چار دوستوں نے ایک شہر میں بہترین جگہ پر عالی شان ہوٹل بنایا مگر ایک مہینے تک ان کے ہوٹل میں ایک گاہک بھی نہ آیا... !کیونکہ چاروں نے اپنے گائوں سے لا کر چار کتے ہوٹل کے دروازے پر باندھ دئیے تھے... پھر چاروں نے ہوٹل بیچ کر گاڑیاں مرمت کرنے کا گیراج بنانے کا فیصلہ کیا... ورکشاپ بنائی... ہر قسم کی مشینری لگائی... مگر ایک مہینے تک کوئی گاہک ان کے گیراج میں گاڑی مرمت کرانے نہ آیا...! کیونکہ انہوں نے گیراج دوسری منزل پر بنایا تھا... گیراج بیچ کر چاروں دوستوں نے ٹیکسی خریدی... ایک ماہ تک سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے... مگر کوئی آدمی ان کی ٹیکسی میں نہ بیٹھا...!کیونکہ چاروں ہر وقت اپنی ٹیکسی میں ہی سوار رہتے تھے... تنگ آکرانہوں نے ٹیکسی سمندر میں پھینکنے کا فیصلہ کیا... سارا دن وہ ٹیکسی سمندر میں دھکیلنے کے لئے زور لگاتے رہے مگر ٹیکسی اپنی جگہ سے نہ ہلی...!کیونکہ دو آگے سے اور دو پیچھے سے ٹیکسی کو دھکا لگا رہے تھے۔
کراچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے...کوئی آگے کھینچ رہا ہے تو کوئی پیچھے...کوئی ''ایلوپیتھکـ‘‘ علاج کا مشورہ دیتا ہے تو کوئی ''ہومیوپیتھک ‘‘ کا...کوئی کہتا ہے فلائی اوور بننا چاہیے... تو کوئی ''انڈر پاس‘‘ کوٹریفک کی روانی کاسبب قرارد یتاہے...غرض جتنے منہ اس سے زیادہ باتیں...
1960ء میں کراچی ترقی کا رول ماڈل تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی کوریا نے اپنے ملک کا دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1960ء تا1965ء کراچی سے نقل کیا۔
کراچی کی بلدیہ کاآغاز1933ء میں ہوا... ابتدا میں شہر کا ایک میئر... ایک نائب میئر اور 57کونسلرہوتے تھے۔ 1976ء میںبلدیہ کراچی کو ترقی دے کر بلدیہ عظمیٰ کراچی بنادیا گیا ...لیکن 5فیصد سالانہ کے حساب سے نقل مکانی کے نتیجے میں بڑھتی آبادی رکنے کا نام نہیں لے رہی...اس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے... جس میں اہم ترین سبب دیہات سے شہروں کومنتقلی ہے... محتاط اندازے کے مطابق ہر ماہ 45ہزار افراد کراچی پہنچتے ہیں...آباد ی میں ''تیز رفتار‘‘اضافے لیکن وسائل میں ''تیز رفتار‘‘کمی نے شہر کا حلیہ بگاڑدیا... سندھ کے ہرضلع میںایک سول اسپتال ہے...لیکن کراچی کی ایسی قسمت کہاں؟...کراچی میں 5اضلاع نے ایک اور ضلع کورنگی کو ''جنم ‘‘دے دیالیکن دوسراسول اسپتال''پیدا‘‘نہ کرسکے۔شہر کے ایک ''سرے‘‘ سے دوسرے ''سرے‘‘ تک کم از کم 35کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ بنتا ہے...لیکن اتنے طویل فاصلے کے درمیان کوئی اور سول اسپتال نہیں...حکمرانوں کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں جیلوں کی تعداد تین ہے‘ لیکن سول اسپتال صرف ایک...کراچی سب کا وارث ہے لیکن خود'' لاوارث‘‘ ہے...ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لئے ایک ''سول اسپتال ‘‘ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
جس طرح دولت سے '' غریبی ‘‘ خریدی نہیںجاسکتی‘ اسی طرح کراچی کے مسائل کا حل بھی دولت کے ساتھ دماغ کے استعمال میں پوشیدہ ہے...محکمہ ریلوے کا ہیڈکوارٹرلاہور میں اور قیمتی زمینیں کراچی میںہیں...قبضہ مافیاز جس رفتار سے ''دانے دانے‘‘ پر اپنی ''مہر‘‘ لگا رہے ہیں...لگتا ہے کہ ایک دن آئے گا جب ٹرین کو بھی کراچی میں داخل ہونے سے یہ کہہ کر روک دیا جائے گا کہ ''آگے ٹریفک جام ہے‘‘... پٹڑیاں فروخت کردی گئیں... انجن ایسے ہیں کہ تھوڑی رفتار بڑھے...تواس کی حالت کسی ''بلغمی بوڑھے‘‘ جیسی ہوجاتی ہے۔
یہ وہ شہر ہے جہاں 1906ء میں سماجی اور ثقافتی تقاریب کیلئے بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ ) پر ایک ہال تعمیر کیا گیا جس پر 33ہزار روپے لاگت آئی۔ اس میں 18ہزار روپے ایک مخیر شخصیت غلام حسین خالق دینا کے لواحقین کی جانب سے عطیہ تھا جبکہ باقی 15ہزار روپے کراچی میونسپلٹی نے خرچ کئے... آج اسے خالق دینا ہال کے نام سے جانا جاتا ہے... کراچی کی ایک اور عمارت ''فریئرہال ‘‘ کی زمین سیٹھ دھول جی ڈینشا نے عطیہ کے طور پر دی... جسے سندھ کے برطانوی کمشنر سرہنری بریئل ایڈورڈ فریئر نے 1860ء سے 1865ء میںتعمیر کروایا۔ اس طرز تعمیر پربعدازاں ممبئی میں کئی عمارتیں بنائی گئیں... فریئر ہال پہلے امریکی قونصلیٹ کی وجہ سے ''سیکورٹی رسک‘‘ بنارہا اور آج اسے ایک بار پھر قبضہ مافیا کا سامنا ہے۔
اب ہم کراچی کا و ارث کہیں تو کسے؟ غلام حسین خالق دینا یا سیٹھ دھول جی ڈینشا...جن کے شاہکار 100سال بعد بھی ان کی یاد دلاتے ہیں‘ لیکن موجودہ حکمرانوںکا تیار کردہ ناردرن بائی پاس ہو... یا ڈرگ روڈ کا فلائی اوور... وقت سے پہلے گرجانا اور گڑھے پڑجانا...گویا ان کی ''فطرت‘‘ میں شامل ہو۔
کراچی کی سرکاری زمینوں کی بات کریں تو اس کے ''وارث‘‘ لینڈ مافیا کی صورت میں موجود ہیں... محکمہ ریلوے ہو یا ریونیو... کے ڈی اے ہو...یا کے ایم سی...ایم ڈی اے ہو یا ایل ڈی اے... 4لاکھ ایکڑ زمین ایسے بانٹی جارہی ہے جیسے قرض حسنہ ہو۔ ایک مزاح نگار کے بقول''قرض حسنہ اسے کہتے ہیں جس کی واپسی کے تقاضے پر بندہ ہنسنا شروع کردے‘‘۔
محکمہ ریونیو کی حالت ایسی ہے کہ... نیشنل ہائی وے پر گوٹھوں کا ''جمعہ بازار ‘‘ لگاہے۔ 30سالہ لیز پر بھی ایسی پختہ تعمیرات ہیںکہ گرانے والوں کو بھی 30سال لگ جائیں... زرعی زمین کو پلاٹوں میں ایسے تقسیم کیاجا رہا ہے جیسے کسی سالگرہ کا کیک کاٹا جاتا ہے...محکمہ ریونیو کا بھی کوئی والی وارث نہیں... ''کوئی‘‘ ہے تو اس کا کسی کو پتہ نہیں...ملیر کے باغات ماضی میں بڑے مشہور تھے... لیکن آج ملیرکا امرود بھی ''اصلی‘‘ نہیں ملتا... کراچی کے لئے خوش خبریاں بھی ایسی ہیں... جیسے ہمارے ایک شاعر دوست کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن چھپا تو ایک ستم ظریف نے یہ خوش خبری دی کہ جو اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی ایک کتاب خریدے گا‘ اسے پہلے ایڈیشن کی دو کتابیں مفت ملیں گی۔ اگر چہ کچھ لوگ یہ پوچھنے لگے کہ یہ خوش خبری ہے یا دھمکی...؟
کراچی میں لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی... بجلی سستی ہوگئی... کارخانے کھلنے لگے...صنعتیں چلنے لگیں...بھتہ ختم ہوگیا... ٹارگٹ کلنگ تھم گئی... دکانیں اوربازار رات گئے کھلے ہیں...
یہ تمام وہ خوش خبریاں ہیں جو ہمیں یکم اپریل کو بذریعہ ایس ایم ایس ملتی ہیں...!!
کراچی میںکمرشل ازم عروج پر ہے... ہر طرف ''کاروبار‘‘ہے...رہائشی علاقوں میں بھی کمرشل بل وصول کیے جاتے ہیں‘ چاہے پانی ہو... بجلی ہو... گیس ہو یا کچھ اور... جہاں بانی پاکستان کی اصلی قبر دیکھنے کیلئے بھی ''ٹکٹ‘‘ خریدنا پڑے وہاں کے کمرشل ازم کا عالم کیا ہوگا‘ اس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں...؟
''خزانہ‘‘ جب سے ڈار صاحب کے حوالے کیا گیا‘ کراچی والے انتظار میں ہیں کہ ڈارصاحب کب ٹیکس کم کرکے کراچی کے تاجروں کو ' خوش‘‘ کرتے ہیں...ڈالر اتنا زیر بحث ہے کہ اہلیان کراچی کو تو''ڈار‘‘ اور''ڈالر‘‘ میں زیادہ فرق ہی نظر نہیںآتا۔
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پراپرٹی ٹیکس کا ایک ادارہ ہے... لیکن اسے بھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنادیا گیا...ان سے کوئی پوچھے توسہی ''پراپرٹی ٹیکس‘‘‘ صرف کراچی دیتا ہے... تو اس کا نام کیسے تبدیل ہوا... سندھ کے بیشتراضلاع کو تو پتہ بھی نہیں کہ ''پراپرٹی ٹیکس‘‘ کب اور کیسے نافذ ہوتا ہے۔
کراچی کے حکمرانوں نے تو کبھی اپنی ناکا می کو تسلیم کرنا ایسے ہی سمجھا ہے جیسے۔
ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ '' میں ناکام شاعر ہوں‘‘۔
اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا :
''جون صاحب ! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ، ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں‘‘۔
ایک برطانوی فلسفی لکھتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز دوبار بنتی ہے... پہلی بار انسان کے دماغ میں اور دوسری بار حقیقت میں...اگر ہم نے کامیاب ہونے کا کوئی خواب نہیں دیکھا... یا ہمارے دماغ میں کامیابی کی کوئی تصویر ہی نہیں... توپھر حقیقت میں بھی کامیابی سے ہماری ملاقات نہیں ہوسکتی... کیوںکہ انسان کبھی ناکام نہیںہوتابلکہ اس کی حکمت عملی ناکام ہوجاتی ہے...یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ناکامی کامطلب ختم شد نہیں بلکہ کامیابی میںتاخیر کا نام ہے۔
کراچی کے مسائل پہ لکھنا میرے قلم پر قرض ہے اور جب تک اس میں سچ کی سیاہی ہے‘ کاغذ پر یہ سفر جاری رہے گا... ہم کراچی کی ترقی کے خواب دیکھتے رہیں گے کیونکہ واقعی ''کامیابی میں تاخیر ضرور ہوتی ہے ‘‘۔