مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہِ دہلی کے درمیان 1526ء میں پانی پت کے میدان میں جنگ ہوئی۔ سلطان ابراہیم کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے‘ مگر بابر خود تجربہ کار سپہ سالار اور فنِ حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا مگر شکست ان کا مقدر بنی۔ سلطان میدان جنگ میں ناکام ہوا اور فوج تتر بتر ہوگئی۔ لاڑکانہ بھی 21نومبر کو ''سیاسی پانی پت‘‘ بننے والا ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس سلطان ابراہیم کی طرح وزراء اور ارکان اسمبلی کی فوجِ ظفر موج ہے‘ دوسری جانب عمران خان کی اندرون سندھ یہ پہلی انٹری ہے لیکن عمران خان کے پاس سولہ سال سے اپوزیشن کا تجربہ اور سندھ کے حکمرانوںکی کرپشن کا پورا پنڈورا بکس ہے۔ اُن کی شعلہ بیانی اُن کا موثر ہتھیار ہے اور وہ سب کی ہر''کارستانی‘‘سے واقف ہیں۔ لاڑکانہ پر یہ ''سیاسی حملہ‘‘سندھ کی سیاست کا رخ بدل سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی ایک طرف اپنے دفاع کی سیاست کررہی ہے تو دوسری طرف کراچی بھی ''گرم‘‘ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شہداد کوٹ سے منتخب رکن سندھ اسمبلی نادر مگسی نے سندھ اسمبلی میں ایک دوسری جماعت کو ایسی دھمکی دی جسے سن کر ''شعلے‘‘ فلم اور گبرسنگھ یاد آگئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ لاڑکانہ میں سیاسی مقابلہ بازی جاری ہے تو کراچی میں قتل عام کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ملک کے تین بڑے سیاسی گروپوں کی لڑائی کئی ''خطرناک‘‘ پیغامات دے رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ملک کی لنگڑی لولی جمہوریت کوگونگی اور بہری بھی بنایا جارہا ہے۔ کچھ ماہ قبل جب جمہوریت بے بس اور لاچار ہوتی تھی تو لوگوں کو ''بوٹوں‘‘ کی چاپ سنائی دیتی تھی لیکن لگتا ہے کہ اب تو ''بوٹ‘‘بھی اس ''گند‘‘میں پڑنا نہیں چاہتے۔
جب معیشت تباہ حال ہو‘ خزانہ خالی ہو‘ ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہوچکے ہوں‘ ٹارگٹ کلنگ کم ہونے کا نام ہی نہ لے‘ بھتہ خوری عروج پر ہو‘ مہنگائی کے ''پر‘‘کاٹنے والا کوئی نہ ہو‘ افراط زر تیزی سے بڑھ رہی ہو‘ گردشی قرضے پھر پانچ سو ارب روپے تک پہنچ گئے ہوں‘ ماں اپنے نومولود لخت جگر کو صرف چالیس ہزار روپے میں فروخت کردے‘ بجلی نہ آئے لیکن بل زیادہ آئے‘ پانی کے نلکے میں ہواآنے لگے‘ تمام تر خوشامد کے باوجود ڈالر 100روپے سے نیچے آنے پر راضی نہ ہو‘ مزدور اور صنعت کار دونو ں رو رہے ہوں‘ ایسی جمہوریت کو ''فیورٹ‘‘قرار دینے والوں کی سوچ پر ہنسی آتی ہے۔
عمران خان اپنے سیاسی لائو لشکر کے ساتھ لاڑکانہ پر 10سے 12کلومیٹر دور سے حملہ کرنے والے ہیں۔ عمران خان کا یہ جلسہ لاڑکانہ سے کچھ دورشفقت اُنڑکے گائوں علی آباد میں منعقد ہورہا ہے۔ ابھی تک کا قیاس ہے کہ جلسہ کامیاب ہوگا۔ ''گونوازگو‘‘ کے نعرے کے اثرات لاڑکانہ میں بھی محسوس کئے جارہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے جلسے کی اجازت دینے سے قبل 21نکاتی سخت شرائط نامہ جاری کیا تھا جس کی سب سے اہم شرط حکومت مخالف نعرے نہ لگانے کی تھی۔ ''گونواز گو‘‘کی پنجاب میںبڑھتی ہوئی ''مقبولیت‘‘ سے پیپلز پارٹی کو یہ ڈر پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں لاڑکانہ سے ''گوزرداری گو‘‘کا نعرہ ''وائرس ‘‘بن کرپورے سندھ میں نہ پھیل جائے۔ زرداری صاحب کو چاہیے کہ ''کہیں‘‘ جاکر ''کسی‘‘ سے ''ڈیل‘‘ کرلیں تاکہ آنے والے دنوں میں بجنے والی خطرے کی گھنٹی سے بچ سکیں۔ اگر وہ آمادہ ہوجائیں تو اُن کا ''سیاسی قافلہ‘‘ محفوظ رہ سکتا ہے کیونکہ 18ویں ترمیم اب سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث ہے اور اس کے بعض نکات سیاستدانوں کو تحفظ دینے والے اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔ آئین ارکانِ اسمبلی کو احتساب سے استثنیٰ کیسے دے سکتا ہے؟ بھارت کو بہترین جمہوریت کہنے والے تامل ناڈو کی سابق وزیر اعلیٰ جے للیتا کوکرپشن ثابت ہونے پر اٹھارہ سال کی دی جانے والی سزا کیسے بھول سکتے ہیں؟ دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے رہنما کجریوال نے بھارتی کرپٹ پارلیمینٹرینز کی طویل فہرست پیش کی تھی اور آج بھی ''مودی سرکار‘‘ کے کرپٹ وزراء اور اراکین اسمبلی کی چھان بین جاری ہے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس پر کب اور کہاں مقدمہ چلنا چاہیے۔ پارلیمانی کمیٹی کی ''سلیمانی ٹوپی‘‘اتنے لوگوں کو کب تک تحفظ دے گی؟ سپریم کورٹ نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ''26افراد نے بند کمرے میں بیٹھ کراٹھارویں ترمیم کی 102 شقیں تبدیل کردیں‘‘۔ اگر سپریم کورٹ نے ''خطرے کی گھنٹی‘‘ بجادی تو کتنے لوگوں کو بیرونِ ملک پناہ لینا پڑے گی؟جو مال بنایا اس کا کیا ہوگا؟ہڑپ ہوجائے گا یا ''پارلیمانی شرفاء‘‘اسے واپس کردیں گے؟بڑے پیر پگارا آج اگر زندہ ہوتے تو اٹھارویں ترمیم کو ''لکڑ ہضم پتھر ہضم‘‘ ترمیم کے نام سے پکارتے۔
سندھ روز بروز سردی کے موسم میں گرم ہورہا ہے۔ عمران خان جب لاڑکانہ جائیں گے اور اپنی ''ٹارگیٹڈ جوڑی‘‘پر حملے کریں گے تو اس کا سندھ میں کیا ردعمل ہوگا؟ایک ایک کرکے پورے پنجاب کے جلسے دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اس کا پارٹ ٹو سندھ میں نظر آئے گا اور مسلم لیگ ن کی طرح پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے سیاسی بت بھی سنگساری کی زد میں آسکتے ہیں۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد اس وقت کی پی این اے کے رہنما اصغر خان سے
پوچھا گیا تھا کہ آپ نے یہ کیوں کہا تھاکہ ''ہم بھٹو کو کوہالہ کے پُل پر الٹا لٹکائیں گے اور کیا اب لٹکانے کا ارادہ ہے؟‘‘تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ''ہم نے یہ بات اس لئے کی تھی کہ بھٹو نے اپنا دیوتائی ہیولا بنا کر عوام کے دلوں میں خوف پیدا کررکھا تھا۔ میرے اس اعلان نے عوام کو حوصلہ دے کر' رستم خان‘ بنادیا تھا‘‘عمران خان بھی سندھ کے عوام کو ''ہوش محمد شیدی‘‘بنانے کیلئے آرہے ہیں۔ عمران خان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ بم اور ایک ایک جملہ بارود بن سکتا ہے۔ 