"ISC" (space) message & send to 7575

گورنر سندھ کا’’حال‘‘ اور مستقبل…!!

سندھ میں گورنر کے جانے کی خبریں جتنی بار آئیں اس سے زیادہ تردیدیں آچکی ہیں۔گورنر کو ہٹایا جانا ''شیر آیا‘شیر آیا‘‘کی کہانی بن گیا ہے۔اب اگر گورنر واقعی چلا گیا تو کوئی یقین نہیں کرے گا۔غالب نے کہا تھا ؎
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے
صبح گیا یا شام گیا
لگتا ہے غالب الہامی شاعر تھا اور اُسے معلوم تھا کہ سندھ کی سیاست کی پُر پیچ گلیوں میں اُس کی شاعری راستہ دکھانے کا کام دے گی۔ گورنر کی رخصتی کے حالات اس موڑ پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ کئی بارخود ہی کہہ چکے ہیں کہ ''ابھی استعفیٰ دینے کا موڈ نہیں‘‘۔
گورنر سندھ کے ہٹائے جانے کی خبرکی دلچسپ خوبی یہ ہے کہ آج تک کوئی اخبار اور ٹی وی چینل والا یہ نہیں جانتا کہ یہ خبر ''بریک‘‘کہاں سے ہوتی ہے اور تردیدکی صورت میں ''فیل‘‘کہاں ہوجاتی ہے۔ گورنرڈاکٹر عشرت العباد قسمت کے دھنی ہیں اور پاکستان میں طویل ترین گورنررہنے کا ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔وفاقی حکومت کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ گورنر تبدیل نہیں کرپارہی۔ بیشترواقفان ِ حال کا یہ کہنا ہے کہ اتنے ''ایڈجسٹ ایبل ‘‘گورنر کو ہٹانے کی غلطی کی گئی تومعاملہ مزید خراب ہوسکتا ہے ؛چونکہ باربار یہ کہا جارہا ہے کہ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف ہے اورآپریشن کے پیچھے بااختیار قوتوں کوایم کیوایم کی سیاست سے کوئی اختلاف نہیں ۔ایسی صورت حال میں گورنر کے ہٹائے جانے کا جواز نہیں بنتا‘ اس لئے کہ گورنر دہشت گرد نہیں ہے۔ پہلے انہیں دہشت گرد ''ڈکلیئر‘‘ کرنا پڑے گا پھرثابت بھی کرنا ہوگا‘ جس کے بعد نکالنے کا مرحلہ آئے گا۔ گورنرسندھ 12 سال سے اِس منصب جلیلہ پرفائز ہیں۔ تین صدور اور نصف درجن وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے والا ڈاکٹر عشرت العباد عام گورنر نہیں ہے ۔فوجی حکومت سے لے کر لولی لنگڑی جمہوریت تک کے طویل سفرکے حالات وواقعات کا چشم دید گواہ بھی ہے ۔یہ چلتا پھرتا گورنربھی نہیں ہے کیونکہ اِس کی پشت پر مولانا فضل الرحمن سے چارگنازیادہ پارلیمانی اورسیاسی قوت موجود ہے۔اس صورت میں گورنر کو کئی تناظر میں دیکھنا پڑتا ہے ۔ابھی کچھ دن اور گزرے اورآپریشن نے اپنا ''اینگل‘‘ تبدیل کیا اوراِس کا رُخ بلاول ہائوس کی دیواروں کی طرف گیا توسندھ کی بیوروکریسی کوکنٹرول کرنے کے لئے‘ اسلام آباد کو گورنر عشرت العباد کی ضرورت پڑے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہیں سے گورنر کی وفاداری کاامتحان بھی شروع ہوجائے گا۔
مغرب کے کسی دانشور نے کہا تھا کہ ''سیاست میںکوئی بات حرف آخرنہیں‘‘۔ یہ بات اکثر ناقابل فہم رہی لیکن گورنر سندھ کی تبدیلی کے معاملے میں اِس فارمولے کا مطلب صاف سمجھ آتا ہے۔
