آزادی کو 67 برس ہونے والے ہیں لیکن عوام آج بھی آزادی کے لئے ترس رہے ہیں۔ اکثریت یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرے‘ اپنے حکمران خود چنے لیکن اسے یہ اختیار نہیں مل پاتا۔ جب تک عوام اپنی تقدیر کے مالک نہیں بنیں گے پاکستان کی ترقی کا پہیہ روانی سے نہیں چل پائے گا۔ اکثر ممالک میں اقتدار میں عوام کی شرکت بڑھانے کیلئے نئے اور چھوٹے صوبے بنائے گئے؛ تاکہ حکومت میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت اور اُن کا زیادہ سے زیادہ عمل دخل ہوسکے۔ گزشتہ ہفتے کراچی میں ایک ایسی کتاب کا اافتتاح ہوا جسے پاکستانی سیاست میں اہم رول ادا کرنا ہے۔ یہ تقریب رونمائی نہیں تھی بلکہ پاکستان کے پہلے ''تھنک ٹینک‘‘ کا آغاز بھی تھا۔ کوئی بھی نظریہ ہو‘ سب سے پہلے ذہن میں پرورش پاتا ہے‘ پھر وہ عمل کی وادیوں سے گزرتا ہوا انقلاب کے نام سے پہچاناجاتا ہے ''صوبے کیوں ضروری ہیں؟؟‘‘ یہ دراصل ایک کتاب نہیں بلکہ بغاوت کا آغاز ہے۔ بغاوت اور فرسودہ نظام کے خلاف ‘ ظالمانہ شکنجے کو توڑنے کا آغازہے‘ یہ دراصل ایک نعرہ مستانہ ہے جو فیض نے لگایا تھا ؎
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو! وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرا ئے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
خلیل احمد نینی تال والا نے ''صوبے کیوں ضروری ہیں؟‘‘ کے عنوان کو 342 صفحات پر مشتمل کتاب کی شکل میں تخلیق کرکے پاکستان کی سب سے بڑی فکری جنگ کا آغاز کردیاہے۔ اس کتاب میں 200 ممالک کے صوبوں کی تعداد‘ آبادی‘ رقبہ سمیت دیگر معلومات دی گئی ہیں۔ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ بھارت میں صوبوں کی تعداد 34 ہے۔ یہ کتاب ہمیں آئینہ بھی دکھاتی ہے کہ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا صوبہ تھا آج چھ صوبوں پر مشتمل ایک ملک ہے جس کی آبادی ساڑھے پندرہ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مطابق مصر میں 232 صوبے‘ جاپان میں 48 ریجن (صوبے) اور پاکستان کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹے ملک تھائی لینڈ کے 76 صوبے ہیں‘ جبکہ اُس کی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے۔ پرتگال ایک عجیب ملک ہے۔ 40 لاکھ کی آبادی والے اس ملک کو ایک ہزار نو سو چھتیس حکومتوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ ملک تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ لکسمبرگ جس کی آبادی 50 لاکھ سے کچھ کم ہے وہ 44 ٹکڑوں میں تقسیم ہے لیکن ان ملکوں کی ترقی کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ دنیا میں اپنا نام پیدا کررہے ہیں۔
پاکستان کے دو سو خاندانوں کے پنجہ جبرو ظلم میں جکڑے عوام کو ''جاگیردار فلسفی‘‘ دھمکاتے رہے ہیں کہ مزید صوبوں کا نام لیا تو زبان کھینچ لیں گے اور پاکستان کو سالگرہ کے کیک کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کردینگے۔ انہوں نے اپنے ظالمانہ کھیل کے لئے کچھ ''کاروباری ڈاکوئوں‘‘ کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے؛ تاکہ 1977 ء کی طرح شہروں سے بھی کوئی تحریک اور آواز نہ اٹھ سکے‘ اور لوگ غلامی کو مقدر سمجھ کر چپ سادھ کر بیٹھ جائیں۔
جون کے آخری ہفتے میں جب تمام اخراجاتی حساب کتاب اختتام پذیرہورہے تھے‘ تو کراچی کی ایک بڑی کاروباری شخصیت خلیل احمد نینی تال والا نے ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور اپنی تخلیقی کتاب ''صوبے کیوں ضروری ہیں؟‘‘ کی تقریب منعقد کر ڈالی۔ اس تقریب میں نامور دانشوروں کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ کتاب کی تقریب میں عموماً ناشتے کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اس تقریب میں ہیوی ڈنر کا اہتمام تھا۔ ایک نوجوان منتظم سے پوچھا گیاڈنر کیوں؟ تواس نے کہاکہ سمجھ لو تحریک کامیاب ہوگئی ہے اور اسی خوشی میں کھانا ہے۔ پھر پوچھا‘ ابھی تو تحریک کا آغاز ہوا ہے تو جواباً انہوں نے پراعتماد
