دسمبر 2014ء کے انتخابات کے بعد جب کشمیر میں معلق اسمبلی وجود میں آئی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے لئے کانگریس یا ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں سے کسی ایک کی بیساکھی کے سہارے اقتدار میں آنا لازمی ہوگیا تو فروری 2015ء میں پی ڈی پی کے سرپرست مفتی محمد سعید سے جموں میں ان کی رہائش گاہ پر ایک انٹرویو کے دوران میں نے پوچھا: کہیں بی جے پی کو اقتدار میں شریک کروا کے وہ کشمیریوں کے مصائب کی رات مزید تاریک کروانے کے مرتکب تو نہیں ہوںگے؟ انہوں نے کہا، کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور شناخت کے حوالے سے بھارت کی دونوں قومی جماعتوں کا موقف تقریباً ایک جیسا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک واقعہ سنایا: مارچ 1986ء میں جب وہ ریاستی کانگریس کے سربراہ تھے اور انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی تھی تو وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کی خواہش تھی کہ اگلے دو سال تک سرینگر میں کانگریس کو حکومت کا موقع ملنا چاہیے۔ حکومت سازی پر بات چیت کے لئے ان کو دہلی بلایا گیا۔ وزیر اعظم ہائوس میں میٹنگ ہوئی جس میں کانگریس کے قومی کارگزار صدر ارجن سنگھ بھی شامل تھے۔ راجیو گاندھی نے ارجن سنگھ کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے پوچھا، کانگریسی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد کیا ترجیحات ہونی چاہئیں؟ ارجن سنگھ نے جواب دیا، پورا ملک جموں وکشمیر کے انڈین یونین میں مکمل انضمام کا خواہش مند ہے اور یہ عمل 1975ء کے بعد رک گیا ہے، اس عمل کو دوبارہ شروع کروانے اور منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا۔ اس دوران راجیوگاندھی نے اپنے پرائیوٹ سیکرٹری سے کہا کہ گورنر ہائوس اور مفتی سعید سے رابط کر کے وزیر اعلیٰ کی تقریب حلف برداری کا تعین ایسے کریںکہ وہ بھی جموں جا کر تقریب میں شامل ہو سکیں۔ وہ (مفتی سعید) اس بات چیت سے انتہائی دلبرداشتہ ہوگئے اور واپس جموں پہنچ کر (ان کے بقول) انہوں نے درپردہ ایسی پیچیدگیاں پیداکیں کہ کانگریس کی حکومت سازی کا پلان چوپٹ ہوگیا۔
ایک سال بعد راجیو - فاروق ایکارڈ کے نتیجے میں فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی۔ مفتی سعید جو اس وقت تک وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز نہیں ہوئے تھے، اعتراف کیا کہ 1953ء سے 1975ء تک کشمیر کی انفرادیت اور شناخت کو بری طرح مسخ کیا گیا اور اس طرح کشمیریوں کی عزت و آبروکو تار تارکرکے برہنہ کر دیا گیا۔ بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کی موجودہ شکل میں تو اب صرف زیر جامہ بچا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نوازکشمیری پارٹیوں، نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی کا فرض ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکے دائمی حل کی کوئی سبیل پیدا ہونے تک اس زیر جامہ کو بچا کر رکھیں۔ مگر کم و بیش دو سال بعد ایسا لگتا ہے کہ مفتی محمد سعید کی صاحبزادی، موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بی جے پی کے ساتھ مل کر ان زیر جاموںکو تار تار کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
بیک ڈور سے غیر ریاستی ہندو ریفوجیزکو رہائشی پرمٹ دینا، علیحدہ پنڈت کالونیاں بسانا اور اب آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم ولادت پر تعطیل کے لئے اسمبلی سے قرارداد پاس کروانا بے شرمی اورکشمیریوں کو ان کی سیاسی بے وزنی کا احساس دلانے کی آخری حد ہے۔ یہ فیصلہ 2008 ء کے امر ناتھ قضیہ سے بھی زیادہ خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا اور اس سے ایک بار پھر خرمن میں آگ لگ سکتی ہے۔ ایک طرف اس مہاراجہ کے مظالم کے خلاف شہدا کے مزاروں پر ہر سال 13جولائی کو میلہ لگانا اور ان کے قاتل ہری سنگھ کے جنم دن کو متبرک قرار دینا ایک سنگین مذاق ہے۔ آخر قاتل اور مقتول کیسے ایک ہی صف میں کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔کیا بھارت کبھی جنرل ڈائر کے جنم دن کو یاد منانے کے لئے چھٹی کا اعلان کرسکتا ہے؟ دہلی اور ہندو انتہا پسندوں کی شہ پر جس طرح اس خطے میں مسلم اکثریتی آبادی کو نیچا دکھانے اور انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، اس کا انجام پورے خطے کے لیے خطرناک ہوگا۔
بی جے پی اور اس کے لیڈر اپنے بیانات اور عملی اقدامات کے ذریعے ریاست کے مسلم اکثریتی فرقہ کے سینوں میں میخ گاڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ یہ بات اب سرینگر میں زبان زد عام ہے کہ یہ وہ پی ڈی پی نہیں جس نے 2003ء اور 2005ء کے درمیان دہلی کے روایتی کٹھ پتلی حکومت کے بجائے ایک پر اعتماد اور کشمیری عوام کے مفادات اور ترجیحات کے ترجمان کے طور پر نئی تاریخ رقم کی تھی۔ مسلم آبادی کو مزید احساس محرومی کا شکار کرنے کے لیے اب تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے تاکہ یہ باورکرایا جائے کہ ریاست کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران تھے۔ اکھنور میں جیا پوتا کے مقام پر کئی برسوں سے مہاراجہ گلاب سنگھ کاجنم د ن منایا جاتا ہے۔ ان کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ کانگریسی لیڈر بھی ان تقریبوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ شعوری طورپر کوشش کی جارہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوںکو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجائے۔ اس خطے کے ایک مقتدر لیڈر اور قلم کار کرشن دیو سیٹھی نے اس روش کے خلاف آوازاٹھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جموں کے اصلی ہیروئوں کی یادیں لوگوں کے ذہن سے محو کردینے کے مترادف ہے۔ یہ کوشش ڈاکٹرکرن سنگھ اور ان کے کاسہ لیس متواتر کرتے رہے تاکہ ان کے آبائو اجداد کو ہیرو اور خود ان کو ان کا وارث قراردے کر اس خطہ میں جاگیر دارانہ نظریات کااحیائِ نو کیا جائے۔ یہ بھی کوشش ہو رہی ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے جنم دن (7 اکتوبر)کو بھی سرکاری تعطیل کرائی جائے۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے بت نصب کرنے اور مہاراجہ ہری سنگھ کا جنم دن بھی منانے کی روش چل پڑی ہے۔ ان کا بت بھی جموں میں کھڑا کیا گیا ہے۔ سیٹھی صاحب کے بقول اس خاندان کے مہاراجوں میں سے صرف مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو باقی رکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کن وجوہ کی بنا پر ان کو چھوڑ کر اس خاندان کے باقی سارے مہاراجوں کو ہیرو قرار دیا جارہا ہے۔
افسوس کہ جموں کے باشعور سیاسی کارکنوں، سماجی تنظیموں‘ تاریخ کے ماہروں، دانشوروں، ترقی پسندوں، ادیبوں، شاعروں اور محققین نے تاریخ کو مسخ کرنے کے ان واقعات اور جاگیر دارانہ نظریات کے احیائِ نو پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سیٹھی صاحب کا کہنا ہے کہ جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے مہاراجوں، جبر و تشدد کرنے والے مطلق العنان راجواڑوں اورعوامی مفادات بیچ کر اقتدارحاصل کرنے والے حاکموں کو تاریخ ساز ہیرو قرار دینا تاریخ کے ساتھ سب سے بڑی بے انصافی ہے۔ انہوں نے اس ریاست میں راج کس طرح حاصل کیا، وہ تاریخ میںدرج ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام اور لاہورکے سکھ دربار سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا اور ان کے لواحقین جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہے۔ بھلا انہیں جموںکا ہیروکیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبر دست مزاحمت ہوئی۔ جموںمیں لاہور دربار کے خلاف زبر دست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ سرفروش کر رہے تھے۔ راجہ گلاب سنگھ کے والد اور خود گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھ کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کرمیاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ جیالوں کو قتل کیا۔ ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں میں وسعت دینے اورڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کرنے کے عوض راجہ گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ لاہور دربار کو خوش کرنے کے لئے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ، بلاور، بسوہلی،بھمبر، ٹکری،کرمچی،کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ ، میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کیے گئے یا انہیں ملک بدرکیا گیا۔کھالوں میں بھوسہ بھر کردرختوں کے ساتھ لٹکایا گیا۔ لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کے یہ ہیرو لاہورکے دربار سے غداری کرکے انگریزوں سے مل گئے۔ اس خدمت خاص کے عوض اور 75 لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوںنے تاوان جنگ ڈالا تھا‘ کی ادائیگی کرکے ''بیع نامہ امرتسر‘‘ کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجہ گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ 1846ء سے 1947ء تک جموں کے ''ہیروئوں‘‘ کے اس خانوادے نے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ کرشن دیو سیٹھی پوچھتے ہیںکہ ایک صدی تک اس قدر استحصال، جبر اور ظلم کرنے والا خانوادہ اوراس کے جانشین جموں کے ہیرو کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ جموں کے اصل ہیرو میاںڈیڈو، کیسری سنگھ‘ پونچھ کے راجہ علی خان، سبز علی خان، شمس خان‘ بھمبرکے راجہ سلطان خان وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں جنہوں نے لاہور دربار کی توسیع پسندی اور اپنی آ زادی کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کردیں۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی میںدھنونتری بھاگ مل وغیرہ بے شمار مجاہدین آزادی ہیں جنہوں نے زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ جد و جہد آزادی میں سردار بدھ سنگھ، راجہ اکبر خان، چوہدری غلام عباس وغیرہ کے نام آتے ہیں جنہوں نے راجواڑہ شاہی کے خلاف مجاہدانہ لڑائی لڑی۔ عوامی نکتہ نظر سے اس سے بھی پہلے باواجیتو کا نام آتا ہے جنہوں نے جاگیردارانہ ظلم و تشدد کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جان قربان کردی۔ یہی لوگ تاریخ جموں کے ہیرو ہیں‘ مگر ہندو انتہا پسندی کی آڑ میں خطے میں جاگیردارانہ نظریات کے احیائے نوکی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ راجگان کو تاریخ جموں کا ہیرو ثابت کرنے کی مہم کا آغاز ہو چکا ہے تاکہ جموں میں بسے مسلمانوں اور کشمیر کے اکثریتی فرقے کو ایک بار پھر بے طاقت اور سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے۔
آزادی تو دورکی بات اب تو ڈوگرا راج کی واپسی ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں کشمیر میں تو اب شناخت اور انفرادیت برقرار رکھنا بھی چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ اب یہ فیصلہ مخلص سیاسی لیڈروں کو کرنا ہے کہ وہ کس طرح اس بد نصیب قوم کو غیر یقینی حالات اور مایوسی کے اندھیروں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی پیش رفت کی امید رکھنا بے معنی ہے، مگر کشمیر کی شناخت اور تشخص کے بچائو کے لئے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
بد قسمتی سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ کشمیر کی مختلف الخیال سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے بھاگ رہی ہیں، بلکہ یہ لوگ نریندر مودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں اور ان کی بچی کھچی قوت ِمزاحمت جواب دے بیٹھتی ہے۔ بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچنے کی بجائے اقتدار کی شدید ہوس نے کشمیرکی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس کو نہ صرف بزدل بنا دیا ہے، بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ یہی حال اب پی ڈی پی کا بھی ہے۔ بد قسمتی سے اسکا محور یہ بنا ہوا ہے کہ اقتدار کی نیلم پری سے بوس وکنارکس طرح بر قرار رکھا جائے۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا تو کجا فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے، اس کا توڑ کرنے میں این سی، پی ڈی پی کے باضمیر افراد اور حریت پسند جماعتوں کو بھی باہمی تعاون کرنے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے۔