سندھ ایک بار پھر سیا سی کھینچا تانی کی زد میں آگیا ہے۔۔۔۔ ''بڑی لڑائی‘‘کی تیاری ہوری ہے۔۔۔۔''فائنل رائونڈ‘‘کی سیٹی بجنے والی ہے، لیکن شرجیل میمن کے بیانات سن کراندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو کوئی بڑاخطرہ نہیں، لیکن اُن کا چہرہ بتادیتا ہے کہ معاملات اتنے سادہ نہیں‘ جتنے بتائے جاتے ہیں۔ شرجیل میمن کی باتیں سن کر کبھی کبھار تو سلطنت روم کا پانچواں شہنشاہ نیرو یاد آجاتا ہے۔ سندھ میں تحریک عدم اعتماد کا پہلومیں دل کی طرح شور مچا، جوش اٹھا اور اب جھاگ نظر آرہی ہے۔۔۔۔نمبر گیم نے معاملہ کچھ عرصے کیلئے بگاڑدیا۔ مخدوم امین فہیم کی پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد کوئی گنجائش ہی نہ بچی تھی، لیکن سیاست کے ''سلطان‘‘ آصف زرداری سے سروری جماعت کے سربراہ اور پی پی پی پی کے ''مالک ‘‘کی ایک ایسی ملاقات ہوئی کہ بقول شاعر:
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
سندھ میں کھلبلی مچنا اب معمول بنتا جارہا ہے۔ عمران خان کے دھرنے کی طرح پرویز مشرف کی ملاقاتیں بھی مقبول ہوتی جارہی ہیں۔ ہر ملاقات اعجاز درانی (ترجمان بلاول ہائوس) سے آصف زرداری تک سب کو ہلادیتی ہے۔ ایک معاہدے کا تذکرہ ہونے لگتا ہے جو ابوظہبی میں پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو(مرحوم)کے درمیان ہوا، جس میں کہا گیا کہ پرویز مشرف ملک کے صدر بنیں گے۔۔۔۔۔امریکہ ‘برطانیہ ‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمران اس معاہدے کے ضامن ہیں۔ تیسری بار وزیر اعظم کی شرط کا خاتمہ تو نہ ہوا لیکن بینظیر بھٹونے فانی دنیا سے منہ موڑ لیا۔
جس عجلت میں بلاول کو چیئرمین بنایا گیا اتنی جلدی تو رشتہ بھی طے نہیں ہوتا، لیکن بلاول کو ''خامو ش سربراہ‘‘ بنانے کی جو کوشش کی گئی تھی اس میں ناکامی نے بلاول کو اپنے والد سمیت ملک سے بھی دور کردیا ہے۔ مرحوم پیر پگارا(سید مردان شاہ) نے بار بار کہا تھا: ''بلاول ہمارا ہے‘‘ ، وہ واحد سیاستدان تھے جو یہ کہتے تھے کہ ''تمام سیاستدان فوج کی پیداوار ہیں ، ہم یہ بات برملا کہتے ہیں، لیکن دوسرے اِسے چھپاتے ہیں‘‘ آج کی صورت حال میں ان کی کئی پیش گوئیاں سچ ثابت ہورہی ہیں ۔
تحریک عدم اعتماد پر اب لوگوں کو وہ اعتماد نہیں رہا جو ابتدا میں نظر آرہا تھا۔ سندھ حکومت کے لیے یہ سردیاں گرمیوں سے بھی زیادہ گرم ثابت ہوئی ہیں۔۔۔۔تھر کی قحط سالی ‘سانحہ شکارپور اورکراچی میں ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونے میں بھر پورمدد فراہم کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے میں ان کے اپنے لوگ ہی ملوث نظر آرہے ہیں۔ 6 ووٹوں کی اکثریت سے بننے والی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کرنے والے مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما شہریار مہرکا کہنا ہے کہ ہمیں پیپلز پارٹی کے 20 اراکین ِاسمبلی سندھ اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور جب بھی موقع ملا تلوار اور تیر کے نشان لے کر گھومنے والوں کو شکست دینا آسان ہوجائے گا۔
سندھ میں اگر تحریک ِعدم اعتمادناکام ہوگئی تو حملہ کرنے والے محمود غزنوی کی طرح دوبارہ تیاریاں کریں گے یا ہار مان لیں گے، اس کا فیصلہ تووقت کرے گااور اگر تحریک ِعدم اعتمادکہیں کامیابی سے ہمکنار ہوگئی تو سندھ ''لال آندھی‘‘کی لپیٹ میں آجائے گا۔۔۔۔ سیاسی ناکامیوں کے الزامات کی بارش میں بہت کچھ بہہ جائے گا بلکہ نئی حکومت کرپشن کے مقدمات قائم کرکے پیپلزپارٹی کے کئی مرغوں کو ''قابو‘‘کر لے گی۔کئی ''انڈہ‘‘ دے کر جان چھڑائیں گے جبکہ باقی ''ذبح‘‘کیے جاسکتے ہیں۔ آج کل یہ سوالات بھی زیر بحث ہیں کہ اگر سندھ میں اتحادی حکومت بن جاتی ہے تو وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ کہیںپرویز مشرف تو وزیراعلیٰ کا ''قرعہ‘‘ تو نہیں نکالیں گے؟ ان کے پرانے دوست مخدوم امین فہیم کا کیا کردار ہوگا؟ تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کی صورت میں مخدوم امین کے بیٹے کو وزارت اعلیٰ کا ''انعام‘‘ملے گا یا پھر یہ فیصلہ ''کوئی اور‘‘ کہیں اور کسی اور طریقے سے طے کرے گا؟ نمبر گیم اور سیاسی صورت حال کے مطابق ابھی تک تو پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہے۔ کیا یہ ایسے ہی رہے گا یا پھر مستقبل قریب میں ''وکٹیں‘‘ دھڑا دھڑ گرنا شروع ہوجائیں گی؟اس سوال کا جواب بھی وقت ہی دے گا۔
کراچی کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت متحدہ قومی موومنٹ کے وفاقی کابینہ میں جانے کے اشارے مل رہے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو اس کے اثرات بھی سندھ کی تحریک عدم اعتماد پر پڑسکتے ہیں۔ حال ہی میں قائد ایم کیو ایم الطاف حسین کی پارٹی قیادت سے علیحدگی کی جوخبریں سامنے آئی تھیں تو یہ کہا گیا تھا کہ الطاف حسین کو کچھ لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ'' اپنی پارٹی کی قیادت چھوڑکر پرویز مشرف کے حوالے کریں اورکچھ عرصہ آرام کریں‘‘ لیکن الطاف حسین کی پارٹی سے علیحدگی کو ایم کیو ایم کے کارکنان نے مسترد کردیا اور جو بات اندرونِ خانہ تھی وہ سرِمحفل انکار کی سولی پر لٹک گئی۔
یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی ابھی مضبوطی کے ساتھ سندھ اسمبلی میں کھڑی ہے، لیکن پیپلز پارٹی کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی حکومتی تحفظ اور وزارتی چھتری اوپر سے ہٹے گی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی لائن لگ جائے گی۔۔۔۔ دروازے کھل جائیں گے، ارکان اسمبلی جوق در جوق جا رہے ہوں گے۔ سندھ میں وفاداری اقتدار کے ساتھ وابستہ رہی ہے، ملک کے باقی حصوں کا بھی حال ایسا ہی ہے لیکن سندھ کو اس ''سبجیکٹ‘‘ میں ''سنیارٹی‘‘ حاصل ہے، یہاں سوچا نہیں جاتا صرف دوڑ لگادی جاتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ سندھ کی تحریک ِعدم اعتمادمیں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتی، ان کا خیال ہے کہ ''کوئی آئے یا جائے ہمیں فرق نہیں پڑتا‘‘۔ اسٹیبلشمنٹ''ضرب عضب‘‘کے بعد قومی سطح پر دوسرے بڑے ''آپریشن‘‘ فوجی عدالتوں کا آغاز کرنے اور دہشت گردوں کو قانونی راستے سے صفایا کرنے میں مصروف ہے۔ وہ'' سیاسی گند‘‘کی طرف دیکھنے اور اسے سونگھنے کے بجائے محلے کے بزرگ کی طرح ناک پر رومال رکھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ ان حالات نے بہت سارے ''پہلوانوں ‘‘ کو ''نانبائی ‘‘ بنادیا ہے اور ''من و سلویٰ‘‘کا انتظار کرنے والے ''پکی پکائی‘‘روٹی کے ''شوقین ‘‘ خود روٹی پکانے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں سیاستدانوں کے لیے یہ مرحلہ آ گیا ہے کہ ''خود کنواں کھودواور پانی پیو‘‘ ، یہ حالات پیپلز پارٹی کے لیے اچھے اور اپوزیشن کے لیے ''محنت طلب‘‘ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو ''مسلز‘‘ دکھا کر مسئلہ حل کرنے کی اپنی اپنی کوشش کررہے ہیں۔ زبانی بیان بازی کا طویل ترین مقابلہ تو جاری ہے لیکن کوئی بڑی پارلیمانی ''ہِل جُل‘‘نظروں سے کوسوں دور ہے اور دونوں فریق اپنے اپنے ''کام‘‘میں مصروف ہیں۔
سندھ میں تحریکِ عدم اعتماد کی خواہش اورکوشش اتنا آسان کھیل نہیں ہے، اس میں ندی ‘ نالے‘ پہاڑ‘ گھاٹیاں اور منہ پھاڑے مگر مچھ راستے کی رکاوٹیں ہیں جس میں نواز شریف کا ایم کیو ایم کے کارکن کی تعزیت کے لیے کراچی آنا اور آصف زرداری کا اپنے بااعتماد ساتھی رحمن ملک کو لندن بھیجنا چیخ چیخ کربتاتا ہے کہ کچھ چیزوں کو روکنا بہت ضروری ہے۔ بیشتر باخبر حلقوں کا خیال یہ بھی ہے کہ اندرونِ خانہ کچھ نہ کچھ ضرور ہورہا ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کو روکنے والے کامیاب ہوتے ہیں یا کچھ کر گزرنے والے صوبائی حکومت کی قبر پرفتح کا جشن مناتے ہیں۔