"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت کے واقعات پر عالمی برادری کااضطراب

حالیہ بھارت افریقہ چوٹی کانفرنس کے موقع پر دارالحکومت دہلی بے حال ہو گئی۔ ٹریفک جام کی وجہ سے دردِزہ میں مبتلا ایک خاتون کو آٹو رکشہ میں ہی بچے کو جنم دینا پڑا۔ اس سے قطع نظر، کانفرنس کی چمک دمک اور بہترین انتظام نے ایک بار پھر وزیر اعظم نریندر مودی اوران کے حواریوںکی ایونٹ مینجمنٹ کو تقویت دی۔ بلاشبہ،چالیس افریقی ممالک کے سربراہان کی آمد مودی کے لیے زبردست سفارتی کامیابی تھی۔ کانفرنس روایتی وگیان بھون کے بجائے اندرا گاندھی انڈور سٹیڈیم میں منعقد کی گئی۔ یہ ہال، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس کا سماں پیش کر رہا تھا۔ ایسی کانفرنسوںکے برعکس جہاں میڈیاکی رسائی صرف افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں تک محدود رہتی ہے، یہاں پوری کانفرنس میڈیا کے لیے کھلی تھی۔ شاید مودی اپنی اس سفارتی کامیابی کا بھر پور ڈھنڈورا پٹوانا چاہتے تھے۔ اس کانفرنس میں دو بادشاہوں، 26 صدور، 6 نائب صدور، 6 وزرائے اعظم اور 52 وزائے خارجہ نے شرکت کی۔ 
کانفرنس کی کامیابی کے باوجود بیشتر افریقی رہنما بھارت میں بڑھتی ہوئی جارحانہ فرقہ پرستی اور مودی کے خلاف نامور شخصیات اور سول سوسائٹی کی مورچہ بندی کے باعث مضطرب نظر آئے۔ کئی افریقی ممالک کے وزارئے خارجہ اور اعلیٰ افسران بار بار میڈیا کے بنچوں میں آکر بھارت کی تازہ سیاسی صورت حال معلوم کرتے رہے۔ ایک وسطی افریقی ملک کے وزیر خارجہ میرے پاس آ کر جاننا چاہ رہے تھے کہ کیا بھارت میں مذہبی انتہا پسندو ں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور اقلیتوںکو ہراساںکرنے کے واقعات کی وجہ سے مودی حکومت کی مدت کارکم تو نہیں ہو جائے گی؟ ایک اور ملک کے سینئر اہلکار یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ کہیں مودی کا حشر مصرکے معزول صدر محمد مرسی جیسا تو نہیں ہو گا! ان رہنمائوں کے خدشات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری بھارت میں پیش آئے واقعات کا بغور نوٹس لے رہی ہے۔ 
مندوبین اس لیے بھی متجسس تھے کہ صدر پرناب مکھرجی کے عشائیہ کے علاوہ کسی بھی دوسری سرکاری ضیافت میں اپوزیشن کے رہنما موجود نہیں تھے۔کئی سربراہان مملکت نے آنے سے پہلے سفارتی چینلزکے ذریعے اپوزیشن لیڈروں خصوصاً کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کی خواہش ظاہرکی تھی مگر انہیں بتایا گیا کہ کانفرنس کا پروگرام خاصا ٹائٹ ہے، اس میںکسی اورملاقات کی گنجائش نکالنا ممکن نہیں۔ جنوبی افریقہ، نمیبیا اور زمبابوے کے رہنمائوں کے کانگریسی رہنمائوں کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں۔ ان سے ملاقات کے ناممکن کو جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے ممکن بنایا، جب وہ ایک طرح سے کانفرنس سے واک آ ئوٹ کرکے اور پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر خودسونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر پہنچے اورسابق وزیر اعظم من موہن سنگھ سمیت کانگریسی لیڈروں سے ایک گھنٹہ ملاقات کی۔ یہ نہ صرف مودی کے لیے ایک پیغام تھا بلکہ ایک سفارتی طمانچہ بھی تھا۔ پروٹوکول کے مطابق دورے پر آئے کسی ملک کا صدر اپوزیشن تو دورکی بات ہے، وزیر اعظم کے پاس بھی نہیں جاتا۔ کانفرنس کے کسی بھی لٹریچر کے علاوہ مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج کی تقریر میں جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کا ذکر نہیں تھا؛ حالانکہ یہ لیڈر بھارت کی افریقہ پالیسی کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جنوبی افریقہ کے صدر زوما، مراکش کے شاہ محمد، مصری صدر عبدالفتاح سیسی، گھانا کے صدر جان ماہاما اور موریشس کے وزیر اعظم انیرودھ جگن ناتھ نے اپنی تقریروں میں نہرو اور اندرا گاندھی کا ذکر کیا۔ کانفرنس کے دوران بھارت نے پاکستان کو پیغام دینے کے لیے سٹیٹ سپانسرڈ ٹیررازم اور دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے ہتھیارکے طور پر استعمال کرنے کی مذمت اور اس کا 
سدباب کرنے سے متعلق الفاظ مشترکہ اعلامیہ میں شامل کرنے کی خاصی تگ و دو کی، مگر شمالی افریقی ممالک نے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ بالآخر اعلامیہ میں ان ملکوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی اپنی سرزمین دہشت گردی کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال نہ ہونے دیں۔
