بھارتی پارلیمان کے دو ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے بیچ میں ایک وسیع ہال ہے، جو سینٹرل ہال کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں بجٹ سیشن کے آغاز میں سال میں ایک بار صدرِ مملکت ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔ باقی دنوں میں اس کو اراکینِ پارلیمان اور وزرا لابی یا آپس میں گفتگو، جوڑ توڑ، سیاسی چالوں کی بساط بچھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ 15 سال تک مسلسل پارلیمنٹ کوّر کرنے والے صحافیوں اور ایڈیٹروں کے لئے بھی سینٹرل ہال کے دروازے کھلے ہوتے ہیں، اس لئے یہاں عام طور پر وزیروں اور لیڈروں کو کیمروں کی چکا چوند سے دور آف دی ریکارڈ سیاسی موضوعات اور ملکی حالات پر بحث مباحثہ اور اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک غیر تحریری معاہدے کے تحت سینٹرل ہال میں وقوع پذیر واقعات اور گفتگو خبروں کی زینت نہیں بنائی جا سکتی۔ چونکہ مہنت یوگی آدتیہ ناتھ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے؛ چنانچہ میں ان کے ساتھ ہوئی گفتگو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں، تاکہ دنیا کو ان کے خیالات اور افکار کے بارے میں آگاہی ہو سکے۔
سال بھر قبل جب آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے صوبہ اتر پردیش کے مشرقی علاقہ گھورکھپور اور خوشی نگر کے علاقہ میں ممبر پارلیمنٹ یوگی مہنت آدتیہ ناتھ کی ہندو یوا واھنی کی طرف سے مقامی مسلم آبادی میں پھیلائی گئی دہشت اور خواتین کے اغوا کی وارداتوں پر ایک رپورٹ شائع کی، تو میں نے آدتیہ ناتھ سے کئی بار ان کا موقف جاننے کیلئے فون پر گفتگو کرنے کی کوشش کی‘ مگر ناکام رہا۔ ایک دن پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران میں نے مہنت جی کو سینٹرل ہال کے ایک کونے میں اکیلے سوپ اور ٹوسٹ نوش فرماتے دیکھا۔ میں نے بیٹھنے کی اجازت طلب کی اور تعارف کے بعد رپورٹ کے حوالے سے ان سے استفسار کیا۔ انہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ ہندو واھنی ان کی قیادت میں کام کرتی ہے، مگر اغوا اور دیگر وارداتوں میں اس کے ملوث ہونے سے انکار کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ آئے روز مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں‘ بھارت میں تقریباً 16کروڑ مسلمان بستے ہیں اور ان سبھی کو ختم کیا جا سکتا ہے‘ نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہندو بنایا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پُرامن زندگی گزار سکیں؟ تو انہو ں نے کہا، ''ہندو کبھی متشدد نہیں ہوتا ہے‘‘۔ تاریخی حوالے دے کر وہ کہنے لگے ''ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں‘ مگر اب وہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ کیونکہ ان کا مذہب، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں‘ اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ‘ ہندوئوں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں‘‘۔ ٹوسٹ کا آخری لقمہ حلق میں اتارتے ہوئے یوگی جی نے کہا، ''مسلمان ہندو دھرم کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ہماری رسوم پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ دوسرا ہر روز پانچ وقت مساجد سے اذان کی آوازیں آتی ہیں، مگر جب ہندو کے کسی جلوس میں بھجن یا اشلوک ڈی جے پر گائے جا رہے ہوں تو وہ تشدد پر اتر آتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت کے کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں اعانت کی‘ مگر ہمیں شکایت مسلمانوں کے رویہ سے ہے۔ وہ ہندوئوں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے جا رہی تھی۔ مسلسل کورم کی گھنٹی بجائی جا رہی تھی۔ یوگی جی ایوان میں جانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جاتے جاتے انہوں نے کہا،''مسلمانوں کو گلے لگانے میں ان کو کوئی پریشانی نہیں ہے اگر وہ دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے مجھے گھورکھپور آنے کی دعوت دے کر کہا کہ میں آ کر خود دیکھوں کہ ان کے راج میں وہاں مسلمان کس قدر پُرامن زندگی گزار رہے ہیں، اور ان کے گئو شالا (گائیوں کا فارم ہائوس) میں کئی درجن مسلمان ملازم گائیوں کی خدمت کرتے ہیں۔