لہجے میں کہاکہ اتنی اہم شخصیات کا ایک مقصد کیلئے جمع ہوجانا کامیابی کی طرف اشارہ ہے۔ تقریب میں مقررین نے مطالبہ کیا کہ نئے صوبوں کی تشکیل کے لئے فوری کمیشن بنایا جائے۔ خلیل احمد نینی تال والا نے کہاکہ 17 صوبائی اسمبلیاں بن گئیں تو کرپشن آدھی رہ جائے گی۔ اس اجتماع میں سندھ کے سابق گورنر اور لیفٹیننٹ جنرل معین الدین حیدر نے کہاکہ پاکستان کے استحکام کے لئے نئے صوبے ضروری ہیں ۔پیپلزپارٹی ‘ مسلم لیگ اور ق لیگ نے عوام کو نئے صوبوں کے نام پر بیوقوف بنایا اور ان کے قیام کیلئے نہ کوئی عملی کام کیا اور نہ ہی کوئی بحث مباحثہ۔ ان کی رائے میں چھوٹے صوبے بنانے سے انتظامی کنٹرول اچھا ہوتا ہے۔ حکومت عام آدمی کے مسائل کو زیادہ بہتر انداز میں حل کرسکتی ہے‘ جبکہ سندھ کے ایک اور سابق گورنر اور پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت تک اثرورسوخ رکھنے والے بیرسٹرکمال اظفر نے تھوڑی سی کنجوسی سے کام لیتے ہوئے کہاکہ ہمیں کم از کم 10 صوبے بنالینا چاہئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ پاکستان میں مزید صوبے بننے سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ عوام ایک ہی صورت میںاس ملک کو مضبوط اور مستحکم بناسکتے ہیں کہ حکومتی معاملات میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ساجھے دار بنایا جائے۔ کمال اظفرنے یہاں اپنی بات ختم کردی لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں 15سے20صوبے بنادیئے جائیں تو صوبوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کاجوش وولولہ پیدا ہوگا اور پاکستان ایسی بے مثال صنعتی ترقی کرے گا جس کا تصور ہم نے گزشتہ 67 برسوں میں بھی نہیں کیا۔
ریاست اور ثقافتی اکائیوں کو جانچنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان فطری طور پر 22 صوبوں میں منقسم ہے۔ حکومت نے جب 1976ء کے قریب ظفر احمد انصاری کمیشن تشکیل دیا تھا تو اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں 22 صوبے بنادیئے جائیں تو صوبائی عصبیت ختم ہوجائے گی اور ملکی ترقی کا دروازہ کھل جائے گا۔ ان کے تجزیے کو آج کل کے ٹی وی ٹاک شو کی زبان میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل سے پاکستان میں کھل جا سم سم کی چابی لگ جائے گی اور مسائل غائب ہوناشروع ہوجائیں گے ہم مشرقی پاکستان کے چھ نکات کی مخالفت کرتے رہے اور آدھا ملک کھو بیٹھے بعد میں دانشوروں نے کہاکہ ہم ساڑھے پانچ نکات ماننے کو تیار تھے لیکن بھارتی مداخلت کی وجہ سے ہمارے راستے میں رکاوٹیں آگئی تھیں۔ آج ہم کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں یہ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے لیکن کیا ہم جو مطالبہ کشمیریوں کے لئے کرتے ہیں وہ آدھے سے زیادہ پاکستانی عوام کو میسر ہے؟ کیا ہزارے وال ‘ بہاولپور کے عوام‘ سرائیکی بیلٹ کے لوگ ‘کراچی کے باشندے ‘پوٹھوہاری‘ بلوچستان میں آباد پشتون اور بروہی ‘ سندھ کے بلوچ‘ ان سب کو کیا وہ حقوق حاصل ہیں کہ اپنی مرضی سے اور اپنے علاقے کے لوگوں پر مشتمل حکومت بناسکیں؟ کسی صوبے میں شہری پاپولیشن کی حکومت ہے توکسی میں ''دیہی پاپولیشن ‘‘کی... کہیں پاکستان کے رقبے سے بڑے صوبے میں آدھی آبادی اقتدار سے دور ہے تو کسی صوبے میں اتنی زیادہ قبائلی‘ لسانی‘ نسلی اور کراس بلڈ کی تقسیم ہے کہ ہم ترقی کا سفر طے کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی لسانی خامیوں کی تلاش میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔
جب افغانستان 34 صوبوں کے ساتھ‘ الجزائر 48 صوبوں کی موجودگی میں ترقی کرسکتا ہے بحرین کی 7 لاکھ 27 ہزار کی آبادی 5 گورنروں کا بوجھ اور خرچہ برداشت کرسکتی ہے تو پھر ہمیں صوبے بنانے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔پاکستان میں صوبے بنانے کی راہ میں واحد رکاوٹ 200جاگیردار اور چند کاروباری خاندان ہیں‘ جنہوں نے 20 کروڑ پاکستانیوں کو غلام بنارکھا ہے۔ امریکہ کے پاس ہزاروں ایٹم بم ہیں لیکن انہوں نے بھی 54 صوبے (ریاستیں) بنارکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ریاستوں (صوبوں) کی وجہ سے متحد ہے ایٹم بم کی وجہ سے نہیں۔ وہاں کسی نے نہیں کہاکہ ون یونٹ بنائو اور سب کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکو۔ بڑے صوبے کا فائدہ ان جاگیردار خاندانوں کوہوتا ہے جن کو لوٹ مار کے لئے وسیع رقبہ مل جاتا ہے۔ ہمارے اکثر صوبائی وزرائے اعلیٰ نے اپنے پورے دور اقتدار میں آدھے صوبے کا بھی دورہ نہیں کیاہوتا۔ نہ ان مظلوم شہروں کو دیکھا ہے لیکن پھر بھی وہ یہاں کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔ خلیل نینی تال والا نے کتاب لکھ کر اپنا کام پورا کردیا اور اب اہل نظر اور سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ اس سوچ سے فائدہ اٹھائیںاور ملکی ترقی کے نئے راستے دریافت کریں۔ عوام‘ جاگیردار حکمرانوں سے یہ توقع بالکل نہ رکھیں کہ وہ نئے صوبے بننے دیں گے۔ وہ آزادی دیں گے۔ یہ تو عوام کو بلدیاتی اداروں کی آزادی بھی دینے کو تیار نہیں۔ یہ جاگیردار تو چاہتے ہیں کہ شہر ہو یا ٹائون‘ گائوں ہویا بستی‘ ہرجگہ ان کی مرضی سے نالی بنے‘ اور علاقے کا خاکروب ٹوپی اٹھاکر صرف انہیں سلام کرے!