21نومبر کو پوراملک عمران خان کی تقریر سن اور دیکھ رہا ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا ردعمل کس طرح کا ہوگا؟پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اس کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ سندھ میں عام خیال یہ ہے کہ معمولی غلطی یا جذباتی فضا کی صورت میں پیپلز پارٹی سندھ کو بڑا ''سیاسی نقصان‘‘ ہوسکتا ہے۔ آج کے سندھ کی حالت دبئی کے حکمران شیخ محمد کے اُس مقولے کی طرح ہوسکتی ہے کہ ''اگر ہرن تیز نہیں دوڑے گا تو شیر اسے کھا جائے گا اور شیر تیز نہیں دوڑے گا تو ہرن ہاتھ سے نکل جائے گا‘‘۔
سندھ کے ایک ماہر تجزیہ نگار نے بتایا کہ ''یہ تاثر غلط ہے کہ سندھ پیپلز پارٹی طاقت ور ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بہت سے ارکان اسمبلی ووٹوں کے ڈبوں سے نہیں آر اوز کے ''ٹھپوں‘‘سے جیتتے ہیں‘‘۔ مخدوم امین فہیم کا حوالہ دیتے ہوئے پیر پگارا نے اپنی پارٹی کے ہائی سرکل کو بتایا کہ ''ہالا میںہماری پارٹی کا امیدوار 28ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتا ہوا ہے۔ ہمارے پاس پریزائیڈنگ افسران کے نتائج بطور ثبوت موجود ہیں۔ جیتے ہم‘ اعلان اُن کا ہوگیا لیکن معاملہ ابھی اپیل میں ہے‘‘۔
اگر عمران خان نے لاڑکانہ ''فتح‘‘کرلیا تو پوراسندھ اس زلزلے کے ''آفٹرشاکس‘‘کی لپیٹ میں آئے گا اورغریبوں کا مستقبل وڈیروں کے '' ظالمانہ پنجوں‘‘سے نکل کر محفوظ ہاتھوں میں آ سکتا ہے۔ پُرامن نظر آنے والا سندھ چند روز بعد شاید پُرامن نہ ہو بلکہ عمران خان کا جلسۂ عام ''معاملات‘‘ کو اس قدر بے قابو کرسکتا ہے کہ ذہانت کا دامن چھوڑ کر جذباتیت کا پلوپکڑنے کی کوشش کی گئی تو آگ بجھنے کے بجائے زیادہ بھڑکے گی۔ لاڑکانہ کا جلسہ پی ٹی آئی کیلئے زندگی اور موت ''ڈُو آر ڈائی‘‘کا مسئلہ ہے؛ کیونکہ صرف 9دن بعد پی ٹی آئی کو لاڑکانہ کے اثرات کاثمر اسلام آبادمیں سمیٹنا ہے۔ تحریک انصاف کا اندرونی حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ لاڑکانہ میں جو کچھ ہورہا ہے‘ اس کی ہدایات ''رائے ونڈ‘‘سے آرہی ہیں لیکن اس بات کی احتیاط کی جارہی ہے کہ کام اس ''صفائی‘‘سے کیا جائے کہ زیادہ اشتعال نہ پھیلے۔ خود پی ٹی آئی لاڑکانہ شہر چھوڑ کر 12کلومیٹر پیچھے ہٹ گئی ہے تاکہ سکیورٹی اور تصادم کا کوئی مرحلہ پیش نہ آئے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ''جنگ میں آگے بڑھ کرحملے کیلئے پیچھے ہٹ کر منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے‘‘۔ کرکٹ کی زبان میں فاسٹ بالر بائیس گز کی پچ تک پہنچنے کیلئے بائیس قدم دور سے تیاری کرتا ہے۔پرانے لاڑکانہ کیلئے حبیب جالب نے بھی کیا خوب کہا تھا:
قصرِ شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو
ذہن پر چھائی ہو
اپنے جلووں سے محفل سجانے چلو
مسکرانے چلو، ورنہ تھانے چلو
آج لاڑکانہ کے حوالے سے یہ 35سال پُرانی نظم انوکھی سی لگتی ہے لیکن آج بھی ذراٹھہر کرسوچا جائے تو لگتا ہے کہ لاڑکانے میں ''سیاسی نعرے‘‘لگانے والوں کو تھانے ہی لے جایا جائے گا۔ جمہوریت اِسے کہتے ہیں کہ ہم چاہیں کچھ بھی لُوٹ لیں‘ تم حکومت کے خلاف نعرے بھی مت لگانا یہی تو ''جاگیردارانہ جمہوریت‘‘ کا ''حسن‘‘ ہے۔