کراچی ایئرپورٹ پر حملے نے اذہان کے ''میٹرنٹی ہوم‘‘ میں کئی سوالات کو جنم دیا لیکن نتائج بھی سامنے آناشروع ہوگئے‘ فوج حرکت میں آئی‘ آپریشن کا آغاز ہوا اور ایک ایک کرکے تمام سیاسی جماعتیں (علاوہ جماعت اسلامی) پاک فوج کاہر قدم پر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھاتی نظر آئیں۔ جو جماعتیں مذاکرات کا راگ الاپتے نہیں تھکتی تھیں وہ بھی آپریشن کے گیت گاتی رہیں۔ کراچی ائیرپورٹ پر حملے کا دوسرا پہلووفاقی حکومت اور سندھ حکومت میں ''پنجہ آزمائی‘‘کاہے۔ ایسی ہنگامی صورتحال میںبھی سندھ حکومت اور وفاق آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے کو للکارتے رہے۔ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان اچانک شروع ہوجانے والی جنگ کے شعلے زیادہ نہ بھڑک سکے۔ کسی نے صلح تو نہیں کرائی لیکن ''آٹومیٹک صلح‘‘ ہوگئی... ڈرتھا کہ کہیں لڑائی بڑھ نہ جائے اور حکومت مخالف''ہوائوں‘‘کیساتھ مل کر''سونامی‘‘کی شکل اختیار نہ کرلے‘ اگر لڑائی زیادہ بڑھتی تو یہ آگ پیپلزپارٹی کوازخودلپیٹ میں لے لیتی اورپرانی یادیں نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکتی تھیں۔ صوبے اور وفاق کی لڑائی میں سیاسی پارٹیاں بھی گتھم گتھا ہوجاتیں... کسی کے ''بٹن ‘‘ٹوٹتے تو کسی کا ''کالر‘‘پھٹتااور سب سے بڑا فائدہ ''ان ‘‘کو ہوتا جو نواز حکومت کے خلاف بساط لئے گھوم رہے ہیں کہ کہاں موقع ملے اور اسے بچھادیا جائے اوراپنی مرضی کی چالیں کھیلنے میںآسان موقع کو کیوں ضائع کیا جائے۔
وفاق اورصوبے کے درمیان لڑائی کاآغاز اس وقت ہوا جب سندھ حکومت کے '' بڑوں‘‘نے محسوس کیاکہ سانحہ کراچی ایئرپورٹ کے موقع پرانہیں نیچا دکھایاگیااوروفاقی حکومت نے اخلاقی مدد کیلئے آ نے والے سندھ حکومت کے سربراہ کو پروٹوکول نہیںدیااورنہ ہی
ان کی مددلی۔ سندھ حکومت کے سربراہ چونکہ ایک سیاسی شخصیت ہیںاس لئے وہ صورتحال سے بالکل نہیں گھبرائے بلکہ ڈٹ گئے اور کہا کہ '' کراچی ایئرپورٹ سندھ حکومت کی حدود میں نہیں آتا‘‘ اس رات جب کراچی ایئرپورٹ کا کچھ حصہ آگ کی لپیٹ میں تھااوردہشت گرد اپنا کام دکھارہے تھے‘ وفاق اور صوبے میں طاقت اور اختیارات کی جنگ بھی جاری تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ کو نہ تو حقائق سے آگاہ کیاگیا نہ ہی انہیں اعلیٰ وفاقی افسران نے کوئی بریفنگ دی اور یوں سندھ حکومت کے سربراہ کراچی ایئرپورٹ کا چکر لگاکر جلدہی واپس آگئے‘ پھر بیانات کی ''گولہ باری‘‘ شروع ہوگئی... وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثاروزیر اعظم کی منت سماجت پر بالآخر کراچی تو آگئے لیکن وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو نظر نہیں آئے اسی لئے تو شاہ صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے ''صاف‘‘ کہہ دیا کہ وزیر داخلہ کب آئے اور گئے ہمیں پتہ نہیں ۔۔۔ ادھر چوہدری نثار نے قائم علی شاہ کے زخموں پریہ بیان نمک بناکر چھڑکاکہ''کراچی ائیرپورٹ سندھ میں ہے بھارت میں تونہیں‘‘پھر شرجیل میمن کا بیان نظرانداز کرنا انہیں وزیراطلات و نشریات ماننے سے انکارکرنے جیسا ہوگاانہوں نے بھی صاف کہہ دیاکہ ''چوہدری نثار صرف دن کے وزیر داخلہ ہیں‘‘اس بات نے مجھے بھی بہت حیران کیا... اور میں یہ سوچتا رہا کہ کیا رات کیلئے الگ وزیر داخلہ ہم جیسی غریب قوم ''افورڈ‘‘ کرسکے گی لیکن اس بات کے بہت سے ''معنی‘‘ میرے دوست بتاتے رہے حالانکہ میرا ان کی باتوں سے
متفق ہونا ضروری نہیں میرے اسلام آباد کے دوست تویہ بھی کہتے ہیںکہ ''چوہدری نثار موبائل فون استعمال نہیں کرتے‘‘ لیکن وجہ نہیں بتاتے حالانکہ میں دو موبائل رکھ کر بھی کبھی ایساتنگ ہوتا ہوں کہ رحمن ملک کے عید اور محرم کے دن یاد آجاتے ہیں۔
