"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی کا دُکھ۔۔۔۔۔!!!

سب سے پہلے قارئین‘ دوست احباب‘ عزیز و اقارب کا انتہائی مشکور ہوں کہ آپ نے ''میں کراچی ہوں‘‘ کو بھرپور پذیرائی بخشی، اتنا پسند کیا کہ میرے پاس شکریہ کے بھی الفاظ نہیں ۔ جیسے جارج برناڈ شا کو کسی نے خط لکھا: '' جناب آپ کا ایک ایک لفظ 10 پونڈ کا ہے ، آپ کو 10 پونڈ بھیج رہا ہوں ایک لفظ عنایت کر دیں‘‘۔ اس کا خیال تھا کہ جارج برناڈ شا چکراجائے گا اور پوری دنیا میں اس کی چالاکی کی دھاک بیٹھ جائے گی لیکن جارج برناڈ شانے ''شکریہ‘‘ لکھ کر بھیج دیا۔ آپ کی ای میلز،فون کالزاور میسجز نے مجھ میں نئی روح پھونک دی ہے ، پاکستان کے سب سے بڑے شہر ''کراچی کادکھ‘‘ کے ساتھ آج ایک بار پھر حاضر خدمت ہوں۔
یورپ کے کئی شہر آبادی کے لحاظ سے کراچی کے ایک ضلع کے برابر ہیں لیکن ترقی میں کراچی ان کے قریب بھی نہیں آتا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جن کی گاہے نشاندہی کرتا رہوںگا۔
جب مشرقی پاکستان ٹوٹا تو پاکستان کے ''بھینگے دانشوروں‘‘ نے اپنی تنقیدی نشستوں میں جو چیخ و پکار مچائی‘ اس میں کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کے مطالبات مان لینے میں کیا حرج تھا، لیکن سب کچھ ایسے وقت کہا گیا جب پاکستان ٹوٹ گیا تھا، جیسے ایک پہلوان نے کہا تھا کہ ''لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا اپنے منہ پر مار لینا چاہئے‘‘۔
کراچی کا مسئلہ بھی وہ بدقسمت منہ ہے جو ''مکے ‘‘کا بے تابی سے انتظار کر رہا ہے۔ کراچی کے مسئلے کو فلسفیانہ انداز میں حل کرنے کی بے شمار کوششیں کی گئیں لیکن اس مزاح نگار کا کیا کریں جو کہتا ہے ''فلسفی اسے کہتے ہیں جوکسی مسئلے کا حل ایسا نکالے جسے دیکھ کرآپ یہ کہیںاس سے مسئلہ اچھا تھا‘‘ ۔
کراچی کو قومی وسائل میں حصہ مل جائے توکراچی کی آواز اسمبلیوں میں مضبوط ہو گی جو کسی کو گوارا نہیں۔ کراچی میں امن کے حوالے سے کسی نے کہاتھا: ''ایک لاش سے دوسری لاش گرنے تک کا وقفہ امن کا دور کہلاتا ہے‘‘۔ ہمارے کراچی سے باہر کے کئی دوست پوچھتے ہیں: ''کراچی میں امن کب قائم ہوگا؟ لیکن کیسے قائم ہو گا، یہ کوئی نہیں بتاتا‘‘۔
کراچی کی ''چابی‘‘ کسی دوسرے صوبے کے پاس نہیں، کراچی کا باسی کسی اہم عہدے تک پہنچتا نہیں اورکبھی ایسا ہو جائے تواتنے بڑے عہدے پر پہنچ جاتا ہے کہ کراچی واپس آنے کے لیے بھی 26 ایجنسیوں کی کلیئرنس ناگزیر ہو جاتی ہے۔ممنون حسین صدر توبن گئے لیکن کراچی کے شہری ان کے کب ''ممنون ‘‘ ہوںگے اس کا کچھ پتہ نہیں۔ کراچی مہنگا بھی ہے تو سستا بھی، یہاں آپ کو 10 روپے کی چائے بھی ملے گی اور 200 روپے کی بھی ، کھانا 20 روپے میں بھی ملتا ہے 2 ہزار ''پرہیڈ‘‘ بھی، پانی مفت بھی ملتا ہے 50 روپے کی بوتل میں بھی، یہاں تک کہ کراچی میں زندگی بھی سستی ہے اور موت بھی ۔ کراچی کے ساتھ ''غریب کی جورو‘‘ والا مسئلہ ہے،فیصل آباد سے منتخب وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کا جب موڈ خراب ہوتو نزلہ کراچی کے شہریوں پر گرتا ہے۔ وہ 'کے الیکٹرک‘ (سابق کے ای ایس سی) کوبجلی کی فراہمی میں کمی کرتے ہیں تو 'کے الیکٹرک‘ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کردیتی ہے اور نتیجہ وہی۔۔۔ کراچی والا پستا ہے۔ عابد شیر علی صاحب کوچا ہیے کہ وہ'' شیر‘‘ بن کریہ تو معلوم کریں کہ آج کل کراچی میں واپڈا سے مہنگی بجلی بیچنے والی کمپنی کا مالک کون ہے؟اور ابوظہبی میں ایک ''مائی‘‘کے نام سے ٹرانسفر ہوکر دو افراد کے نام کیسے ہوگئی؟ابو ظہبی کا قانون تواتنا سخت ہے کہ وہاں کی ''آف شورکمپنیاں‘‘شور نہیں کرتیںاور ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام بھی کوئی معلوم نہیںکرسکتا۔
