نے پر تیار نہیں۔ اگر کشمیر کا ذکر ہو بھی تو بس واجبی سا۔
ماضی میں اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کی حکومتوں نے دو ٹریکس یعنی پاکستان اور کشمیری رہنمائوں کے ساتھ الگ الگ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا تھا، مگر ان کی اسٹریٹیجی یہ تھی کہ مفاہمت کی کوئی صورت نکلتے ہی ان دونوں ٹریکس کو آپس میں ملادیا جائے۔ اس کے برعکس مودی حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ یہ دونوں ٹریک الگ راہوں پر کام کریں۔ کشمیرکے لئے مودی حکومت نے جو جائزہ رپورٹ تیار کی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس میں مساجد، مدرسوں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پرکنٹرول کرنا، انٹیلی جنس سیٹ اپ کی مضبوطی اور حریت کے اعتدال پسند دھڑے تک پہنچنے کی تجاویز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سنگ بازی کے واقعات میں ملوث افراد پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرنے اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لئے سپیشل آپریشن گروپ کو پھر سے زندہ کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ یہ رپورٹ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی زیر نگرانی تیار کی گئی ہے۔ رپورٹ میں وادی کے سیاسی حالات میں تبدیلی لانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے 2014ء کے انتخابات میں حصہ لینے والوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی بات بھی کہی گئی ہے۔ اگرچہ رپورٹ میں مسلح شورش اور عوامی بغاوت پر تفصیل موجود ہے تاہم اس میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ رپورٹ میں بھارت نواز سیاست سے وابستہ لوگوں کے ذریعے کشمیر میں مزید لوگوں کو لبھانے کے لئے کچھ مالی سکیمیں شروع کرانے کی بات کی گئی ہے۔
وادی میں عسکریت پسندی کو کچلنے کے لئے رپورٹ میں آئمہ مساجد کی خدمات حاصل کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ تجویز دی گئی ہے کہ شیعہ، گوجر بکروال اور پہاڑی مسلمانوںکو لبھا کر آزادی پسند گروپ سے باہر نکالا جائے۔ ان کے لئے خصوصی ترقیاتی سکیمیں شروع کی جائیں۔ بھارت نواز اخبارات اور نیوز چینلزکی حوصلہ افزائی کر کے بھارت مخالف میڈیا کوکنٹرول کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں سخت گیر آزادی پسند قیادت پر انکم ٹیکس اور دوسرے اداروں کی جانب سے کریک ڈائون کرانے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔
لگتا ہے کہ یہ رپورٹ جس افسر نے ترتیب دی ہے، وہ تفاوت زمانی کا شکار ہے۔ اس میںکوئی بھی ایسی تجویز نہیں ہے جس کو بھارتی حکومت نے پچھلے 25 برسوں کے دوران کشمیر میں آزما نہ لیا ہو۔ اس سے حکومت کے عوام مخالف عزائم صاف نظر آتے ہیں اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ اب بھی نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر ہے۔ وہ مسئلہ حل کرنے کے لئے اْسی ازکار رفتہ طریقہ کار پر عمل کرنا چاہتی ہے جو گزشتہ ستر برس کے دوران بار بار ناکام ہو چکا ہے۔ مودی کو بی جے پی کے ہی مقتدر لیڈر یشونت سنہا اور سابق مرکزی وزیر داخلہ پی چدم برم کی آواز پر کان دھرنے چاہئیں۔ چدم برم کا یہ بیان کہ ''کشمیر تقریباً بھارت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے‘‘ حکومتی سیاسی حلقوںکی فکر و تشویش کا مظہر ہے۔ اگر چہ حکمران حلقوں کی جانب سے پی چدم برم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، تاہم ایک سابق وزیر داخلہ کے تاثرات کو محض سیاست قرار دے کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ برس کی ایجی ٹیشن کے حوالے سے چدم برم نے واضح الفاظ میںکہا کہ صورتحال کو قابو کرنے کے لئے طاقت کا ''بے رحمانہ‘‘ استعمال کیا گیا۔
عسکریت پسندی سے نمٹنے کے نام پر ماضی میں سرکار کے حمایت یافتہ بندوق برداروں کی سرپرستی اور ایس او جی کی کارروائیوں سے حقوق انسانی کی پامالیوں کا گراف کیا رہا ہے، اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ حکومت کو بالآخر
2002 ء میں ایس او جی کو ختم کرنا پڑا اور یہ حقیقت ہے کہ اس کا خاتمہ موجودہ حکمران جماعت، پی ڈی پی کے اْس وقت کے الیکشن ایجنڈا کا اہم حصہ تھا، بلکہ جنوبی کشمیر میں پی ڈی پی کی جانب سے غالباً اکثریت کا حصول، جو نیشنل کانفرنس حکومت کے خاتمے کی وجہ بن گیا،کا ایک اہم سبب بھی تھا۔ اس پس منظر میں آزمودہ نسخوں کو نئے سرے سے آزمانے کو پالیسی کا نام دینا بذات خودالمیہ اورکشمیر کے تئیں انتہا پسندانہ سوچ کا مظہر ہے۔ بھارت اور پاکستان میں مذاکرات اور بیک چینل کی بحالی خوش آئند اقدام ہے۔ جنگ زدہ ماحول میں رہنے والوں سے زیادہ امن کی خواہش کس کو ہو سکتی ہے، مگر پاک بھارت مذاکرات سے کشمیر کو منفی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہی ان کے درمیان سب سے بڑا تنازع ہے۔کشمیر میں جو کچھ آشکار ہو رہا ہے اس سے یہی پیغام ملتا ہے کہ مسئلہ کے حل میں دیر کرنا خطے کے لئے خطرنا ک ہے۔ چند روز قبل دہلی میں ایک کتاب کی رسم رونمائی کے موقع پر سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کہا کہ اسلام آباد کا راستہ سرینگر سے گزرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ کئی مہینوں میں کشمیر کے کئی دورے کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کے لئے کشمیریوں کے مسائل کا حل تلاش کرنا ازحد ضروی ہے۔ اقوام عالم کو بھی یہ بتانا ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کے پچھواڑے میں ایک لاوا پک رہا ہے، یہ آتش فشان پھٹ کر پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کرسکتا ہے۔ فوجی حل سے آپ وقتی امن تو قائم کرسکتے ہیں، مگر یہ قبرستان کی خاموشی ہوگی، جس میں خوف و دہشت کی آمیزش ہوتی ہے۔ پاکستان کے لئے لازم ہے کہ استقامت سے کام لیتے ہوئے کشمیر کی صورت حال کو پیش نظر رکھے اور بھارت پاکستان مذاکرات میں اس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کروانے کی سعی کرے۔