بھارت میں اس وقت انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر کے لیے2014ء کا کم وبیش پورا سال انتخابی رہے گا ۔ مئی میں پارلیمانی انتخابات کے بعد نومبر ـ دسمبر میں یہاںریاستی اسمبلی انتخابات متوقع ہیں۔اگرچہ نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور اسی قبیل کی دوسری بھارت نواز سیاسی جماعتیں یہ اعلان کرتی رہتی ہیں کہ ان انتخابات کا مسئلہ کشمیرکے حتمی حل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اوران کا ہدف صرف بنیادی ضرورتوں مثلاً بجلی اورپانی کی فراہمی اور سڑکوں کی تعمیر وغیرہ کے لیے عوامی نمائندے چننا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے لیے ان کا رول صرف سہولیت کارکا ہے نہ کہ اسٹیک ہولڈرکا ،کیونکہ اس کی کلی تولیت بھارت، پاکستان اورکشمیر کے حریت پسند حلقوں کے پاس امانت ہے ، مگر انتخابات کے بعد جس طرح بھارتی وزارت خارجہ اور تھنک ٹینک بین الاقوامی فورمزپرانتخابات کو رائے شماری کا نعم البدل قرار دے کر مسئلہ کشمیر کی سیاسی حیثیت سے یکسر انکاری ہوجاتے ہیں ، اس سے ان انتخابات کے خالص انتظامی ہونے کی اہمیت اورافادیت مشکوک ہوجاتی ہے۔اس بار بھی حسب روایت آزادی نواز حلقے لوگوںکوانتخابات کا بائیکاٹ کرکے ان سے دور رہنے کے لیے زور دے رہے ہیں جبکہ انتخابات میں شرکت کرنے والی جماعتیں حسب سابق لوگوںکو اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پرآمادہ کررہی ہیں۔
1989ء اور1996ء کو چھوڑ کر، جب یا تو ووٹنگ کی شرح بہت کم تھی یا زبردستی لوگوں کو پولنگ بوتھوں تک لایا گیا تھا، باقی تمام انتخابات میں عوام کی غالب اکثریت نے چند مخصوص علاقوں اورقصبوںکو چھوڑکر انتخابات میں بھر پور حصہ لیا۔کیا اس کا مطلب ومفہوم یہ لیا جائے کہ کشمیریوں نے حریت پسندوںکی طرف سے بائیکاٹ کی اپیل کو ٹھکرا کرنظریہ آزادی کو مسترد کر دیا ہے جس کے حصول کے لیے قوم بے پناہ قربانیاں دیتی چلی آ رہی ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہے۔ دراصل عوام کے سامنے روزمرہ زندگی کے مسائل کااتنا بڑا انبار ہے کہ وہ مین اسٹریم یعنی بھارت نوازکہلائے جانے والے سیاست دانوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت سرکار، سیاسی جماعتیں اور باقی تمام متعلقہ لوگ کس طرح ان کے ووٹ ڈالنے کی مجبور ی کودنیاکے سامنے پیش کرتے ہیں ، لیکن انہیں یہ خوف بھی ہروقت ستاتارہتا ہے کہ اگرمنتخب ہونے والے لوگ ووٹ لے کر بھی ان کے معمولی اور جائزکام نہیں کرتے ہیں تو ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں ان سے انتقامی کارروائیوں کے سوا اورکیا امید رکھی جاسکتی ہے؟ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کے لائق ہے کہ فی الحال ووٹ زیادہ پڑیں یا بائیکاٹ کی اپیل پر زیادہ عملدرآمد ہو، اس سے مسئلہ کشمیرکے حل پرکوئی خاص اثرنہیں پڑے گا ۔
مجھے یاد ہے کہ 2004ء میں پٹن کے حلقے میں اسمبلی کے لیے ضمنی چنائو ہو رہا تھا، مفتی محمد سعید وزیراعلیٰ تھے، انہوں نے سید علی گیلانی اور یاسین ملک کو الیکشن بائیکاٹ کی مہم چلانے کے لیے کھلا چھوڑدیا تھا۔ گھرگھر مہم کے دوران ایک معمر شخص نے گیلانی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں اوران کے کہنے پر جان کی بازی لگانے کے لیے بھی تیار ہیں مگر وہ الیکشن کابائیکاٹ کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔اس بزرگ نے اس کے لیے یہ دلیل دی کہ اس پوری بستی نے دو سال قبل اوراس سے پہلے بھی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا مگر جب بھی وہ کسی کام کے لیے منتخب نمائندے کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان کو دھتکاردیتا ہے۔اس شخص نے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ نہر کے اس پار سامنے والے محلے نے ووٹ ڈالے تھے اس لیے اس محلے کی سڑکوں پر تارکول بچھایا دیاگیا تھا اور پانی کی سپلائی کے لیے نل بھی لگادیے گئے تھے مگر ان کا محلہ ان تمام بنیادی سہولتوں سے عاری رہا۔اس شخص کا کہنا تھا کہ انہیں اس شقی القلب نمائندے کو سبق سکھانے کا موقع دیا جانا چاہیے جوایک بار پھر میدان میں تھا ۔
گزشتہ اسمبلی الیکشن میں سرینگر کی آٹھ نشستیں نیشنل کانفرنس کی جھولی میں صرف عوام کی ایک بڑی تعداد کے بائیکاٹ کی وجہ سے گریں جن کی وجہ سے پچھلے پانچ برسوں سے عمر عبداللہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہیں۔اگرچہ کشمیری عوام ووٹ ڈالنے کو صحیح ٹھہرانے کے لیے بہت سے جوازدے سکتے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے بائیکاٹ کی اپیل کا حریت لیڈروں اورانتخابات میں شرکت کرنے والوں کی کامیابی یا ناکامی سے کیا تعلق ہے؟ ذراگہرائی سے دیکھا جائے تو لوگوں کی طرف سے انتخابات میں شرکت حریت لیڈروں سے زیادہ مین اسٹریم والوں کے لیے باعث فکرہونی چاہیے۔ ان پرلازم ہے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے کے باوجود اٹانومی (حق خود اختیاری) اور سیلف رول (عوام کی حکمرانی) کا حصول ناممکن کیوںدکھائی دے رہا ہے؟ 1996ء سے لے کراب تک ایک طرف نیشنل کانفرنس نے لگ بھگ دس الیکشن صرف اٹانومی کی بحالی کے ایجنڈے اور منشورکے نام پر لڑے لیکن اٹانومی نام کی چڑیا پنجرے سے باہر نہیں نکل پارہی ۔ اسی طرح پی ڈی پی کے سیلف رول فارمولے کا بھی فی الحال دلی سے سرینگرتک کوئی خریدار یا طرف دار نظر نہیں آرہا ۔ پھریہ اہم سوال بھی توجہ طلب ہے کہ یہ فارمولے اورروڈ میپ کشمیر کے ایسے ایسے حل پیش کرتے ہیں جنہیں شاید ہی کشمیری عوام اور پاکستان جو مسئلے کے بنیادی فریق ہیں،کسی حتمی حل کے طور قبول کریںگے۔
اس بات کا صحیح علم وادراک اور اندازہ ہونا چاہیے کہ اول تواٹانومی اور سیلف رول مسئلہ کشمیرکاکوئی قابل قبول حل نہیں اور یہ دونوں خاکے صرف داخلی سطح پر چند معمولی آئینی مراعات کا تقاضا کرتے ہیں،نیز ان کا کشمیریوں کی بے شمار قربانیوں کا نعم البدل بننا ناممکن ہے، اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ اپنی قوم کی حد تک ذمہ داریوں کا احساس کرکے مین اسٹریم جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشورکو انتظامی امور تک محدود رکھیں اور عقل وفہم سے کام لے کر ذاتی مفادات کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دیں ۔ ان کے لیے بہتر ہوگاکہ اپنی انتخابی سیاست کا محور لوگوں کو سڑک، پانی ،بجلی اورروزگارکی فراہمی کے علاوہ صاف و شفاف اور جواب دہ انتظامیہ کی فراہمی کو بنائیں اورمسئلہ کشمیر کا حل حریت لیڈروں کی صوابدید پرچھوڑدیں۔
مین اسٹریم کی طرف سے مختلف فارمولے پیش کرنے سے مسئلہ کشمیر کی اصل حیثیت کمزورہوتی ہے۔اگرایسا ہوجائے تو اس سے کم ازکم یہ ہوگا کہ جو بھی ووٹ ڈالے گا کافی حد تک یہ بات اس کے ذہن میں رہے گی کہ حریت لیڈرتحریک مزاحمت کے امانت دار ہیں اور مین اسٹریم والے انہیں سڑک، پانی ، بجلی اور صاف ستھری سرکار دینے کے پابند ہوںگے۔ایسی صورت حال میں قوم میں باہمی انتشار اور تنائو میںکافی حد تک کمی آجائے گی۔اس سے بھارت کی طرف سے عالمی برادری کے سامنے یہاں منعقد ہونے والے مختلف سطح کے عام انتخابات میں پڑنے والے ووٹوں کی بھاری شرح کو کشمیرکے حل اوربھارت کے جموںاورکشمیر کے ساتھ''الحاق کی توثیق ‘‘کے طورپیش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مین اسٹریم جماعتوں کے علاوہ آزادی پسند جماعتیں بھی صدق دل سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، وہ نہ صرف مین اسٹریم جماعتوں کے رول کا اعتراف اور احترام کریں بلکہ ووٹ نہ ڈالنے کی ترغیب دے کر اپنے لیے بلاوجہ پریشانیاں مول نہ لیں۔ پاکستان کے لیے بھی لازم ہے کہ سفارتی سطح پر بھارت کو پیغام دے کہ وہ کشمیر میں سرگرم سبھی گروپوں کو چاہے بھارت نواز ہوں یا آزادی پسند، مساوی سیاسی اور جمہوری فضا فراہم کرے، یعنی جس طرح عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو لوگوں کے پاس جاکر ووٹ مانگنے کا حق ہے اسی طرح سید علی گیلانی، میر واعظ عمرفاروق اور یاسین ملک کو بھی حق ہونا چاہیے کہ وہ بھی پرامن طور پر عوامی اجتماعات کا انعقاد کریں۔