کراچی کو کوئی اپنا حکمراں بھی نہ ملا۔ وزیراعلیٰ جب آیا، اندرون سندھ سے آیا۔ ڈھائی کروڑکی آبادی میں کوئی ایسا اہل شخص پیدا نہیں ہوا جو کراچی یا سندھ پر حکومت کرسکے۔ اہم محکمے بھی کراچی کے شہریوں کی پہنچ سے دور رکھے جاتے ہیں تاکہ جو بھی آئے ''مال پانی‘‘بنا کر جائے۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے شہری کوسرکاری ملازمت سے دور رکھنے پر ''قومی اتفاق رائے‘‘ پایا جاتا ہے اوراس پر بھی مسئلہ کشمیر کی طرح یکجہتی ''وافر مقدار‘‘ میں نظر آتی ہے۔کراچی ملک کے نقشے میں ضرور ہے لیکن قومی پالیسیوں میں نہیں۔ وفاقی حکومت بجلی سستی کرے، پانی کی فراہمی بڑھائے، گیس کا ناغہ ختم کرے یا کوئی اور اعلان کرے،کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔کراچی میں پہلے ہی بجلی مہنگی ہے، پانی کا کوٹہ اور ناغہ ایک ساتھ نافذ ہے۔ کراچی کے لیے اگر 
کوئی منصوبہ بنا بھی لیا جائے تو وہ صرف کاغذپر بنتا ہے اورکاغذ پر ہی انتقال کرجاتا ہے، اس میں سیاسی تنگ نظری صاف نظر آتی ہے۔ جناب وزیراعظم میاں نواز شریف نے موٹر وے بنانے شروع کیے توکراچی کے شہری بھی امید کا دامن پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ''اب کراچی والوں کی قسمت بھی جاگے گی‘‘ لیکن کراچی سے حیدرآبادجانے والی سپر ہائی وے کا بھی حشر نشر ہوگیا، اب تو وہاں تیز رفتاری پر چالان بھی نہیں ہوتے۔ وجہ یہ نہیں کہ شہری قانون پسند ہو گئے ہیں، ہائی وے کی حالت ہی ایسی ہوگئی ہے کہ نہ تیز رفتاری ہوتی ہے نہ چالان۔ عمران خان صاحب نے لاہور میں کینسر ہسپتال بنایا تو کراچی کے شہری پھر آس لگائے بیٹھے رہے کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ کراچی میں بھی کینسر ہسپتال بنے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ کینسر ہسپتال کا منصوبہ خود''کینسر‘‘کا شکار ہوگیااورکینسرکے مریض آج بھی کراچی سے لاہور''ایکسپورٹ‘‘ کیے جا تے ہیں۔سیانے کہتے ہیں کراچی کا کام ہی ''ایکسپورٹ‘‘ کرنا ہے، چاہے وہ چاول ہوں، فروٹ ہو‘ سبزی ہو یا مریض! اسلام آباد اور لاہور میں میٹرو بس شروع ہوگئی لیکن کراچی میں ''سرکلر ریلوے‘‘ شروع نہ ہو سکی۔ آج اس منصوبے کی فائلوں پر کاکروچ کے انڈے ضرور' سفر‘ کر رہے ہیں۔ سرکلر ریلوے کی پٹریوں اور لوکل اسٹیشن پر قبضہ ہوگیا، کہیںکچی آبادی نے سانپ کی طرح سر اٹھا رکھا ہے تو کہیں'' گوٹھ‘‘ زمین کے اندر سے پھوٹ رہے ہیں۔ اﷲ بھلا کرے ملک ریاض صاحب کا کہ وہ ''بحریہ ٹائون‘‘ کو کراچی تک لے آئے لیکن منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی حاسد اور حریص سرگرم ہو گئے۔ 
کراچی میں ٹرانسپورٹ کی حالت بھی حکومت جیسی ہے۔۔۔کبھی چلتی ہے،کبھی نہیں ۔سی این جی پر گاڑی چلاکر ڈیزل کا کرایہ وصول کرنا کوئی یہاںسے سیکھے، لیکن کیا کریں ؟ٹرانسپورٹ کا محکمہ بھی کراچی کے کسی شہری کے پاس نہیں۔
شہر میں صفائی ستھرائی کی یہ صورت حال ہے کہ کچرے و غلاظت کے پہاڑ بنا کر ایسے کھڑے کردیے جاتے ہیں جیسے آپ اسکردو سے''کے ٹو‘‘کا نظارہ کررہے ہوں، لیکن اس محکمے کی وزارت بھی کسی کراچی والے کے پاس نہیں۔
ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتیوں اور دیگر جرائم نے شہرکو اپنی بانہوں میں ایسے جکڑ رکھا ہے جیسے دو محبوب برسوں بعد ملے ہوں لیکن اس محکمے کا سربراہ بھی کوئی کراچی کا شہری نہیں۔
کراچی میں ہسپتالوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسا نظام ہے کہ مریض تو مریض‘ تیماردار بھی اپنا علاج کروانے پر مجبور ہوجاتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں، یہ محکمہ بھی کراچی کے بجائے خیر پور کے ایک شاہ کے پاس ہے،اس کو پوچھنے،روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں،وہ احتساب سے پاک ''جمہوری سسٹم‘‘ کا وزیر ہے ، اگر ناراض ہوگیا تو صوبائی حکومت کے اعتماد کے ووٹ کا ''ٹوٹل‘‘بگڑ جائے گا۔اب کسی کوکیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ چند غریب مریضوں کے لیے پوری صوبائی حکومت کو اکثریت سے محروم کرتا پھرے۔یہی تو جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔۔۔نہ سوال،نہ جواب،نہ حساب،نہ احتساب!

