"ISC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کا اخباری ایڈیٹروں کے ’’جلسہ عام‘‘ میں وعظ۔۔۔!

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے دو سال تک حکمرانی کے ''مزید تجربات‘‘ سمیٹنے کے بعد بالآخر اخباری ایڈیٹروںکا''جلسہ عام‘‘ بلالیا۔ ڈیڑھ سوکے قریب مدیران کو دیکھ کر میاں نواز شریف کو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ان ایڈیٹروں کی اکثریت موجودہ حکومت کی اشتہاری پالیسی کی ''ڈسی ‘‘ہوئی تھی۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ اگرکسی اخبارکا''چال چلن‘‘ حکومت کے لیے اچھا ہو، وہ تصویر کے دونوں رخ دکھارہا ہوتو حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ اُسے بھی انعام و اِکرام سے نوازے، لیکن دوسروںکا حق مارکر صرف چند اخبارات کو''ہاتھی ‘‘ نہ بنایا جائے۔۔۔۔ ایسے اخبارات کہیں وزارت اطلاعات کو'' سفید ہاتھی‘‘ نہ بنادیں۔ ماضی ، مستقبل کی ہمیشہ گواہی دیتا ہے اور وزیر اعظم صاحب بھی ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل خود طے کرسکتے ہیں۔ اشتہارات کا کوئی تو میرٹ ہونا چاہیے۔ رائے عامہ بنانے والے اخبارات بھی اگر اشتہارات کے ''ٹانِک‘‘سے محروم ہوں تو وہ ایسی حکومت کی کیا تعریف کریں گے جس کی ناانصافی کے وہ خود شکارہورہے ہوں۔
ایڈیٹروں کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ بھکاریوں کی طرح اشتہارات مانگ نہیں سکتے۔ ہمارے ملک میں تو ایسے موٹے پیٹ والے اخبارات بھی ہیں جو منہ تک اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن ان کے پیٹ نہیں بھرتے۔۔۔۔ اُن کی بھوک ختم نہیں ہوتی۔ یہ میڈیا گروپ حکومت کو وہ تراکیب بتاتے ہیں کہ اخبارات سِسک سِسک کر مرنے کے بجائے ایک جھٹکے میں معاشی موت مرجائیں۔ کینیڈا کی حکومت اردو ہفت روزہ اخبار نکالنے والے 'کمیونٹی اخبارات‘ کو بھی پانچ لاکھ روپے کی امداد دیتی ہے۔ غالب کے عالی شان اشعار بہادر شاہ ظفر اور انگریز حکومت کے وظیفے کے مرہون منت ''زندہ‘‘ رہنے میں کامیاب رہے۔ اہلِ علم، اہلِ عقل اور اہلِ اخبار حکومتی معاونت پر پلتے ہیں۔ سرکاری وظائف علم و دانش کی دنیا کے لیے آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں کتابوں سے دوستی ختم ہورہی ہے، ''چیک بک‘‘کے سوا کوئی اور بُک کسی کو پسند ہی نہیں۔کتب بینی کے خاتمے میں اتنا کردار انٹرنیٹ کا نہیں جتنا حکومت کا ہے۔ لائبریریز تباہ ہوگئیں۔ جتنی بڑی تعداد میں اہم ‘قیمتی اور ضخیم کتابیں اتوار بازاروں میں دستیاب ہیں انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے لوگوں نے اپنے کمروںکو اس نعمت سے خالی کرنا شروع کردیا ہے۔
معروف دانشور نوم چومسکی نے ایک انٹرویومیں کہا تھا : ''میں پاکستان میں ایک اور بھارت میں تین ہفتے رہا اورمیں محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان میں میڈیا بھارت کی نسبت زیادہ آزاد ہے‘‘۔ لیکن ایسے ''آزاد‘‘ میڈیا کے لیے ایسی ''آزاد وزارت ِاطلاعات‘‘ کہاں سے لائیں جو منصف نہ سہی اخبارات کے لیے کم از کم وکیل کا کام تو کرسکے۔
ایڈیٹروںکے جلسۂ عام میں میاں نوازشریف نے وہ کام بھی کر ڈالا جو اس سے پہلے ساٹھ برسوں میں کسی حکمران نے نہیں کیا۔۔۔۔ وزیراعظم نے ایڈیٹروں کی تنظیم سی پی این ای کو ایک ادارہ بنانے کے لیے پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ دینے کا اعلان کیا۔ ایڈیٹروں کا پاکستانی معاشرے اور خاص طور پر سیاست میں اس قدر تعمیری کردارہے کہ کوئی حکمران اور پارٹی پاکستانی صحافت اور خصوصاً ایڈیٹروں کا قرضہ اتار ہی نہیں سکتی۔ خود میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ پریس کا ہمارے معاشرے اور جمہوریت کے فروغ میں بڑا کردار ہے، خود مجھے اپنی تحریک اور جدوجہد کے دنوں میں اس کا تجربہ ہے لیکن اس کے باوجود وزیراعظم ایڈیٹروںکو چندگز کے فاصلے پر دیدار کرانے میں دو سال لگا بیٹھے؛ حالانکہ اِس سے قبل وہ جب بھی حکومت میں آئے، اُن کی حکومتی سرگرمیوں کا آغاز ایڈیٹروں سے بریفنگ سے ہوتا تھا۔ اِس بار ایڈیٹروں سے ملاقات اور بریفنگ کو اہمیت نہیں دی گئی بلکہ ایڈیٹروں سے ''Avoid‘‘ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔۔۔۔کوئی نہیں جانتا کہ اِس پالیسی سے حکومت کو فائدہ ہوا یا نقصان؟
سی پی این ای کے اِس اچانک برپا ہونے والے ''جلسہ عام‘‘کی خوبی یہ تھی کہ اسٹیج پر سی پی این ای کے صدر مجیب الرحمن شامی‘سیکرٹری جنرل عبدالجبار خٹک اور اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون براجمان تھے جو اخباری ایڈیٹروں کے لیے جانے پہچانے چہرے تھے جبکہ باقی پورا اسٹیج سرکاری افسران ‘ وزراء اور مشیران کے ''وزن‘‘ سے بھرپور تھا اور اِن ''بھاری بھرکم‘‘ لوگوں نے وزیر اعظم کو ایسے گھیرا ہوا تھاکہ اخباری ایڈیٹروں کے لیے وزیر اعظم کی قربت حاصل کرنا آسان کام نہ تھا۔ جب میاںنواز شریف اسٹیج پر تشریف لائے تو وہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نہیں بلکہ وزیر اعظم بھی تھے، وہ سب کے وزیراعظم تھے، انہیں چاہیے تھا کہ تمام ایڈیٹروں سے گھل مل جاتے۔ جن اخبارات نے حکومت پرکڑی تنقیدکی ہو‘ اُن سے جواب طلبی کرتے اور جس نے حکومت کا تعمیری ساتھ دیا اس کی تعریف بھی کرتے۔ حکمران، لوگوں کے دلوں پر دستک دیتے ہیں، ہوا کے جھونکے کی طرح گزرنا بڑے لیڈرکی شان نہیں۔ وزیر اطلاعات کو بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایڈیٹروں سے قریب سے قریب تر ہونا چاہیے تھاکیونکہ اس تقریب میں اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی اور مزید بھی ہوسکتی تھی۔ وزیر اعظم نے تو کہہ دیا کہ ریٹنگ کو بھول جائیں یعنی 2 سال تک کاروبار نہ کریں۔ یہ بالکل درست ہے، حالات اتنے مخدوش ہیں کہ اخبارات اور خاص طور پر ٹی وی چینلزکو سنسنی پھیلانے سے بچنا چاہیے۔ یہ مفت کا مشورہ تو بہت اچھا ہے لیکن یہ مشورہ ''مفت‘‘ نہیں ہونا چاہیے تھا، وزیر اعظم یہ اعلان کرتے کہ بجلی کے بل کے ساتھ جو ٹی وی فیس وصول کی جاتی ہے‘ اُسے سرکاری ٹی وی سمیت پرائیویٹ ٹی وی چینلز میں تقسیم کیا جائے گا۔ اگر میڈیا کاروبار نہ کرے تو ملازمین کی تنخواہیں ‘ بھاری بھرکم بجلی کے بل اور ٹیکسز کہاں سے دئیے جائیں گے۔ فاقہ کشی کا مشورہ دینے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ٹی وی فیس کے نام پر آنے والا پیسہ سرکاری ٹی وی کے خزانے میں کیوں جارہا ہے؛ حالانکہ اس کی ریٹنگ روز بروزکم ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔ یہ رقم تو تمام ٹی وی چینلز میں مساوی تقسیم ہونی چاہیے۔ اسی طرح اخبارات میںحلق تک اشتہارات بھرنے سے حکومت کو استحکام نہیں ملتا؛ بلکہ اُن اخبارات کی جگہ (اسپیس) کم ہونے کے باعث ''کام ‘‘ کی خبریں ٹیبل پر ہی دم توڑ جاتی ہیں جس سے حکومتی خبروںکو بھی جگہ نہ ملنے کا نقصان ہوتا ہے۔
ایڈیٹروں سے گفتگوکا لہجہ موچی گیٹ والی تقریر سے الگ ہونا چاہیے ۔ اخباری ایڈیٹرز سیاست کی گاڑی کے لیے پٹڑی کا کا م دیتے ہیں ۔ وزیر اعظم اس تقریب میں ''کچھ ہم سے کہا ہوتا‘ کچھ ہم سے سنا ہوتا ‘‘کی پالیسی اپناتے، پلاننگ سوچ سمجھ کر کی جاتی ہے، دنیا کے تمام حکمران عجیب و غریب اعلانات کرتے ہیں، اپنی خواہشات بتاتے ہیں، حکم بھی صادر کرتے ہیں ، لیکن اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل پر بات نہیں کرتے۔ چیئرمین مائوزے تنگ کے زمانے میں کسی نے حکومت کویہ ''گدڑسنگھی‘‘ لاکر دی کہ چین کی اربوں چڑیاں (Sparrows) کروڑوں من اجناس کھا جاتی ہیں اس لیے ان کا قلع قمع ہونا چاہیے۔ پوری قوم کو چڑیاں مارنے کی مہم پر لگادیا گیا، پاکستانی اسٹائل میںاخبارات میں اشتہاری ضمیمے شائع ہوئے، حکومت نے پیسہ پانی کی طرح بہایا، کئی اخبارات مالا مال ہوگئے، لیکن 6 ماہ بعد چین کی پوری حکومت ہل کر رہ گئی، جب یہ اعدادو شمار سامنے آئے کہ آدھی فصل '' زمینی کیڑوں ‘‘ نے تباہ کردی ہے کیونکہ صبح سویرے یہ چڑیوں کے لشکر کھیتوں میں اتر کر اِن زمینی کیڑوں کو کھاجاتے تھے اور چینی حکومت نے اِن کیڑوں کے راستے کی رکاوٹ یعنی چڑیوں کو خود ہی ختم کردیا ہے اور زمینی کیڑے کھیت ''چُگ‘‘ گئے ہیں۔ اس لیے مطالبات بھی سوچ سمجھ کر ہونے چاہئیں، کسی بھی ملک کا حکمران اس ملک کا باپ اور سرپرست ہوتا ہے، حکومت درخواست نہ کرے، حکم دے اور بتائے کہ آپ کے ان کاموں سے ملک کے یہ نقصانات ہوئے ہیں، لہٰذا آپ یہ کام نہ کریں، آپ کے معاشی ‘مالی اور سماجی نقصانات کا ازالہ ہم اس طرح کریں گے۔ اس کے لیے کوئی لائحہ عمل اپنالیا جائے تو مجیب الرحمن شامی اور عبدالجبار خٹک وہ کامیابی حاصل کرلیں گے جس کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال موجود ہو۔
(مضمون نگار سی پی این ای ''کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز‘‘ کے سینئر نائب صدر ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں