گو کہ بھارت کی حکمران کانگریس پارٹی 2014 ء میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے ابھی تک وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر راہول گاندھی کے نام کو پیش کرنے میں پس وپیش میں ہے۔وہیں دوسری طرف اپوزیشن بھارتیہ جنتاپارٹی نے مغربی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کو اس اعلیٰ سیاسی عہدے کیلئے تقریباً نامزد کردیاہے۔جس کا باقاعدہ اعلان اگست میں متوقع ہے۔ حال ہی میں ایک بین الاقوامی خبررساں ایجنسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نریندر مودی نے مسلمانوں کے متعلق جن الفاظ کا استعمال کیا اور ان کے صوبے میں 2002ء میں ہوئے مسلم کش فسادات پر افسوس ظاہر کرنے سے بھی گریز کیا، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ان کی پارٹی کھل کر ہندو کارڈ کھیلنے جارہی ہے۔لگتا ہے کہ مودی نے فسادات میںقتل ہونے والے مسلمانوں کا حقارت سے ذکر کرنے اور بہ بانگ دہل فخریہ انداز میں اپنے آپ کو ’’ہندو قوم پرست ‘‘قرار دینے جیسی باتیں یوں ہی نہیں کی ہیں، بلکہ وہ اکثریت بنام اقلیت کے سیاسی کھیل کی بساط بچھا کر ہندو ووٹوں کی صف بندی کرانا چاہتے ہیں۔ یہ سب کومعلوم ہے کہ مودی راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے کل وقتی پرچارک ہیں اور انہوں نے گجرات میںعملی طورپر سنگھ کے ہندوتو اکے نظریہ پر عمل درآمد کرکے دکھایاہے۔ 2014ء کی انتخابی جنگ میںنتائج کیانکلتے ہیں یہ تودیکھناباقی ہے لیکن بھارت کی کارپوریٹ لابی اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا اندازہ ہے کہ مودی جارحانہ ہندوتوا کا پرچار کرکے کسی نہ کسی طرح کامیابی حاصل کرلیںگے جیسا کہ انہوں نے گجرات میں کردکھایاہے۔سنجیدہ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ نتائج اس کے برعکس نکل سکتے ہیں اورمودی کے الیکشن انچارج بننے کی وجہ سے شاید بھاجپا اور اس کے اتحادی اتنی سیٹیں بھی نہ لے سکیں جتنی کہ وہ عام حالات میں لے سکتے ہیں، کیونکہ مودی جیسے جارحانہ ہندوتوا کی قیادت کو مذہبی اقلیتوں میںسے کس کی حمایت کی توقع ہوسکتی ہے، ماسوائے پنجاب کے پرکاش سنگھ بادل کے۔ دانشور، روشن خیال، ترقی پسند، سیکولر ، دوسرے ممالک سے خصوصاً ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات رکھنے کے خواہشمند عناصر کبھی نریندرمودی والے دھڑے کی حمایت نہیںکریںگے۔خواہ انہیںکوئی دوسرا ناپسندیدہ متبادل ہی کیوں نہ منتخب کرناپڑے۔ بھاجپااور اس کے اتحادیوں کا نریندرمودی کی کمان میںاتنی سیٹیں حاصل کرنا کہ وہ مرکز میں حکمران بن جائیں، انتہائی ناممکن دکھائی دیتاہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اناڈی ایم کے، بیجو جنتادل، اور کچھ دیگر علاقائی پارٹیوں کے تعاون سے مودی کامیابی کی اْمید کرسکتے ہیں مگر باخبر مبصرین کے اندازہ کے مطابق اس قسم کی سیکولر علاقائی پارٹیاں بھی مودی کی کمان والے محاذ کی حمایت سے گریزکریںگی کیونکہ اس طرح ان کے اپنے ووٹ بنک میں قدغن لگنے کا خطرہ درپیش ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت کانگریس پارٹی کے خلاف مہنگائی، بے کاری، رشوت اسکینڈلوں وغیرہ کی وجہ سے جوناراضگی پائی جاتی ہے، اس کافائدہ اْٹھا کر مودی بریگیڈ پیش قدمی کرسکتاہے۔ بلاشبہ کانگرس کی عوام دشمن پالیسیوں سے عوام نالاں ہیں اور وہ صورت حال میںتبدیلی کے بھی خواہاں ہیں۔ ہوسکتاہے کہ ا س کاکچھ فائدہ بھاجپا کو مل جائے مگر انتخابات کے دوران اورانتخابات سے پیشتر کے عرصہ میں مودی اینڈ کمپنی جارحانہ ہندوتوا کا پرچار کرکے فضاء کو مسموم بناسکتی ہے،فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھا سکتی ہے اور مختلف ریاستوں میں اقلیتی قومیتوں کے لئے مصائب کھڑے کرسکتی ہے۔ اس لئے مودی کا انتخابی جنگ میں بھاجپا کا سپہ سالار اعظم مقررہونا خالی از خطرہ نہیں ہے۔ نریندرمودی کی کمان کے سوال پر تو خود بھارتیہ جنتا پارٹی بھی لرزہ براندام ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کی بھاجپا کی مسلمہ قیادت جو اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن ایڈوانی پر مشتمل تھی اور جس کے متعلق لبرل ازم اور نرم روی کا کم ا ز کم مکھوٹا اور چھلا وا تو موجود تھا، کا دور اختتام پذیر ہوگیاہے۔ لال کرشن ایڈوانی جنہیں نریندرمودی کا گورو سمجھاجاتاتھا اور مودی کو چیلہ ۔ گورو کو چیلے نے دن میں تارے دکھادیے۔ لال کرشن ایڈوانی نے بھاجپا کے تما م عہدوں سے مستعفی ہونے کا جو خط بھاجپا کے صدر راج ناتھ سنگھ کو لکھا۔ وہ اپنے آپ میں ان کا درد بیان کررہا ہے۔انہوں نے لکھا۔ ’’اب بھاجپا و ہ پارٹی نہیںرہی جسے شیام پرشاد مکرجی دین دیال اْپادھیائے، نانا جی دیش مکھ اور اٹل بہاری واجپائی نے سنواراتھا۔ اب بھاجپا کے بہت سے لیڈر اپنے ذاتی ایجنڈوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔کچھ وقت سے میرے لئے یہ بہت مشکل ہورہاتھاکہ پارٹی کی موجودہ صورت حال سے ہم آہنگ کرسکوں یا وہ راہ متعین کرسکوں۔ا س وقت پارٹی اچھل رہی ہے۔ مجھے یہ بات محسوس کرنے میں کوئی شک نہیں کہ اب یہ پارٹی اس سوچ کی حامل نہیں رہی جس کی بنیاد پر اسے بنایاگیاتھا۔ میرے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ اس ذاتی ایجنڈے کے مطابق کام کروں جو آج کل پارٹی عہدیداروں کا رہاہے‘‘۔ ایڈوانی کا واضح اشارہ نریندرمودی کی طرف ہے۔جب راج ناتھ سنگھ نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ موہن بھگوت سے ایڈوانی کی استعفیٰ کی بات کی توانہوں نے کہا کہ ایڈوانی کو منانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ نہیں مانتے تب بھی پیش قدمی جاری رکھیں ۔اس سے ظاہر ہے کہ بھاجپا کا اصل مرکز راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ہے۔ نریندرمودی کے کمان میں پیش آئندہ مورچہ سنبھالنے کے بعد اپنی جماعت اور اپنے گو رو کے لیے جس طرح لرزہ خیز ثابت ہوئے ہیں،اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ ملک کے لیے کیا ثابت ہوںگے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی مداخلت سے اگرچہ ایڈوانی نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیاہے لیکن نریندرمودی کی کمان سے نکلے ہوئے تیرکے زہر ناک اثرات مدت تک باقی رہیں گے۔