گورنر سندھ میں سیاسی طاقت کی علامت ہیں۔1972ء کے لسانی فسادات کے بعداُس وقت کے صدرذوالفقار علی بھٹو نے ایک معاہدے کے تحت سندھ کو''دولسانی صوبہ‘‘ تسلیم کیا تھا۔یہ عہدبھی کیاگیا کہ وزیراعلیٰ سندھی ہوگا توگورنر اردو سپیکنگ‘ لیکن اِس معاہدے میں بھی ڈنڈی ماری گئی۔ اسلام آباد نے صورتحال کا بغورجائزہ لیا‘ اب سندھ میں خالص سند ھی حکومت قائم ہے اوراگر اردو سپیکنگ گورنر کوہٹادیاگیا توسندھ 1971ء کا مشرقی پاکستان بن جائے گا جہاں منتخب پارٹی کے بجائے ڈاکٹر عبدالمالک کوگورنر بنایاگیا جسے عالمی میڈیا تک نے ''بے چارا‘‘ قرا ردیا‘ اُس کا حکم گورنر ہائوس میں ہی نہیں چلتا تھا ڈھاکہ کا کنٹرول تو دور کی بات تھی۔وفاق نے گورنر عشرت العباد کے معاملے میں عجلت نہیں دکھائی‘ سوچ بچا رکوترجیح دی۔ لگتاہے کہ 2 سالہ مدت کا آپریشن اپنی میعاد پوری کرے گا اور سندھ کے گورنر کوہٹانے یا فیصلہ واپس لینے کی سوچ بچار جاری رہے گی ۔
گورنر سندھ کی تبدیلی کی لہر کراچی سے زیادہ لاہور اور اسلام آباد میں چلی‘ ملاقاتیں ہوئیں‘ انٹرویوز ہوئے‘ شیروانیاں بھی سِل گئیں‘ روزانہ ایک دو نام سامنے آنے لگے‘ کوئی سندھی ہونے کی وجہ سے ''ریجیکٹ‘‘ ہوا تو کوئی اسٹیبلشمنٹ کی ''گڈبُک‘‘ میں شامل نہ تھا۔ اخبارات کی شہ سرخیاں اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنزبھی یہیں سے شروع ہو کر یہیں ختم ہوجاتی تھیں‘ لیکن اچانک اِن اہم خبروں کا ''سٹاک‘‘ ختم ہوگیا۔ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے امیدوار پنچھی واپس اپنے گھونسلوں میں آگئے۔ بیشتر ایسے بھی تھے جنہوں نے بے اختیار گورنر ی کو کانٹوں کی سیج قرار دے دیا جس پر ایک دانشورنے یہ بھی کہا کہ ''شایدانگور کھٹے ہیں‘‘۔
سندھ کے گورنر کوہٹانے کی آرزو ہراُس تانگہ پارٹی کی آرزو ہے جونائن زیرو کی سیاست کونیست ونابود کرناچاہتی ہے۔ الطاف حسین کوسیاسی شکست دینے کی کوشش میں ناکام ہوجانے والے سیاستدانوں کی یہ خواہش ہے کہ کم ازکم گورنر کو ہٹا کر کلیجہ ہی ٹھنڈا کرلیاجائے‘ یہ دراصل اپنی شکست کے داغ مٹانے کی کوشش ہے اوریہ پاکستانی سیاست میں ''رائج‘‘ ہے۔ پاکستان کے بدقسمت سیاستدانوں نے عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر اورپاکستان کی معیشت کی شہ رگ کوایک گورنر کی برطرفی اورتبدیلی سے جوڑدیاہے۔ اسی طرح عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری نے بھی نواز شریف سے اقتدار چھیننے کی کوشش میں ناکامی کے بعد فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اکسایا تھا۔ ماضی میں بینظیر بھٹو کے خلاف بھی اتنی ترغیبات کا جال بناگیا کہ بالآخر وہ اُن کے پھندوں میں پھنس گئیں‘ اب بھی یہی لوگ‘ یہی چہرے اوریہی چالیں ہیں‘ لیکن اسٹیبلشمنٹ نہ صرف سوچ سمجھ کر چل رہی ہے بلکہ پھونک پھونک کرقدم اٹھارہی ہے۔ سندھ میں گورنر ہٹانے سے اـگر تبدیلی آرہی ہوتی تووفاق اس پرضرور غورکرتا لیکن محسوس ہوتاہے کہ وفاق اورخاص طورپر نواز شریف کا اس معاملے میں سٹائل بالکل الگ ہے۔ وہ گورنر کورابطے کی کھڑکی کے طورپر موجود رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہوا اورروشنی کا گزر جاری رہے اوراگرمعاملات کو کنