ابھی حکومت عمران خان کے پلان سی سے نمٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہے کہ پلان ڈی کے ''ٹریلر‘‘ ریلیز کیلئے تیار نظر آرہے ہیں۔ لاہور میں جو کچھ ہوا وہ فیصل آباد سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ جوں جوں آگ بھڑکے گی اس کا نقصان حکومت کو ہوگا۔ امن وامان کی صورتحال خراب ہورہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے کچھ صفحے خاکستر نہ ہوجائیں۔ 58ٹوبی کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے آئین جمہوری کے بجائے آمرانہ سا ہوگیا ہے اور وزیر اعظم بھی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگتا ہے۔احتساب نام کی کوئی چیز نہیں‘ کوئی پکڑاور جکڑ نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں وحشی قبائلی معاشرہ موجود ہے اوراقتدار اس پالتوبلی کی مانند ہے جسے صبح کہیں چھوڑ کر آجائیں تو شام کوگھوم پھر کردوبارہ گھر پہنچ جاتی ہے۔ حکومت ''ٹھیکہ سسٹم‘‘پر چل رہی ہے اور ایسے لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں انہیں آئینی اختیارات بھی حاصل ہوجاتے ہیں‘ جیسے آئین اسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہو۔کوئی روک ٹوک نہیں‘ کوئی حساب کتا ب نہیں‘ نہ خوف خدا ہے نہ خوف خلق‘ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ پاکستان کے متفقہ آئین کیلئے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور آئین میں ایسی ترامیم کی جائیں جو قائد ایوان کو جمہوری قوت فراہم کرے۔ بے لگام اختیارات نہیں‘ کسی غریب کا بھی کوئی فائدہ ہو۔ ارکان پارلیمنٹ اپنی تنخواہ کے بجائے لوگوں کے روزگار کی فکر کریں۔ پاکستان کو اندرونی اور اطراف کے ''عسکری دشمنوں‘‘کا مقابلہ درپیش ہے اس لئے پاک فوج کو سیاسی امور میں شامل کرکے ان کی طاقت کو آئین کی حفاظت کیلئے استعمال کیا جائے۔ دنیا کے کئی ممالک میں فوج کا کہیں نہ کہیں آئینی کردار ہے۔ پاک فوج کو اچھوت سمجھنے کا نظریہ درست نہیں؛ بلکہ فوج کی طاقت کو تعمیر نو کیلئے استعمال کیا جائے۔ ہمیں صرف زلزلہ‘ سیلاب‘ طوفان اور دیگر قدرتی آفات کے وقت ہی فوج کیوں یاد آتی ہے؟ یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ ایجی ٹیشن ملک کو انتہائی تیزی سے بے چینی کی جانب لے جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کو بھی کہنا پڑگیا کہ ''چین کی بانسری بجائی جارہی ہے جبکہ حالات نیند اڑانے والے ہیں‘‘ ۔ سٹیٹ بینک کی پورٹیں حکومت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں‘ لیکن ہمارے حکمران سٹاک ایکسچینج کے سٹے بازوںکی جانب سے شیئرز سرٹیفکیٹ کی خریدوفروخت کو معاشی استحکام سے تعبیرکرکے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور معاشی ماہرین اس پر ہنس رہے ہیں۔ وہ اسے ''جگالی معیشت‘‘کہتے ہیں۔ نئے کارخانے قائم نہیں ہورہے‘ سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے‘ فنانشل انسٹی ٹیوشن نہیں بن رہے‘ اسٹاک ایکسچینج میں قومی معیشت کو ناپنے کا سادہ طریقہ یہ ہے کہ ایک ماہ میں کتنی کمپنیوں نے نئے شیئرز فروخت کیلئے پیش کئے لیکن ہمارے ملک میں تو چار پانچ ماہ بعد کوئی ''بھولی بسری‘‘ کمپنی وجود میں آتی ہے۔ ان تمام چیزوں پر صلاح مشورے اور قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے وگرنہ نئے حکمران بھی اسی معاشی بحران کا شکاررہیںگے۔ جب کوئی گھر معاشی بحران کی زد میں آتا ہے تو اس کے برتن اور فرنیچر بیچ کر اُسے بچایا جاتا ہے۔
حکومت معاشی بحران کے بھنور میں پھنستی ہے تو موٹر وے اور ایئر پورٹ تک گروی رکھ دیتی ہے۔ خدا نہ کرے‘ وہ دن دوبارہ دیکھنے پڑیں کہ جب سندھ کے مسلمانوں کی زمینیں اور بیویاں ہندوئوں کے پاس گروی تھیں۔ پھر اس ظلم اور استحصال سے نجات کی خاطر سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے الگ کر کے نیا صوبہ بنانے کے لیے قائداعظم کی زیر قیادت تحریک چلی۔ پاکستان میں اس وقت صرف ایجی ٹیشن نہیں بلکہ آئینی اختیارات کی منصفانہ تقسیم کی خواہش بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔پاکستان کا آئین غریبوں کی مدد نہیں کررہا ۔تعلیم کی صورتحال ایسی ہے کہ ہرسکول اور کالج کے باہر ''تعلیم برائے فروخت‘‘ کے بورڈ آویزاں ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں آرٹس کے طالب علموںسے سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے فیس وصول کررہی ہیں۔ چالیس سال قبل یہی فیس سالانہ تین سے چار سو روپے تھی۔ اگر اسے کنٹرول نہیں کیا گیا تو ان پڑھ پاکستانیوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوگی‘ جو ہرفن کے ماہر ہونے کے باوجود عالمی مارکیٹ میں ایک نوکری بھی حاصل نہیں کرپائیں گے۔ صحت کا شعبہ بھی روزبروز نیچے جارہا ہے۔
ہسپتالوں کے میڈیکل سٹور چھوٹے اور مردہ خانے بڑے کئے جارہے ہیں؛ کیونکہ مردہ خانے میں ایک رات لاش رکھنے کا کرایہ ایک سے تین ہزار روپے ہے۔ اس ریٹ پر کسی مناسب ہوٹل میں کمرے کیساتھ ناشتہ بھی مل جاتا ہے۔
جس ملک میں سنگ میل یعنی فاصلے کی نشاندہی کرنے والے پتھر اکھاڑ لئے جائیں‘ نمازی کو مسجد میں آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہو‘ رات کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سونے نہ دے‘ صبح ہوتے ہی پانی کی فکرستائے‘ ٹرین کی پٹڑیاں تول کر فروخت کی جائیں‘ مہنگائی کمر توڑ دے‘ لوٹ مار کے واقعات معمول بن جائیں‘ سستے انصاف کیلئے مہنگا وکیل ملے‘ عورت کی بے توقیری عام ہو‘ حکمران بادشاہ بن جائیں اور عوام غلام‘ جمہوریت کے نام پر بیلٹ بکس بھرے جائیں۔ غریب سے قدم قدم پر ٹیکس لیا جائے لیکن اشرافیہ اِس سے مستثنیٰ ہو‘ ۔وہاں کئی پلان آئیں گے لیکن ڈی سے ڈیموکریسی کو خطرہ ضرور ہوگا کیونکہ کچھ باخبر حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پلان ڈی میں ہائی ویز‘ ایئر پورٹ‘ ڈرائی پورٹ اور ٹرین سروس بند کرنا بھی شامل ہے؛ جبکہ ''کچھ‘‘ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جاتی امرا کا گھیرائو بھی پلان ڈی کا حصہ ہوسکتا ہے۔ (نوٹ: یہ کالم عمران خان کی جانب سے 18دسمبر کی ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کے التوا سے قبل لکھاگیا تھا)۔