 

شہر میں تعلیمی اداروں کی حالت بھی ایسی ہے کہ میٹرک کے امتحانات کے لیے ہزاروں طلباء ٹیکنالوجی کے جدید ترین دور میںایڈمٹ کارڈ نہ لے سکے ، پوزیشن خاک لیں گے! سرکاری اسکولوں میں کھڑکیاں ہیں نہ دروازے،کرسیاں ہیں نہ میزیں، طلباء اکڑوں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، وجہ پھر وہی ہے کہ وزیر موصوف لاڑکانہ کے ہیں اور وہاں کا'' تعلیمی کلچر ‘‘یہاں لانے میں مصروف ہیں۔
یہاں تک کہ کراچی سے شائع ہونے والے درجنوں اخبارات بھی اسلام آباد اور لاہور کے مسائل پر تو ''فوکس‘‘رکھتے ہیں لیکن کراچی کے لیے ان کے پاس صرف ایک ''سٹی پیج‘‘ہے جس میں ایک چوتھائی اشتہارات ہوتے ہیں۔ ٹی وی چینلزکا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔کراچی کی خبریں، بریکنگ نیوز، نیوز الرٹ اور مختلف چونکادینے والے ناموں سے پیش کی جاتی ہیں جن میں80فیصد جرائم کی خبروں کوخوفناک آوازوں کے ساتھ دھڑا دھڑ نشر کرکے کراچی کا بچا کھچا ''امیج‘‘بھی خاک میںملایا جاتا ہے۔
کراچی کے اداروں میںاگراسٹیٹ بینک کا ذکرکریں تو اس کا ہیڈ کوارٹر آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے، یہ ادارہ ہر 3 ماہ بعد ایک رپورٹ جاری کرتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں سرمایہ کار ی کی کیا 'اسپیڈ ‘ ہے۔ کاش کوئی ایسا گورنر اسٹیٹ بینک آئے جو یہ رپورٹ جاری کرے کہ پاکستانیوں نے پاکستان میں کتنے ارب روپے کی سرمایہ کاری کی؟ اسٹیٹ بینک سے اچھی کارکردگی تو ہماری پولیس کی ہے جو اپنی تحویل سے فرار ہونے والے ایک آدھ ملزم کو تو پکڑ ہی لیتی ہے لیکن اسٹیٹ بینک باہر جانے والے سرمایہ کاروں کو واپس لانے میں تاحال ناکام نظر آتا ہے۔
کراچی میں لوگوں کی یومیہ آمدنی فی کس سو روپے سے ایک کروڑ روپے تک ہے،گزارا سب کا ہوتا ہے، لیکن آج اس شہر کوترقی کے جس مقام پر ہونا چاہیے تھا یہ وہاں نہیں اور اس کی ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومتیں، سیاسی و مذہبی جماعتیں، سکیورٹی ادارے،''سیاسی پولیس‘‘ اور وہ سب لوگ اور ادارے ہیں جو کراچی سے برائے نام بھی محبت نہیں کرتے۔
میں آج اپنے کالم کے توسط سے یہ دعویٰ کرتا ہوںکراچی کی حکمرانی کراچی والوں کو دے دیں پھر دیکھیں امن خود کراچی کی آغوش میں کیسے آکر بیٹھتا ہے، سرمایہ کیسے بانہیں پھیلا کر استقبال کرتا ہے، ترقی کیسے مسکراتے ہوئے گلے لگاتی ہے اور یہ منی پاکستان کیسے پورے پاکستان میں تبدیل ہوتا ہے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی والا یہ شہر کس کس سے شکوہ کرے ؟ اس کے زخم تو اب اتنے پرانے ہیںکہ بقول قابل اجمیری:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کراچی میں بھی وقت کی جانب سے پرورش جاری ہے، اس سے ڈرا جائے کہ کوئی ''حادثہ‘‘نہ ہوجائے۔کراچی کو اس کا حق اورکراچی والوں کو ان کے اپنے حکمران دیے جائیں تاکہ کراچی کی ''پارٹ ٹائم‘‘کے بجائے ''فل ٹائم ‘‘خدمت کی جاسکے۔

 



Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں