کراچی کی گرما گرم سیاسی فضا میں الطاف حسین کی جانب سے ''آئی ایم سوری‘‘ کہنے کے بعد صورت حال یکسرتبدیل ہوگئی۔۔۔۔۔۔ ایم کیوایم اورتحریک انصاف کے درمیان جس ''پانی پت‘‘ کی لڑائی کا خطرہ منڈ لارہاتھا وہ ٹل گیا۔۔۔۔۔۔ لڑائی کے لئے دونوں طرف کے کارکنوں کی افواج اسی طرح صف آراء تھیں کہ کراچی سے لے کر پشاورتک فضا بحال ہونے میں دوتین دن لگیں گے‘ پھرسب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اورلوگ بھی بھول بھال جائیں گے کہ ہم کبھی لڑے بھی تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عوام کا حافظہ کمزور ہو تاہے لیکن بعض لوگ اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں‘ اوران کا یہ فرماناہے کہ عوام کاحافظہ ہوتا ہی نہیں۔ کچھ لوگ اسے بچوں کی لڑائی قرار دیتے ہیں جس کی ''عمر‘‘ کھلونے چھیننے سے شروع ہوتی ہے اور یونیفارم پرسیاہی پھینکے کے بعد ختم ہوجاتی ہے ۔
سیاسی فضا کے ''کمپیوٹر‘‘میں ''غیر سیاسی وائرس‘‘ گھس آیاتھا اور وہ ماردیاگیا۔ اب پھرسیاست کی باتیں ہورہی ہیں۔ تحریکِ عدمِ اعتماد کا خطرہ تقریباً ٹل گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کوایک بارپھر موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں اور میڈیا کی شکایات دور کرلے اور دہشت گردی کے خاتمے کے ''اہم مشن ‘‘ پر اپنی بھرپور توجہ دے۔ اب سندھ حکومت کو ایم کیوایم کے وزراء کا بھی ساتھ مل گیاہے۔ ایم کیوایم کا حکومت میں آنا کراچی کی کچی آبادیوں میں چھپے ہوئے جتھہ بند دہشت گردوں کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ کراچی کی ایک تہائی آبادی تنگ گلیوں‘ ندی ‘نالوں‘پہاڑیوں اورڈھلوانوں پرقائم کچی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ ان کچی آبادیوں کی تنگ اورتاریک گلیوں میں پولیس کا جانا مشکل ہے‘ اس لئے مقامی سطح کی معلومات اور کراچی کی مقامی قیادت کا ساتھ ہونا انتہائی ناگزیر ہے۔
ایک طرف کراچی میں دونوں حریف جماعتوں ایم کیوایم اورتحریک انصاف کے درمیان لڑائی اسٹارٹ ہونے کے دن ہی سیز فائرہوگیا‘ تو دوسری جانب تحریک عدم اعتماد کی خبریں منظر سے غائب ہوگئیں اورتحریکِ عدم اعتماد کے سرخیل سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم ''تھکن ‘‘ اتارنے شارجہ چلے گئے‘ جہاں انہوں نے اپنی ''جلاوطنی‘‘ کے دنوں کے دوستوں کے ساتھ کھانے کی محفل سجائی اور شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ''اگر اسٹیبلشمنٹ ہمارا ساتھ دے دیتی تو'' جلا وطنی‘‘ کا ایکشن ری پلے دیکھنے شارجہ نہ آنا پڑتا ۔‘‘ انہوں نے دبے لفظوں میں کہا کہ ''ایم کیوایم کے غازی صلاح الدین بھی رابطے میں تھے لیکن اچانک آصف زرداری اور الطاف حسین کے درمیان ایسی کیابات ہوئی کہ ہماری لائن ہی کٹ گئی ۔‘‘ وہ مایوس تونہیں تھے لیکن امیدافزاء باتیں ان کے قریب سے بھی نہیں گزررہی تھیں‘ اوراگلے پلان کے بارے میں وہ چپ تھے کہ اب کیا کریں؟اس دوران ہی سینیٹ انتخابات کی گرما گرمی اب پی پی رہنمائوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ مخدوم امین فہیم ایک بار پھر نارا ض ہونے والے ہیں تو خورشید شاہ اور رحمن ملک کے تعلقات بھی اسٹاک مارکیٹ کی طرح کشیدگی کی بلند ترین سطح پر پہنچ رہے ہیں۔ اب اس نئی صورتحال کے اثرات تحریک ِعدم اعتمادکے مردہ گھوڑے میں جان ڈالتے ہیں یا نہیں‘ سینیٹ الیکشن سے قبل ہی یہ رازفاش ہوجائیں گے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم میرظفر اﷲ جمالی نے کراچی کے تاجروں کویہ کہہ کرڈرادیا کہ ''پاکستان ٹوٹنے کے قریب پہنچ گیا ہے‘ اس لئے فوج ٹیک اوور کرلے اورملک کوبچانے کے لئے اپنی طاقت وصلاحیت کو استعمال کرے‘‘ ان کے بیان کا اثراتنا ہواکہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے بھی کہاکہ ''حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ مارشل لاء لگانے میں کوئی قباحت نہیں۔‘‘یہی بات سراج قاسم تیلی نے کھل کرکہی کہ ''کراچی کے تاجر فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ لیکن فوج کہاں دیکھ رہی ہے؟ کس چیز کا انتظار کررہی ہے؟ یہ سوال مارشل لاء سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
جب 1973ء کا آئین بناتھا تواُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اسلام آباد میںآئینی مسودے کے ساتھ ایک جلوس کی قیادت کی تھی اور کہا تھاکہ ''یہ آئین پاکستان کومضبوط اورمستحکم رکھے گا اورہم نے مارشل لاء کواٹھاکر بحیرہ عرب میں پھینک دیا ہے ‘‘لیکن سب نے دیکھا کہ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹونے اس آئین میں ترمیمات کیں اورجمہوری آئین آمرانہ آئین میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ صوبہ سرحدکی حکومت (موجودہ کے پی کے)اِسی آئین کے تحت ختم کی گئی۔ بلوچستان کے اندر توپیں آگ اگلنے لگیں۔ بندوقیں انسانی زندگیوں کے چراغ گل کرنے لگیں۔ گولیاں آئین کا ہی سینہ چھلنی کرنے لگیں‘ لیکن آئین میں ترمیمات کا سلسلہ رک نہ سکا اور ایک وقت آیا جب پاکستان کوبچانے والا آئین خود پاکستان کے ''آدم خور سیاستدانوں‘‘ کے خونخوارپنجوں سے نہ بچ سکا اور آئین کا چہرہ ایسا بنادیا گیا کہ عام شہری کو بھی آئین سے ڈرلگنے لگا۔ ملک کی حفاظت کرنے کیلئے بنایا جانے والا آئین ''ڈاکو سیاستدانوں ‘‘ کی حفاظت کی دستاویز بن گیا۔ اب آئین میں شاید ہی کوئی ایسی شق بچی ہو جس میں عوام کے تحفظ کاذکرملے۔ آئین میں لکھا ہواہے کہ ''کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنے گا ‘‘لیکن آج بھی سودی کاروبار کرنے والے بینکوں‘ انشورنس کمپنیوں اورمضاربہ کمپنیوں کولائسنس باآسانی مل جاتا ہے اوراسلامی شریعت کورٹ کی مجال نہیں کہ اِن معاملات میں پربھی مارسکیں۔ آئین میں لکھا ہواہے کہ ''حاکمیت اﷲ کی ہوگی اور حکمران عوام ہوں گے‘‘ بھارت کے شہرنئی دہلی میں توعام آدمی پارٹی کی حکومت آگئی لیکن پاکستان کے عوام کوچندگھڑسوار پولیس والے حکمرانوںکی گاڑیوں کے قریب بھی نہیں جانے دیتے۔ اس ملک میں ایک مذاق یہ بھی ہے کہ 1973ء کے آئین کو پاکستان کی سلامتی اور وفاق کے اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ آئین اپنے خالق ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی پھانسی سے نہیں بچا سکا‘ وفاق کو کیسے بچائے گا؟۔
پاکستان کے دانشوروں میں اگرہمت اورشعور ہے توانہیں چاہئے کہ وہ عام آدمی پارٹی کی کامیابی پر سیمینار منعقد کریں‘ ریسرچ کریںاوریہ بتائیں کہ اسلام آباد سے آدھے گھنٹے کے فضائی سفراور لاہور سے صرف 22منٹ کے فاصلے پر دہلی میں اتنابڑا انقلاب آگیا لیکن ہمارے یہاں اِس کے اثرات تو کیا‘ خبریں بھی ٹھیک طرح سے نہ پہنچ سکیں؛ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اگرکوئٹہ میں برفباری ہو تو کراچی میں سردی بڑھ جاتی ہے‘ لیکن ایسا انقلاب جس نے مودی سرکار کو ہلاکر رکھ دیا وہ پاکستان کی سرحدوں کو بھی نہ چھوسکا‘ اندر کیا خاک آتا۔ پاکستانی میڈیا کوبھی شاباش ہے کہ اُس نے اتنے بڑے انقلاب کو اپنے کسی مستند نمائندے سے کوریج کرانے کی زحمت گوارا کی‘ نہ اس کوقریب سے دیکھا اورنہ ہی اُس کے اثرات پاکستان پہنچے۔ ویسے پاکستانی میڈیا کے بارے میں ایک دانشور نے خوب کہاہے کہ ''جہاں خبروں میں تڑکہ لگانے کیلئے گانے بجائے جائیں اور اشتہارات میں کشش پیدا
کرنے کیلئے مشہور گانوں کی ابتدائی سطریں سنائی جاتی ہوں‘ وہاں بھانڈہی پیدا ہوں گے‘ اروند کِجری وال جیسے لیڈر نہیں جن کا انتخابی نشان ہی جھاڑو ہے اورہمارے حکمران ایسی جھاڑو سے قومی خزانہ صاف کرتے ہیں‘ معاشرے کا گند نہیں‘‘۔
کراچی سے مارشل لاء کا جو وائرس پھیل رہا ہے یا پھیلا یاجارہاہے‘ یہ مریض کے کراہنے کی آواز ہے یا علاج کا مطالبہ؟۔۔۔۔۔۔ کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ محمدبن قاسم کی طرح عوامی چیخ پکار کے مداوے کے لئے آئے گی یا پاکستان کے ''آدم خور سیاست کاروں‘‘ کے شکاری پنجوں میں پھنسے عوام جالب کا یہ شعر گنگناتے رہیں گے ؎
تو کہ ناواقف آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
کرپشن اورلوٹ مار ملک کے جسم میں ''رسولی‘‘ کی طرح پھل پھول رہا ہے اور اس کا علاج صرف آپریشن ہے ورنہ مریض نہیں بچے گا۔ اگرکسی کویقین نہ ہوتو وہ پاکستان کے سابق حکمران کے سب سے قریبی دوست ذوالفقا رمرزا کا حالیہ انٹرویو پڑھ لیں جس میں انہوں نے بلاول اور آصف زرداری کے اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ''بلاول پیپلز پارٹی کو اپنی والدہ بینظیر شہید کی طرح چلانا چاہتے تھے جو مفاد پرستوں کو گوارا نہ ہوا۔ پی پی وزراء شہید بینظیر کے نام پر لاکھوں روپے کے عوض نوکریاں فروخت کرکے ان کے خون سے غداری کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ شہید محترمہ کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں کے پاس شہیدکے مقدمے کی پیروی کا وقت بھی نہیں‘‘۔
اسٹیبلشمنٹ کراچی کی دردبھری چیخ نہیں سنتی‘ چاہے وہ درد بھری چیخ نہ سنے لیکن ملک کی آواز توسنے۔ کراچی تو ویسے ہی صوبائی اوروفاقی حکومتوں کے کسی پلان میں کہیں بھی شامل ہی نہیں‘ اِسے توپاکستان کے نقشے سے ہی باہر نکال دیا گیاہے‘ ایسا لگتا ہے کہ کراچی افریقہ کے کسی گمنام ملک کا نام ہے۔