کراچی ائیرپورٹ پرحملے کے اگلے روز جب دوفائر کی آواز سن کریہ شور مچایاگیاکہ'' اے ایس ایف اکادمی پر حملہ ہوگیا ہے‘‘ سندھ حکومت نے پولیس کے ذریعہ عوام کو حقائق سے آگاہ کردیاسب سے پہلے پولیس کے ایک اعلیٰ افسرنے ایس ایم ایس کے ذریعہ میڈیا کو بتایا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا‘ پھرفون پر بتایا گیاکہ اکادمی کی عمارت پر نہ کوئی گولی کا نشان ہے اورنہ کسی نے فائرنگ کرنے والے کو دیکھا... ایک طرف نجی چینل چیخ رہے تھے کہ پوری فورس ''طالبان حملہ آوروں‘‘سے نمٹنے کیلئے پہنچ گئی... ہیلی کاپٹر بھی فضاء میں اڑتے ہوئے دکھائی دیئے... دوسری طرف آئی جی سندھ پرائیویٹ چینلوںپر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ یہ انکشاف کررہے تھے کہ کوئی حملہ نہیں ہوانہ کسی نے حملہ آور کی نشان دہی کی ہے۔ اسی تردید نے وفاق کی سکیورٹی ایجنسیوں کو سوچ بچار میںڈال دیا کیونکہ اسی دوران ٹیلی ویژن اسکرین پر یہ ٹکر بھی چلنے لگے کہ ''کراچی ایئرپورٹ کو پروازوں کیلئے بند کردیاگیا ہے ‘‘ایئرپورٹ کی بندش کی خبروںنے پاکستان میںفضائی مسافروں کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی کئی سوالات کھڑے کردیئے جن کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا... اچانک حملے کی قیاس آرائیوں پر مبنی خبروں نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی... حکومت کی ''عفت وعظمت‘‘ دائو پر لگ گئی... وفاق و صوبے جنگ کے ''دائوپیچ‘‘ آزمانے میں مصروف ہوگئے بہرحال جلد ہی کراچی ائیرپورٹ دوبارہ کھول دیاگیا اور پروازیں شروع ہوگئیں۔
کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردی کا سانحہ سکیورٹی اداروں کی لا پرواہی کا خطرناک رخ بے نقاب کرگیا۔ یہاں یہ امربھی غورطلب ہے کہ مہران بیس پرحملہ اورکراچی ایئرپورٹ پرماضی میں ہونے والا راکٹ حملہ یہ پیغام پہلے ہی دے گیا تھاکہ سکیورٹی الرٹ کردی جائے اور اب کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے‘ لیکن لگتا ہے کہ جب حملہ آور اتوارکی شب آئے توانہیں للکارنے والا کوئی نہیںتھا اوروہ خراماں خراماں یوں چلتے آئے جیسے اپنے گھر کے لان میں ٹہل رہے ہوں... اس قدر آسانی سے ان دہشت گردوں کا ایئرپورٹ میں اسلحہ سمیت داخل ہوجانا بدترین غفلت کے پردوں کو بے نقاب کررہاہے۔ دہشت گردوں کا‘ دس کی ٹولی کی شکل میں گھس آنا نہ صرف بہت بڑا سکیورٹی چیلنج بلکہ ملکی وقار کے لئے ایک سوالیہ نشان بھی ہے ۔
ایئرپورٹ آبادی سے دور ہوتے ہیں ا مریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں ایئرپورٹ شہر سے 15سے 25کلومیٹر دور ہیں۔ ماضی میں کراچی ایئرپورٹ بھی ایسا ہی تھا لیکن خود رو پودوں کی طرح آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے بڑھتی آبادی نے ایئرپورٹ کو اپنی ''لپیٹ‘‘میں لے لیا اور اب یہ انسانی بستیوں سے پوری طرح گھر گیا ہے۔ اہم راستوں کے علاوہ ذیلی اور بغلی سڑکیں بھی ایئرپورٹ کے اندر سے ہوکر گزرتی ہیں جو سکیورٹی کیلئے مستقل خطرہ ہیں۔
1940ء کی دہائی میں کراچی ہوائی اڈہ کی موجودہ جگہ پر کالا چھپرا ہوتا تھا... یہ سیاہ رنگ کا بڑا ہینگر تھا جسے برطانیہ کے آر 101ایئرشپ کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ دنیا میںآر 101ایئرشپ کے لئے صرف تین ہینگر تیار کئے گئے جس میں سے ایک کراچی میں تیار ہوا لیکن بدقسمتی سے آر 101طیارہ کراچی نہیں آسکا اور فرانس میں اپنے سفر کے دوران تباہ ہوگیا۔ 1960ء سے 1980ء کی دہائی تک کراچی خطے کا مصروف ترین ہوائی اڈہ تھا 1990ء کی دہائی میں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی کے ہوائی اڈے کے عالمی افق پر نمودار ہونے کے باعث کئی معروف فضائی اداروں نے کراچی کے لئے خدمات فراہم کرنا بند کردیں۔گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں مضبوط معیشت کے باعث کئی فضائی ادارے ایک مرتبہ پھر کراچی لوٹ رہے تھے جنہیں اس حملے سے شدید دھچکا لگا۔
کراچی ایئرپورٹ کا چاروں اطراف سے جائزہ لیا جائے تویہ بات ضرور سمجھ آتی ہے کہ اس قدرطول وعرض میں پھیلا ہوا ایئرپورٹ واجبی سے سکیورٹی اہلکاروں کے بس کی بات نہیں۔ یہ جدید حالات میںبہت زیادہ مہارت کی حامل اور وافر سکیورٹی کا متقاضی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کی حفاظت صرف خارداررکاوٹوںکی ذمہ داری رہ گئی ہے۔ اس بات کا خیال ہی نہیںرکھا گیا کہ اگرخودکش حملہ آورآگئے تو ان سے ایئرپورٹ اور اس کی تنصیبات کوکس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