انتخابات کا عمل شروع ہونے سے قبل میری ایک ساتھی خاتون رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی نے یوگی مہنت آدتیہ ناتھ کے حلقہ انتخاب گورکھپور اور خوشی نگر کا دورہ کیا۔ واپسی پر اس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس علاقہ میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کر دیے جانے کی سینکڑوں واردادتیں پولیس سٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اکثر ان لڑکیوں کا ''شُدھی کرن‘‘ کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرا دی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی
بنجاریہ گائوں کی 17 سالہ آسیمہ نے بتایا کہ اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کیلئے دبائو ڈالا گیا‘ مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ گئی۔ خاتون رپورٹر نے بتایا کہ صرف اس ایک گائوں میں نو ایسے خاندان ہیں، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی کی شادیاں کر دی گئیں۔ 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر مہنت آدتیہ ناتھ نے واضح طور پر دھمکی دی تھی کہ ''اگر وہ (مسلمان) ہماری (ہندئو) ایک لڑکی لے جائیں گے، تو ہم ان کی 100 لڑکیاں لے جائیں گے‘‘۔ ان کا اشارہ ہندو انتہاپسندوں کے اس پروپگنڈا کی طرف تھا، جس میں مسلمان نوجوانوں پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو اپنے دام محبت میں پھنسا کر ان کے ساتھ شادیاں رچاتے ہیں‘ اور اس کو ''لو جہاد‘‘ کا نام دیا گیا۔ مقامی افراد نے بتایا کہ مشرقی حصے میں ایک طرح سے ''ریورس لو جہاد‘‘ جاری ہے۔
چوپیہ رام پور گائوں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے اب ایک ہندو خاندان میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے چاچا عبداللہ کا کہنا ہے کہ اغوا کے کئی ہفتوں بعد ان کی بیٹی کو بھری پنچایت میں پیش کرکے زبردستی ہندو بنایا گیا۔2014ء سے اکتوبر 2016ء تک اس علاقہ میں 389 نابالغ مسلمان لڑکیوں کے غائب ہونے کی وارداتیں ریکارڈ کی گئیں۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ بھارت کمار یادو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی فیملی بہ رضا و رغبت لڑکی دوسرے مذہب میں بیاہ کیلئے نہیں دے سکتی‘ مگر کیس درج ہونے کے بعد اور لڑکی کی بازیابی کے بعد اس کی جو حالت ہوتی ہے، وہ اکثر اغوا کاروں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتی ہے برعکس اس کے کہ وہ اپنی فیملی میں جا کر الگ تھلگ یا تنہائی کا شکار ہو کر مزید عذاب جھیلے۔ مشرقی اتر پردیش کا یہ علاقہ کافی پسماندہ اور بدحالی کا شکار ہے۔ اکتوبر 2016ء حبیب انصاری نے اپنی بیٹی نوری کے اغوا میں ملوث چار ہندو لڑکوں کے خلاف کیس واپس لینے کی عرضی کورٹ میں دائر کی۔ دو سال قبل نوری کو گوری سری رام گائوں سے اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔ نوری نے مجسٹریٹ کے سامنے ہندو واھنی سے وابستہ چار افراد کی شناخت بھی کی، جن میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ادتیہ ناتھ کے کارکنوں نے انصاری پر کیس واپس لینے کیلئے دبائو ڈالا، جس کے بعد اس کو گائوں میں دوبارہ رہنے اور کھیتی کرنے کی اجازت مل گئی۔ ویسے بھی دہلی میں مودی حکومت کے آنے کے بعد آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں خاصی سرگرم ہو گئی ہیں۔ 1925ء میں آر ایس ایس قائم ہوئی۔ تب سے لے کر آج تک اس کے حوصلے کبھی اتنے بلند نہیں رہے جتنے آج ہیں۔ اس لئے اس پورے واقعہ کو رقم کرنے کا مقصد مسلمانوں کے سامنے ہندو انتہا پسند لیڈروں کی سوچ کو اجاگر کرنا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور حکمران بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے صوبہ میں انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرکے منتخب اراکین اسمبلی کو درکنار کرکے یوگی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز کروا کے ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک طرح سے 2019ء کے عام انتخابات کی تیاری ہے۔ اور یہ بھی اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں کہ بی جے پی مسلمانوں کی حمایت کے بغیر بھی اقتدر میں آ سکتی ہے اور ہندو فرقہ پرستی کو بھنانے میں اب ان کو کوئی عار نہیں ہے۔