پاکستان اور بھارت کے مابین سیاسی مکالمہ تعطل کا شکار سہی، مگر پانی کے مسائل پر سندھ طاس مشترکہ کمیشن کی لاہور میں میٹنگ ایک خوش آئند قدم ہے۔ پچھلے سال ستمبر میں بھارت نے اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کے بعد پانی کی تقسیم کے معاملے پر خاصا جارحانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے دھمکی بھرے لہجے میں یہ تک کہا، کہ ''پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘‘ سندھ طاس آبی معاہدہ، جو ماضی میں کئی جنگیں اور انتہائی کشیدگی جھیل چکا ہے، کی از سر نو تشریح کیلئے ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ 1960ء میں طے پائے گئے اس معاہدہ کی رو سے بھارتی پنجاب سے بہنے والے دریائوں بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا، اور کشمیر سے بہنے والے دریا یعنی سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کی ضروریات کیلئے وقف کر دیے گئے‘ مگر آب پاشی اور ایسے پروجیکٹ جن سے ان دریائوں کی روانی میں خلل نہ پڑے‘ کی اجازت اس معاہدہ میں شامل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کیلئے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2020ء تک پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی800 کیوبک میٹر تک گھٹ سکتی ہے، جو فی الحال 1200 کیوبک میٹر ہے۔ سندھ طاس معاہدہ پر دستخطوں کے وقت ہر پاکستانی شہری کیلئے 5000 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا۔
پاک بھارت تعلقات پر مطالعاتی بحث میں جائے بغیر، اس کالم کا مقصد یہ ادراک کرانا ہے،کہ پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کے منبعے یعنی کشمیر میں موجود پانی کے ذخائر پچھلے 60 سالوں میں خطرناک حد تک سکڑ چکے ہیں۔ سرینگر کے نواح میں بڑی نمبل، میر گنڈ، شالہ بوگ، ہوکر سر اور شمالی کشمیر میں حئی گام کے پانی کے ذخائر تو خشک ہو چکے ہیں۔ ان کے بیشتر حصوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ سوپور میں تحصیل کے پاس مسلم پیربوگ، جو شہر کے اندر پانی کی ایک جھیل تھی، پر اب شان و بان سے ساتھ ایک شاپنگ مال کھڑا ہے۔ کشمیر میں کوئی ایسا ندی نالہ نہیں ہے، جس میں پچھلے 60 سالوں میں پانی کی مقدار کم نہ ہوئی ہو۔ چند سال قبل ایکشن ایڈ کی ایک سروے میں بتایا
گیا کہ اکثر میں پانی کی سطح ایک تہائی رہ گئی ہے اور چند میں تو نصف ریکارڈ کی گئی۔ ان ندی، نالوں کا پانی ہی جہلم، سندھ اور چناب کو بہائو فراہم کراتا ہے۔ علاوہ ازیں سلسلہ کوہ ہمالیہ میں گلیشئروں کے پگھلنے کی رفتار بھی دنیا کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ سرحدی علاقوں میں ان کی موجودگی سے ان پر سرکاری رازداری قانون کا اطلاق ہوتا ہے، جس سے ان پر تحقیق ہی محدود ہو جاتی ہے۔ چین کے علاقہ تبت، نیپال، بھارت کی شمال شرقی ریاستوں اور اترا کھنڈ نیز جموں و کشمیر، جو ہمالیائی خط میں آتے ہیں، میں ایک اندازہ کے مطابق 15000 گلیشئرز ہیں، جو دنیا کے عظیم دریائی سلسلوں، میکانگ، برہم پترا، گنگا اور سندھ کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے 3136 گلیشئرز کشمیر کے کوہساروں کی پناہ میں ہیں۔ بھارت میں دریائے گنگا اور اس کے گلیشئرز کو بچانے کے لیے بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاصی پرعزم دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف سندھ طاس گلیشئرز کی حفاظت کو نظر انداز کیا جاتا ہے، بلکہ مذہبی یاترائوںکے نام پر ایک طرح سے ان کی پامالی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ دو سال قبل اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے نہ صرف گنگا کو بچانے اور اس کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی، بلکہ اس کام کے لیے اس سال ایک کھرب بیس ارب روپے بھی مختص کئے۔ 2008ء میں اتراکھنڈ صوبے کی اس وقت کی بی جے پی حکومت نے دریائے گنگا کے منبعے ہندوئوں کے مقدس استھان گومکھ گلیشئر کو بچانے کیلئے وہاں جانے پر سخت پابندیاں عائد کر دیں‘ جس کی رو سے اب ہر روز صرف 250 یاتری اور سیاح گومکھ کے درشن کر پاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہر سال روزانہ تقریباً 20 ہزار یاتری سندھ طاس ندیوں کے منبعے کولاہی اور تھجواسن گلیشئرز کو روندتے ہیں۔ متعدد ممالک نے پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی تعداد کو ریگولیٹ کر رکھا ہے۔ بھارت کی قومی ماحولیاتی پالیسی میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی
تعداد کو ریگولیٹ کیا جائے تاکہ پہاڑی علاقوں کے ماحولیات کو برقرار رکھا جا سکے۔ کشمیر میں حالیہ برسوں میں جو ماحولیاتی تبدیلیاں آئی ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ تقریباً تمام گلیشئرز کی اونچائی میں خاصی کمی آ گئی ہے۔ پچاس سال قبل چناب کے طاس کا تقریباً8000 مربع کلومیٹر کا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا تھا‘ وہ آج گھٹ کر صرف 4000 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پیرپنجال رینج میں تو شاید ہی کوئی گلیشئر باقی بچا ہے۔ اور تو اور پچھلے سال حکومت نے ایک اور روایت قائم کرکے پیر پنچال کے پہاڑوں میں واقع کوثر ناگ کی یاترا کی بھی منظوری دی تھی۔ لیکن وادی کشمیر میں سخت عوامی احتجاج کے باعث اسے روکنا پڑا۔ پہاڑوں میں واقع صاف شفا ف اور آلودگی سے پاک پانی کا یہ چشمہ جنوبی کشمیر میں اہربل کی مشہور آبشار، دریائے ویشو اور ٹونگری کو پانی فراہم کرتا ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش کشمیری پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر ہندو فرقہ پرست قوتوں نیز حکومت نے امرناتھ یاترا کی طرح کوثر ناگ یاترا چلانے کا اعلان کیا۔ 2005ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں بھارت کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے ایک رپورٹ میںکہا تھا کہ اگر امر ناتھ کے مقدس گپھا تک سونہ مرگ کے پاس بل تل کے راستے ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ اس طرح جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشئر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘ لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے حکومت آج زیادہ سے زیادہ
یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ نتیش سین گپتا کمیٹی نے 1996ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کو ایک ماہ تک محدود کرکے زائرین کی تعداد بھی ایک لاکھ تک محدود کی جائے، لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ کر دی اور اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کر دیا۔ آئندہ برسوں میں اندازہ ہے کہ یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ یاترا اب، ایک مذہبی سبھا کے بجائے ہندوتوا غلبے کا پرچم اٹھائے کشمیر میں وارد ہوتی ہے۔ کولہائی گلیشئر گیارہ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ تین عشروں میں یہ ڈھائی مربع کلومیٹر سکڑ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند عشروں کے بعد پوری طرح پگھل چکا ہو گا۔ امرناتھ گپھا اسی گلیشئر کی کوکھ میں واقع ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان گلیشئرز کی ایکولوجی ایسی نازک ہے کہ ہیلی کاپٹر کا شور بھی ان کی صحت کے لئے مضر ہے اور گلیشئر پر اس کے کولہائی گلیشئرز کے پگھلنے کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ دریائے جہلم اس کی معاون ندیاں وغیرہ‘ سب خشک ہو جائیں گے۔ ایک اور حیرت ناک پہلو یہ بھی ہے، کہ پچھلے 30سالوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان وولر بیراج یا ٹولبل آبی پروجیکٹ کے حوالے سے بات چیت کے کئی دور ہوئے، مگر شاید ہی کبھی اس جھیل کی صحت پر غور و خوض ہوا ہے۔ سوپور اور بانڈی پورہ کے درمیان واقع کئی برس قبل تک یہ ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ پاکستان اور میدانی علاقو ں کے کسانوں کیلئے یہ ایک طرح کا واٹر بینک ہے۔ جنوبی کشمیر کے چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سرینگر اور اس کے اطراف کو سیراب کرکے دریائے جہلم پوری طرح وولر میں جذب ہو جاتا ہے۔ اور سوپور کے نواح میں ایک بار پھر سے تازہ دم ہو کر بارہمولہ سے ہوتے ہوئے اوڑی کے پاس لائن آف کنٹرول پار کرتا ہے۔ بھارتی حکومت کی ویٹ لینڈ ڈائریکٹری میں اس جھیل کی پیمائش189 مربع کلومیٹر درج ہے‘ جبکہ سروے آف انڈیا کے نقشے میں اس کا رقبہ58.7 مربع کلومیٹر دکھایا گیا ہے۔ کشمیر کے مالی ریکارڈ میں اس کی پیمائش 130مربع کلومیٹر ہے، جس میں 60 مربع کلومیٹر پر اب نرسریاں یا
زرعی زمین ہے‘ مگر ایک سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کے بقول اس کا رقبہ اب صرف 24 مربع کلومیٹر تک محیط ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر سے بھی ظاہر ہوتا ہے، کہ یہ جھیل بڑی حد تک سکڑ گئی ہے۔
پانی اور ماحولیاتی بربادی کی زمینی تصویر اس کالم کے بیان سے بھی شاید زیادہ خوفناک اور تشویش کن ہو سکتی ہے۔ مگر اور بھی حیرت ناک صورت یہ حال ہے کہ دونوں ملکوں نے ابھی تک قدرتی وسائل کی حفاظت کی سمت میں بات چیت کو بھی قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ہے۔ دو سال قبل کشمیر میں آئے سیلاب نے جگانے کیلئے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی۔ کہاوت ہے کہ پہاڑ کی جوانی اور ندیوں کی روانی وہاں کے مکینوں کے کام نہیں آتی، بلکہ اس کا فائدہ میدانوں میں رہنے والے کسانوں، کارخانوں کو ملتا ہے، اور ان کی ہی بدولت شہر اور بستیاں روشن ہوتی ہیں۔ اس لیے پہاڑوں میں رہنے والے وسائل کے محافظین کو ترقی میں حصہ دلانا لازمی ہے۔ دونوں ممالک سے بھی گزارش ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے آگے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت کیلئے مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل وضع کریں۔ کشمیر کے بعداس ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے منصوبوں پر پڑنے والا ہے۔ قومی سلامتی یا عالمی امن کے لئے درپیش خطرات کا دائرہ اب صرف داخلی اور خارجی خطرات تک محدود نہیں رہا ہے۔ اب تو ماحولیاتی یا موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی سلامتی کے لئے خطرات میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ مشہور سفارتی مو رخ رچرڈ اولمن کے مطابق، ''ایسی چیز یا معاملہ جو کسی علاقہ یا ملک (ریاست) کے باشندوں کے معیارِ زندگی کو متاثر یا کمتر کر سکتا ہے‘ یا کسی ریاست کے شہریوں اور تنظیموں کے لئے دستیاب مواقع اور امکانات کے دائر ہ کو محدود کرتا ہے، قومی سلامتی کے خطرہ کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ دہشت گردی بے شک دنیا کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اور اس پر سفارتی توانائی مرکوز کرنا جائز بھی ہے‘ مگر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور اس سے کسی دوسرے خطرے کے مقابلے میں انسانی جانوں کا کہیں زیادہ زیاں ہوتا ہے۔ شاید کہ اتر جائے تر ے دل میں مری بات!