افریقی لیڈروں سے بات چیت کے دوران پتا چلا کہ بھارت میں جارحانہ فرقہ پرستی نے بین الاقوامی برادری کو چوکنا کر دیا ہے۔ بھارت کے ریزرو بینک کے گورنر راگھو رام راجن بھی یہ بیان دینے پر مجبور ہوئے کہ اقتصادی ترقی، ملک کی سیاسی فضا سے منسلک ہے۔ صورت حال اس قدرتشویشناک ہے کہ نامور ادیبوں، تاریخ دانوں اور سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد مودی حکومت کے خلاف کھل کر میدان آگئی ہے اور وہ اس کے خلاف اپنی آواز، سرکاری اعزازات اور تمغے واپس کر کے بلند کر رہی ہے۔
بلاشبہ، دہلی سے متصل دادری میں ایک معمر مسلمان کو گھر میں گائے کاگوشت رکھنے کے الزام میں مار مار کر ہلاک کرنے کے بعد جس طرح بی جے پی کے لیڈروں اور وزیروں نے اشتعال انگیز بیانات دیے، ان سے پوری دنیا میں بھارت کی بڑی رسوائی ہوئی اور یہ نمایا ں ہوگیا کہ سب سے بڑی جمہوریت ، سیکولرازم اور عدم تشدد کے فلسفہ‘ کے علمبردار ملک میں انسانی جان سے زیادہ جانورکی جان کی قدر ہے۔ اسی تاثر کے پیش نظر صدر پرناب مکھرجی کو گزشتہ تین ہفتوں میں تین باربیانات جاری کرنے پڑے جس میں انہوں نے اہل ملک کو خبر دارکیا کہ ا یسے واقعات سے ملک کی عالمی سطح پر بدنامی ہو رہی ہے۔ حزب اختلا ف کی جماعتوں نے وزیراعظم کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مودی ''اپنے لوگوں‘‘ کو بچانے کے لیے اپنی آئینی، قانونی اور سماجی ذمہ داریوں سے انحراف کر رہے ہیں۔اپوزیشن نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے بیانات کے ذریعہ وزیراعظم، سنگھ پریوارکی تنظیموں اور افراد کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فسطائی سرگرمیوں کے لیے انہیں 'سند جواز‘ عطا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کا اصرار ہے کہ اس منافرانہ مہم اور پر تشدد واقعات سے ان کی حکومت کاکوئی لینا دینا نہیں۔ ان کی طرف سے اپنے حریفوں اور مخالف سیاسی جماعتوںکو ذمہ دار ٹھہرانا دراصل اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور منافرت کے علمبرداروں کے حوصلے بلند کرنے کے مترادف ہے ۔ 
وزیراعظم نے اب تک اپنے وزیروں مہیش شرما اور سنجیو بلیان کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ وہ غیرذمہ دارانہ بیانات دینے پر ان کوکم ازکم وزارت سے برطرف کرکے ایک مثبت پیغام دے سکتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ ساکشی مہاراج، یوگی ادیتہ ناتھ ، ترون وجئے، سنگیت سوم، نواب ناگر کے علاوہ پارٹی لیڈر سر چند شرما، سادھوی پراچی اور ہریش سنگھ آئے دن اقلیتوںکے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ کانگریس کے لیڈر سر جے والا کہتے ہیں کہ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی ان منافرت پھیلانے والوںکو خاموش تائید حاصل ہے۔ وزیر اعظم بیانات بھی ایسے عمومی نوعیت کے دیتے ہیںکہ منافرت پھیلانے والوں پرکوئی آنچ نہ آئے۔امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے یہ حکومت بر سر اقتدار آئی ہے سوائے ہندوتوا عناصر کے کوئی دوسرا اشتعال انگیزی نہیںکر رہا ہے۔ 
وزیراعظم کے سطحی بیان کے بعد مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے سو سے زیادہ ادیبوں نے صدر پرناب مکھرجی کوخط روانہ کیا جس میں انہوں نے لکھا: ''وہ ملک میں قتل و غارت گری اوراظہار رائے کی آزادی کاگلا گھونٹنے کے ماحول میں خودکو خوف زدہ اور بے بس محسوس کر رہے ہیں اور حکومت کا ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا ناقابل معافی جرم ہے‘‘۔ بی جے پی اور وزیراعظم نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو بلند بانگ دعوے اور وعدے کیے تھے وہ اب تک ان میں سے ایک بھی پورا کرنے میں ناکام رہی ہے؛ چنانچہ حکومت کی ناکامیوں کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ واریت کے آزمودہ حربہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بھی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کا اپنی پارٹی اور کابینہ کے ارکان پرکنٹرول نہیں ہے، اصل کنٹرول ناگپور میں بیٹھی آر ایس ایس کے قیادت کے ہاتھ میں ہے جس کا علانیہ مظاہرہ حال ہی میں ان کے دہلی میں منعقدہ دربار میں دیکھنے کو آیا، جہاں وزیراعظم اوران کے وزراء اپنی اپنی رپورٹ پیش کر رہے تھے۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ مودی نے اپنا 'سخت گیر ہندو قوم پرست‘ ہونے کا تاثر بنایا جس کے تحت وہ کوئی ایسا قدم اٹھانا نہیں چاہتے جس سے ان کے حامی ناراض ہوں۔ دراصل وہ اسی تاثر کی بدولت ملک کے سب سے بڑے منصب تک پہنچے ہیں۔ انہیں سنگھ پریوارکی 'اعلیٰ ذاتوں‘ پر مشتمل قیادت نے پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود قبول کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں