تاریخ خود کو دہراتی ہے۔۔۔۔۔۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کیوں اور کیسے ختم ہوئی؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے مقدمہ ابن ِخلدون پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آخری وقت میں پی این اے کے رہنمائوں سے مذاکرات کے دوران اپنا اعتماد بتدریج کھوتی جارہی تھی مگر وہ دیوار کا لکھانہ پڑھ سکے ۔ذوالفقار بھٹو ایک بار مذاکرات ادھورے چھوڑ کر لیبیا کے دورے پر چلے گئے تاکہ پی این اے کے رہنما تھک جائیں اور عوام سب کچھ بھول کر اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں ۔ یہ غلطی بھٹو نے تین بار کی ۔پہلی بار غیر ملکی دورے پر چلے گئے‘ دوسری بار مذاکرات کرتے کرتے قومی اتحاد کے 9ستاروں میں سے جو ہاتھ آیا اسے حوالات کے حوالے کیا۔مولانا شاہ احمد نورانی کو گڑھی یاسین تھانے کے لاک اپ میں بند کیا گیا تو پیرپگارا کو انٹرکانٹی نینٹل(موجودہ پرل کانٹی نینٹل راولپنڈی)کے ایک کمرے میں نظر بند کردیا گیا۔لیکن جب سانگھڑ میں ٹرینیں جلنے لگیں اور حُرفورس طاقت دکھانے کیلئے صف بندی کرنے لگی تو بھٹو کو احساس ہوگیا اور وہ معافی مانگنے اسی ہوٹل کے کمرے میں پہنچے اور پیرپگارا سے کہا: ''آپ آزاد شہری ہیں جہاں چاہیں آجاسکتے ہیں‘‘۔
تیسری بار پی این اے کے رہنما بھٹو کی ''ولایتی تعلیمی ذہانت‘‘سے گھبراگئے تو انہوں نے یہ شرط رکھی کہ '' قومی اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کی تاریخ آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ سے منظور کی جائے اور اسے آئین کا حصہ بنایا جائے‘‘ جس کے بعد بھٹو نے پارلیمنٹ میں ایک خطاب کیا‘ لوگ سمجھے کہ بھٹو صاحب آئینی ترمیم منظور کروائیں گے لیکن انہوں نے کہا: ''میں نے الیکشن میں ہیراپھیری نہیں کی‘ اگر میں یہ آئین کا حصہ بنائوں گا تو پوری دنیا مجھے دھاندلی باز وزیر اعظم کے نام سے یاد رکھے گی اس لئے یہ شرط منظور نہیں کی جاسکتی‘‘۔
بھٹو نے 9ستاروں کے رہنمائوں کو ہری جھنڈی دکھادی۔ مایوسی بڑھ رہی تھی اور چار جولائی کی شام جب رات کی آغوش میں جانے کی تیاری کررہی تھی‘ اچانک اطلاع آئی کہ پی این اے کے رہنما جی ایچ کیو میں ''کسی ‘‘سے ملاقات کرنے چلے گئے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوناتھا؟ کپکپیاں طاری ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ڈرتے ڈرتے بات وزیر اعظم تک پہنچائی گئی۔رات بیت رہی تھی‘ صورت حال کا کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا ۔الطاف حسن قریشی کے الفاظ میں ''بے اعتمادی کا بحران بڑھ رہا تھا‘‘۔ اصغر خان کے فوج کو لکھے جانے والے خط کا تذکرہ بی بی سی تک پہنچ گیا۔ بھٹو نے بچائوکا راستہ ڈھونڈنا شروع کیا اور رات دو بجے ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلائی گئی کہ''باباجی ہم تیار ہیں‘‘لیکن اب وقت گزر چکا تھا‘ پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیاتھا‘ چڑیا کھیت چُگ چکی تھیں اور تیر کمان سے نکل چکا تھا۔بھٹو کی پریس کانفرنس ختم ہوگئی ۔انہوں نے ''قیمتی وقت‘‘ضائع کردیا تھا۔ان کے قریبی رفقاء ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ بھی اپنے اپنے ٹھکانوں پر سونے چلے گئے ۔اچانک ممتاز بھٹو کا فون آیا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے فون اُٹھایا‘ دونوں نے سندھی میں ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی‘ پھر ممتاز بھٹو نے کہا: ''خیریت نہیں ہے‘ میں نے راستے میں فوجی ٹرکوں کا قافلہ وزیر اعظم ہائوس کی طرف جاتے دیکھا ہے‘‘، جس پر بھٹو نے کہا ''اچھا‘ میں دیکھتا ہوں‘‘۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد بھٹو نے جب فون اُٹھایا تو ٹیلی فون ایکسچینج ہی ''ڈیڈ‘‘ہوچکاتھا۔انہوں نے ''ہاٹ لائن‘‘جو اسپیشل لائن ہوتی ہے کا فون اُٹھایاتو وہ ''آن‘‘ تھا۔ انہوں نے آرمی چیف کو فون ملایا اور کہا: ''جنرل صاحب!مجھے بتایا گیا ہے کہ فوج وزیر اعظم ہائوس کی جانب آرہی ہے ‘‘تو جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا ''ہاں! فوج میرے حکم پر آرہی ہے اور آپ کے ملٹری سیکریٹری میجر جنرل امتیاز کو میں نے اپنے پاس بلالیا ہے‘ آپ کو کل صبح مری یا سہالہ ریسٹ ہائوس‘ جہاں آپ کہیں ''حفاظت‘‘ میں رکھا جائے گا‘‘۔ اس پر بھٹو صاحب نے مری کے ریسٹ ہائوس کا انتخاب کیا۔بھٹو نے کہا: ''میری بیوی اور بچے ملنے آئے ہیں‘ ان سے بات کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ انہیں اس کی اجازت دے دی گئی۔ مورخ لکھتے ہیں کہ بھٹو نے 145دن چوہے ‘ بلی کے کھیل میں ضائع کئے ۔ایک بار پھر ویسے مناظر نظر آرہے ہیں ۔تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔جب بے اعتمادی بڑھتی ہے اور امن وامان کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو فوج بیچ بچائو کے لیے آسکتی ہے۔ دوسری جانب اب حالات بدل چکے ہیں‘ لائن کلیئر ہے اورآرٹیکل سکس کا مقدمہ عدالت کی چوکھٹ پر اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔
14اگست‘ 30نومبراور پھر 8دسمبر پلان اے‘بی اور سی تینوں جاری ہیں ۔فیصل آباد میں احتجاج اور حکومت کی جارحانہ پالیسی نے عمران خان کے پلان سی کو آغاز میں ہی کامیاب بنادیا ۔ حکومتی وزراء کی جانب سے تابڑتوڑبیانات آتے رہے کہ ''عمران خان کے پلان اے اور بی فیل ہوئے اس لئے پلان سی آیا‘‘۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی آواز میں آواز ملاتے رہے۔ لیکن اب تک کوئی یہ جواب نہیں دے سکا کہ پلان اے دھرنا تھا‘ جو اب بھی جاری ہے۔ پلان بی ملک گیرجلسے تھے جو کامیاب رہے اور اب پلان سی بھی بظاہر ''فیصلہ کن‘‘ نظرآرہا ہے ۔ اس کا آغاز ملک کے تیسرے بڑے صنعتی شہر فیصل آباد سے ہوا۔ پہلے گرما گرم بیان بازی نے سیاسی درجہ حرارت بڑھا یا‘ اس کے نتیجے میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں ہاتھا پائی ہوئی اور پھر نوبت سیدھی گولی تک جاپہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے فیصل آباد کی آگ 18دسمبر سے قبل ہی پورے ملک میں پھیل گئی۔ کراچی‘ لاہور اور پشاور سمیت پورا ملک دسمبر میںگرم ہوگیا ۔جگہ جگہ دھرنے شروع ہوئے‘ سڑکیں بندہو گئیں۔اب تو ''حکومتی تجزیہ نگار‘‘ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان نے ن لیگ کے گڑھ فیصل آباد میں گھس کر شیر کوللکارا ہے۔ وہاں ن لیگ کے ایک ایم این اے اور ایک ایم پی اے سمیت 300کارکنوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کروالیاگیا ۔پانی کے ٹینکوں سے لے کرپولیس کی لاٹھیوں تک کوئی چیزحکومت کے کام نہ آئی ۔حکومت تو ''لال رنگ‘‘ پھینک کر تحریک انصاف کے کارکنوں کی ''سہ روزہ گرفتار ی‘‘ کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی لیکن یہاں توسب کچھ الٹ گیا۔لینے کے دینے پڑگئے۔ پہلی بار عوام نے کرکٹ میچ کی جگہ ''سیاسی ون ڈے‘‘کو اہمیت دی۔اسپورٹس چینلز کی جگہ نیوز چینلز چھائے رہے۔لوگ بلے کی جگہ ڈنڈے اور گیند کی جگہ ٹماٹر دیکھتے رہے ۔ریٹنگ کی مقابلہ بازی عروج پر رہی۔ ابھی یہ سب کچھ جاری تھا کہ لاہور کے حلقہ این اے 122 کے تھیلے کھولنے کا حکم بھی آگیا یعنی اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی کرسی کے پائے ''چیک‘‘ کئے جائیںگے اور یہ ان چار حلقوں میں سے ایک ہے جس کا مطالبہ کرتے کرتے عمران خان اسمبلی سے سڑک تک آگئے اور جب حلقہ کی ''بوریاں‘‘ کھولنے کا اعلان کیاگیا تو عمران خان اس وقت بھی سڑک پر ہی موجود تھے۔ فیصل آباد کے احتجاج نے کئی سیاستدانوں کی یہ غلط فہمی ختم کردی ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اسٹریٹ پاور نہیں ہے... تحریک انصاف کے کارکنوں کو برگر کلاس، ڈیفنس،گلبرگ کے رہائشی، گانے بجانے والے لوگ، جینز ٹی شرٹ والے نوجوان، آئی فون، فیس بک اور ٹوئٹر کے ماہر کہنے والے حیران وپریشان ہیں۔
(باقی صفحہ 13پر)
آج 37سال بعد ایک بار پھر چوہے اور بلی کا کھیل اُسی طرح جاری ہے۔پہلے میڈیا کمزور تھا۔اخبارات ''دستی بم‘‘کی طرح تھے‘ ان کی رینج محدود تھی‘ لیکن اب تو الیکٹرانک میڈیا خود ''ایٹم بم‘‘ بنا ہوا ہے۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ اپنے سے بڑی طاقت کے بُلاوے کا بگل بجاتا ہے اور جب حکومت قانون ہاتھ میں لینے لگے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کئی ''شارٹ کٹ ‘‘کُھل جاتے ہیں ۔
اب کچھ ذکر کراچی کا ہوجائے ۔1977ء میں جب انتخابی دھاندلی کے خلاف جلوس نکالے گئے تو بعض مراحل پر فوج کو بھی انہیں روکنے میں مشکلات نظر آئیں۔برنس روڈ پر ایک پٹی(ربن)لگا کر اعلان کیا گیا کہ اسے جو کراس کرے گا اسے گولی ماردی جائے گی ۔لیکن علماء کی ایک ٹولی کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے وہ پٹی(ربن)توڑتے ہوئے آگے نکل گئی ۔کئی لوگ ٹرین کی پٹڑیوں پر لیٹ گئے اور پورے ملک کی ٹرینیں بند ہوگئیں۔جب عوام کا لشکر نکلتا ہے تو وہ ہرچیز کو روند دیتا ہے‘ اسے روکنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ حکومتی اقدامات اس طرح ہونے چاہئیں کہ عوام قابو سے باہر نہ ہوجائیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو کوئی بند، دیوار، رکاوٹ انہیں روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوجاتی ہے اور عوام کا بپھرا ہوا لشکر سب کچھ تہس نہس کردیتا ہے۔برنس روڈ پر احتجاجی ہجوم قابو کرنے کے لیے ٹینک بھی لانے پڑے لیکن جلوس نہ روکے جاسکے۔ایک بار پھر اسلام آباد کا دھرنا ملک بھر میں پھیل رہا ہے اور طاقت کے بے دریغ استعمال نے حکومت کی مشکلات میں اضافہ در اضافہ کردیا ہے۔اگر فیصل آباد میں ایک پارٹی دھاندلی کے خلاف احتجاج کررہی تھی تو کرنے دیتے، وہ تھک ہار کر چلے جاتے، ''سرکاری پارٹی‘‘ کس لئے مظاہرہ کررہی ہے۔پنجاب پولیس نے فیصل آباد میں یہ ثابت کردیا کہ وہ امن وامان پر قابو پانے میں مکمل طور پرناکام رہی ۔اگر رانا ثناء اللہ کی یہ بات درست مان لی جائے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تعداد 3ہزار تھی تو 15ہزار پولیس اہلکار اُن پر قابو کیوں نہیں پاسکے؟ اتنی کمزور پولیس مسلم لیگ ن کے اقتدار کے ''سنگھاسن‘‘کی حفاظت کیسے کرے گی؟ جو حکمران تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے‘ تاریخ ان کے لیے خود ایک سبق بن جاتی ہے۔
فیصل آباد بند کرانے کے بعد اب تحریک انصاف کے لئے پاکستان کا کوئی شہر بند کرانا مسئلہ نہیں رہا ۔تحریک انصاف کا دوسرا رائونڈ12 دسمبر کو کراچی میںہوگا۔سندھ حکومت نے فیصل آباد کی صورت حال یقینا دیکھ لی ہے۔ رانا ثناء اللہ ‘عابد شیر علی کے خلاف مقدمہ بھی اُن کے سامنے ہے اور یہ سب کچھ جارحانہ بیان بازی کا نتیجہ ہے۔ سندھ حکومت نے 12دسمبر کو کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی اُسی طرح لگائی جیسے فیصل آباد میں لگائی گئی تھی۔ ماضی میں چہلم امام حسینؓ پر ایک روزہ پابندی لگائی جاتی رہی ہے ۔ فیصل آباد کی طرح کیا کراچی میں جیالے تحریک انصاف کے کارکنوں کا مقابلہ کریںگے ؟یا پھر اپنے اندرونی مسائل میں گھری پیپلزپارٹی فیصل آباد سے سبق لیتے ہوئے خاموشی اختیار کرلے گی۔سندھ کی صورت حال کا تو یہ حال ہے کہ بلاول بھٹو ایک طرف والد سے ناراض ہیں تو دوسری طرف ''انکل الطاف‘‘ کے خلاف بھی محاذ کھول رکھا ہے ۔ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے بلاول کے بیان پر ''تاخیری ردعمل‘‘سے تمام سیاسی رہنما حیران ہیں ۔اُن کے بیان کی ''ٹائمنگ‘‘ پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ دوسری جانب بلاول بھٹو کی پارٹی تقریبات سے مسلسل ''غیرحاضری‘‘ بھی نقادوں کے نشانے پر ہے ۔واقفان حال یہاں تک کہتے ہیں کہ بلاول پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے رابطے میں ہیں اور جلداُن سے ملاقاتیں بھی کرنے والے ہیں۔بلاول زرداری اپنے والد کی ''طویل ترین فرینڈلی اپوزیشن ‘‘کی پالیسی سے بیزار ہوچکے ہیں‘ ان کی جانب سے سندھ حکومت کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار سامنے آرہا ہے‘ وہ سندھ میں ایک بڑی تبدیلی چاہتے ہیں اور ایک سید کی جگہ دوسرے سید کو اعلیٰ کرسی پر دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