بھارت میں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اگرچہ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدارکی طرف گامزن ہے، مگر اس پارٹی کے اندر جو گھمسان مچا ہوا ہے اور جس طرح نسبتاً اعتدال پسند لیڈرشپ کو کنارے لگایا جا رہا ہے، اس سے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑگئی ہے۔ بی جے پی اور بائیںبازو کی جماعتوں کا امتیاز رہا ہے کہ شخصیات کے بجائے آئیڈیالوجی اور مضبوط کیڈر سسٹم پر زور دیا جا تا ہے اور پارٹی ارکان کی آراء کو فوقیت دی جاتی رہی ہے ، مگر اس بار بی جے پی نے کانگریس کی طرح انتخابی مہم کو ایک ہی شخص کے ارد گرد مرکوزکرکے، پارٹی کے بزرگ لیڈروں کو ناراض کردیا ہے۔ پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی اختلاف رائے برداشت نہ کرنے کے لیے خاصے بدنام ہیں۔اس سے قبل صوبہ گجرات میں انہوں نے پارٹی میں اپنے مخالفین کو ایک ایک کر کے ٹھکانے لگایا تھا۔ سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے توبرملا اظہار بھی کیا ہے کہ پارٹی بھٹک کر اپنی آئیڈیالوجی سے کوسوں دور جا چکی ہے۔
تشویش کی ایک اور بڑی وجہ مودی کے ارد گرد سخت گیر حواریوں کا جمع ہونا ہے۔ان کے گرد ایسے سابق فوجی اور حساس محکموں کے افسروں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے جن کو پاکستان کے ساتھ جنم جنم کا بیر ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔اگرچہ مودی اپنی تقاریر میں پاکستان کو ہدف تنقید نہیں بناتے مگر آثار و قرائن بتاتے ہیں کی اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی کے قوم پرست عناصرکو خوش کرنے کے لیے وہ کشیدگی کو عروج پر لے جائیں گے۔ 1998ء میں جب بی جے پی نے پہلی مرتبہ باضابط اقتدار سنبھالا تواس وقت وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک ماہ کے اندر ہی جوہری دھماکے کروائے جن کا خاطرخواہ جواب دس دنوں کے اندر پاکستان نے دے دیا۔ مگراب چونکہ مودی کے پاس جوہری آپشن باقی نہیں رہا ہے اس لیے ان کے حواری دیگر آپشنز پر غوروفکر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کی پاکستان کے خلاف سٹریٹیجک ہدف حاصل کرنے کے بعد ہی حالات و تعلقات معمول پر لائے جائیں گے۔ با لکل اسی طرح واجپائی نے بھی 1998ء میں جوہری دھماکوں کے نو ماہ بعد لاہور آکر امن مساعی کی بنیاد رکھی جو پہلے کرگل اور بعد میں بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد پٹری سے اترگئی مگر بعد میں واجپائی کے آخری ایام اور من موہن سنگھ اور پرویز مشرف کے دورمیں اس میں تیزی آگئی تاآنکہ ممبئی حملوں کے بعد اس کو ڈیپ فریزر میں رکھ دیا گیا۔ پاکستان کے خلاف مودی کی حکومت کس طرح کا آپشن استعما ل کرے گی؟ یہ سوال خاصی اہمیت کا حامل ہے مگر فی الحال اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
اس وقت بی جے پی کے اندر جو گھمسان چل رہا ہے اور جس کی وجہ سے بزرگ رہنما اور پارٹی کے ایک بانی ایل کے ایڈوانی کی جو سبکی ہوئی اس سے بھارت کی مستقبل قریب کی سیاست کی جھلک نظر آتی ہے۔ صرف ایڈوانی ہی نہیں ، جسونت سنگھ، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ہرین پاٹھک اور دوسرے مقتدر رہنمائوں کو بھی جس طرح کنارے لگایا جارہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی میں شدت پسند ہندو قوم پرست گروپ کس قدر حاوی ہوگیا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے دبائو پر جب بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے مودی کووزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی کا امیدوار بنانے کا اعلان کردیا تھا تو سابق نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی نے، جواس منصب کے لیے خود کو سب سے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں، اس کی مخالفت کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی میں قحط الرجال ہے اور صرف مودی ہی اس کی کشتی کو ڈوبنے سے بچا سکتے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایڈاونی کو نظر انداز کرکے ان کے شاگرد رشید مودی کوکیوں ترجیح دی گئی؟ دراصل فسطائی جماعتوں کا یہ وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدارکے حصول کے لیے سب کچھ قربان کرسکتی ہیں۔آرایس ایس کوخدشہ تھا کہ اگر مودی کو امیدوار نہ بنایاگیا تو پارٹی کے اندرانتشار مزید بڑھے گا ۔ اس کے خیال میں مودی پارٹی کے نوجوان کارکنوں میں مقبول ہیں جس سے پارٹی کے اندر ایک نئی توانائی پیدا ہوگی، اسی لیے ایک نسبتاً پچھڑی ذات سے تعلق رکھنے والے مودی کو آر ایس ایس نے گوارا کیا جوکلچرل نیشنلزم کے نام پر ملک میں برہمن ازم لانا چاہتی ہے۔
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ مودی کے نام کے اعلان سے قبل بی جے پی اور آرایس ایس کے رہنمائوں کے درمیان ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں آرایس ایس سے یہ بیان منسوب کیاگیاکہ اقلیتی فرقہ (یعنی مسلمان) اب سیاسی جماعتوںکو ''ڈکٹیٹ‘‘کرنے لگا ہے۔انتہا پسندہندوئوںکے نزدیک مودی ہیروکی حیثیت رکھتے ہیںجنہوں نے مسلمانوں کو گجرات میں سبق سکھایا ،لہٰذا یہی طبقہ مودی کو وزیراعظم کا امیداور بنانے کی مہم میں پیش پیش تھا۔
ایک ایسا شخص جس کے خود اپنی پارٹی میں مخالفین ہیں، یہاں تک کہ خود اس کا 'اتالیق‘ بھی مخالف بن گیا ہے نیز جس نے اقتدارحاصل کرنے اور بچانے کے لیے خونی سیاست کا سہارا لیا ، جس کا دامن نسل کش فسادات میں دو ہزار سے زائد معصوموں کے خون اوردرجنوں فرضی پولیس مقابلوں سے داغدار ہے ، جس نے معاشرے اور سیاست کو فر قہ وارانہ خطوط پر منقسم کرکے رکھ دیا اور جس کی سیاست کی اساس منفی اور جھوٹے نعروں پر ہے ، جو نہ صرف قومی سطح پربلکہ عالمی سطح پر بھی ناپسندیدہ قراردیا جاچکا ہے، آر ایس ا یس نے یہ سب جانتے ہوئے بھی شخصیت پرستی کی بنیاد پرآخر اسی شخص کوکیونکر نامزدکردیا جو پسماندہ طبقہ ( تیلی ذات) سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی پشت پر متعدد عوامل کار فرما ہیں، جن میں زیادہ اہم یہ ہیں: یو پی اے حکومت کی خرابیاں اور بدعنوانیاں، ملک میں کانگریس کے خلاف موڈ،کانگریس کی زمام کارعملًاراہول گاندھی کے حوالے کرنا، ہندتو اکے ہمنوا اور کارپوریٹ لابی کے زیر اثر میڈیا کی مودی کے حق میں زبردست پروپیگنڈا مہم، بی جے پی کے رہنمائوں میں جاری رسہ کشی، پارٹی کے نوجوان کارکنوں میں مودی کی'مقبولیت‘ کے علاوہ مودی کا جارحانہ رویہ اور چرب زبانی وغیرہ ۔
مودی کی سیاسی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ایک پسماندہ خاندان میں17 ستمبر1950ء کو آنکھ کھولی۔ بچپن غربت میں گزرااور طالب علمی کے زمانے سے آر ایس ایس سے وابستہ ہوگئے۔ اس کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے جو ان کے دوست اور اسکول کے ساتھی بشیر خان پٹھان نے سنائی۔ ان کے مطابق اسکول میں جب وہ دونوں پڑھتے تھے تو آر ایس ایس کی شاکھا میں شامل ہونے کا اشتہارنکلا جس میں دو ڈریس دینے کا وعدہ کیاگیا تھا۔ان دونوں نے اس کے لیے درخواست دی ، مودی کا انتخاب ہوا لیکن اس نے آر ایس ایس میں شامل ہونے سے انکار کردیا کیونکہ ان کے دوست کا انتخاب نہیںہوا تھا۔ غربت کے مارے پٹھان نے مودی سے کہا کہ وہ شاکھا میں شامل ہوجائیں،اس سے دونوںکوایک ایک ڈریس مل جائے گا۔اس اتفاقی شمولیت کے بعد مودی نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔وہ چھوٹی عمرمیں ایک آئل کمپنی میںتیل کے پیپے اٹھایاکرتے تھے، ہر پیپے پرانہیں پانچ پیسے بطور اجرت ملتی تھی۔ وہ چھ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ آرایس ایس کا کل وقتی پرچارک بننے سے پہلے وہ گجرات سڑک ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے عملے کی کینٹین میں کام کرتے تھے۔ ریلوے اسٹیشن پر وہ اپنے والدکی چائے کی دکان پر ہاتھ بھی بٹاتے تھے۔ ناگپور میں آر ایس ایس کی تربیت حاصل کرنے کے بعدگجرات میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے سربراہ بنائے گئے۔1987ء میں انہیں آر ایس ایس نے بی جے پی میں بھیجا۔اس وقت شنکر سنگھ واگھیلا اورکیشوبھائی پٹیل جیسے قد آور اس کے لیڈر تھے۔ بعد ازاں پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنا کرانہیں دہلی بھیجاگیا۔انہوں نے ایڈوانی کی سومناتھ اورایودھیارتھ یاتراکے انعقاد میں اہم کردارادا کیا تھاجس نے پورے ملک میںخون کی ندیاں بہادیں ۔