بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا حالیہ دورہ کشمیر اس لحاظ سے تو خوش آئند کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی سخت گیر سیاسی شبیہ اور روایتی بھارتی لیڈروں کے برعکس،سرزمیںکشمیر سے پاکستان یا آزادی کشمیر کیلئے سرگر م افراد کے خلاف کوئی سخت بیان دینے سے گریز کیا۔ مگر کشمیر سے متعلق کسی سیاسی ''روڈ میپ‘‘پر خاموشی اختیار کرکے ان قیاس آرائیوں کو تقویت بخشی کہ ان کی حکومت کے ایجنڈے میں فی الحال اس مسئلہ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔پاکستان کے اندرونی حالات اور وادی کشمیر میں نسبتاً بہتر سکیورٹی حالات کی وجہ سے بھی شاید بھارتی حکومت کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتی ،اور فروعی مسائل جیسے کشمیری پنڈتوں کی وطن واپسی اور دیگر ایسے ہی امور پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی نئی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت فی الحال ریاست جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا انتظار کررہی ہے ، جو اس سال کے اواخر تک متوقع ہیں۔بی جے پی جو اس متنازع خطے کی سیاست میں ہمیشہ ایک ''نان فیکٹر‘‘ رہی ہے، کو اب لگتا ہے کہ کانگریس کی طرح وہ بھی اس ریاست کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔حالیہ لوک سبھا کے انتخابات میں وادی کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)نے نہایت ہی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے سبھی تینوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی، مگر دوسری طرف جموں کی دو اور لداخ کی ایک نشست پر بی جے پی نے قبضہ کیا۔جموں کشمیر کے انتخابی نقشہ پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے ، توجموں ریجن کی 37نشستوں میں 18 حلقے ہندو اکثریتی علاقوںمیں ہیں۔ یہ سیٹیں اکثر کانگریس کے پاس ہوتی تھیں۔ بی جے پی اس بار ان کے حصول کیلئے پورا زور لگائے گی۔ اس کے علاوہ اسی ریجن میں 9 ایسی سیٹیں ہیں جہاں ہندو مسلم تناسب تقریباً یکساں ہے، یہاں پر بی جے پی وہی آ زمودہ فارمولہ اپنانے کوشاں ہے ،جو اس نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست اتر پردیش اور بہار کی مسلم اکثریتی سیٹوں میں اپنایا کہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے ان کوبے اثر بنایا جائے، جبکہ ہندوووٹروں کو خوف میں مبتلا کر کے ان کو پارٹی کے پیچھے یکجا کیا جائے۔دوسری طرف لداخ کے بودھ اکثریتی لیہہ ضلع کی دو اسمبلی نشستوں پر بھی بی جے پی آس لگائے ہوئے ہے ، تاکہ آئندہ اسمبلی میں29 نشستیں حاصل کرکے وادی کشمیر اور مسلم اکثریت کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت دے۔ بی جے پی لیڈران کو یقین ہے کہ کشمیر کی 46، جموں کے مسلم اکثریت والے علاقوں کی 8 اور کرگل کی دو یعنی کل 56 نشستیںپی ڈی پی، حکمران نیشنل کانفرنس نیز کانگریس اور دیگر کشمیری قوم پرست پارٹیوں میں تقسیم ہو جائیں گی۔اس صورت میں ریاست میں پہلی بار بی جے پی ایک ''اسٹیک ہولڈر‘‘کے طور پر ابھرے گی۔
بھارتی حکومت اور بی جے پی کی اس حکمت عملی سے امیدوں کے برعکس خدشات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ الیکشن سے قبل جب بھارت بھر میں مودی لہر شروع ہوئی تو ریاست کے سیاسی پنڈتوں اور بھارت نواز لیڈروں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت نے بھی یہ کہنا شروع کیا تھاکہ کشمیر کے بارے میں اگر کوئی روایت سے ہٹ کر اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہو سکتی ہے۔ اْن کی دلیل یہ تھی کہ اس سے قبل بھی کشمیر کے سلسلے میں اٹل بہاری واجپائی کی سرکارہی نے بولڈ فیصلے لینے کی جرأت کی تھی۔ لاہور اعلامیہ، آگرہ ڈیکلریشن اور انسانیت کے دائرے میں بات کرنے کا اعلان اور اْس کے بعدمزاحمتی خیمے سے لے کر پاکستان تک کے ساتھ بات چیت کی شروعات بی جے پی نے ہی کی تھی۔
بھارت نواز جماعتوں میں نیشنل کانفرنس نے گزشتہ انتخابات میں نریندر مودی اور اْن کی جماعت کے خلاف سخت موقف اختیار کر لیا۔ انتخابی جلسوں اور پارٹی بیانات میں اس نے کھل کر بی جے پی پر تیکھے وار کئے۔ بی جے پی کے خلاف نیشنل کانفرنس کے اس تند وترش اسٹینڈ کو لوگوں نے محض ایک ڈرامہ قرار دیا کیونکہ عام کشمیری جانتے ہیں کہ جس وقت گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے تھے، نیشنل کانفرنس بھاجپا کی سربراہی والی این ڈی اے حکومت میں بہ نفس نفیس شامل تھی اور عمر عبداللہ نے کئی حلقوں کی صلاح کے باوجودگجرات فسادات کے پس منظر میں منسٹری اور این ڈی اے سرکار سے احتجاجاً الگ ہونا گوارا نہیں کیا،پھر کیوں پارلیمانی الیکشن کے دوران نیشنل کانفرنس نے بی جے پی کے خلاف مخالفتوں کا اتنا بڑا محاذ کھول رکھا تھا، اس سوال کا جواب واضح ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی کولیشن سرکار نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں میں کوئی ایک بھی وعدہ وفا نہیں کیا تودورانِ الیکشن وہ کیا لے کر عوام کے پاس جاتے ؟ اس لئے اپنی ناکامیاں چھپانے کی خاطر نریندر مودی اور بی جے پی کو نشانہ بنایا گیا۔ نیشنل کانفرنس کے برعکس پی ڈی پی کا بی جے پی کے تئیں رویہ اور لب و لہجہ نرم رہا۔ شاید اس لئے کہ پی ڈی پی کو اس بات کا اندازہ تھا کہ مرکز میں اگلی سرکاربی جے پی اتحاد کی آنے والی ہے اور ریاستی اقتدار میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مرکزی سرکار کا آشیر واد حاصل ہواور یہ بھی کوئی انہونی بات نہیں کہ کشمیر کی اگلی ریاستی سرکار میں بی جے پی بھی شامل ہو۔ تجزیہ کاروں کے بقول اس صورت میں سری نگر میں برسراقتدار جماعت سے بی جے پی کچھ بھی کرواسکتی ہے۔بھارتی آئین سے جمو ں کشمیر کی خصوصی حیثیت یعنی دفعہ 370 کو بی جے پی شاید ہی ختم کرسکے گی، مگر حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر پالیسی اس اعتبار سے ترتیب پا رہی ہے کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ بی جے پی اس دفعہ کو برقرار رکھ کر اس کی اہمیت و افادیت کو ختم کرنے کے منصوبے پر کام کرنے کی روا دار ہوکر اس دفعہ کی کمر توڑنے میں کوئی پیش رفت کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پرکشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کے لئے ریاست میں تین خصوصی زون بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ پنڈتوں کی واپسی کاتو خیر مقدم ہے مگر اس میں کون سی گارنٹی ہے کہ پنڈتوں کی آڑ میں کن لوگوں کو بسایا جائے۔
بہر کیف دلّی میں سرکار کی تبدیلی سے مزاحمتی خیمے کی ذمہ داریاں دوبالا ہوگئی ہیں۔ اس سلسلے میں کشمیر اور پاکستان میں مقیم ہم خیال جماعتوں اور گروپوں کولازماً داخلی سطح پر بات چیت شروع کرنی چاہیے اور ایک مضبوط حکمت عملی مرتب کرلینی چاہیے تاکہ ریاست میں سیاسی حقیقتوں کو طاقت کے بل پر بگاڑنے یا مسخ کر نے کے تمام منصوبوں کا توڑ کیا جاسکے۔ بات چیت تمام مسائل اور تنازعات کا حل ہوتی ہے، تمام تنازعے آخر کار میز پر ہی حل ہوجاتے ہیں، لیکن فی الحال اس سلسلے میں زیادہ امیدیں وابستہ کرنا گھاٹے کا ہی سودا ہے۔ جو اشخاص اِس امید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ'' انسانیت کے دائرے ‘‘میں بات ہوگی اْنہیں جان لینا چاہیے کہ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی کے زمانوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان اور کشمیر کی زمینی صورت حال 1999ء اور 2004ء کے مقابلے خاصی مختلف ہے۔
ایسے حالات میں کشمیر مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کی امید رکھنا بے معنی ہے مگر کشمیر کی شناخت اور تشخص کے بچائو کے لئے قابل عمل اور فوری اقدامات کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ کشمیر کی مختلف الخیال سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنی اصل قومی وعوامی ذمہ داریوں سے بھاگ رہی ہیں،بلکہ یہ لوگ نریند ر مودی کا نام سن کر ہی گویا مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی بچی کچی قوت ِمزاحمت جواب دے بیٹھتی ہے۔ بات واضح ہے کہ قوم کے وسیع تر مفا دمیں سوچنے کی بجائے اقتدار کی شدید ہوس اور اقتدار کے لیے رسہ کشی نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس کو نہ صرف بزدل بنایا ہے بلکہ اس کی نفسیاتی صورت حال کی بھاری قیمت سادہ لوح کشمیریوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ فی الحال بد قسمتی سے اس جماعت کا یہ محور بنا ہواہے کہ اقتدار کی نیلم پری سے بوس وکنا رکو بر قرار رکھنے کیلئے کس سے رشتہ جوڑا جائے کس سے ناتہ توڑا جائے۔ اگر واقعی اس جماعت میں کشمیریوں کے تئیں ذرہ بھر بھی ہمدردی ہے تواسے دیگر کشمیر ی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کے دروازے کھول کر آگے کے تمام خطرات کی پیش بینی کر کے ریاست میں بی جے پی کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ہوگا۔ اٹانومی اور سیلف رول کے ایجنڈوں کے خواب دیکھنا دور کی بات ہے ،فی الحال جس تیز رفتار ی سے مودی سرکار کشمیریوں کے تشخص اور انفرادیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل نکلی ہے اس کا توڑ کرنے میں این سی ،پی ڈی پی اور دیگر جماعتوں کو باہمی تعاون کرنے میں ہر گز ہچکچانا نہیں چاہیے۔ کشمیریوں کے وکیل اور غمخوار پاکستان کی ابتر داخلی صورت حال بھی دلی سرکار کے عزائم کا ٹمپر یچر بڑھارہی ہے ۔ ایسے میں صاف لگتا ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں ہندو انتہا پسند وں کے دیرینہ خوابوں کے پورا ہونے کے لئے راستہ ہموار اوروقت شاید موزوں ہے۔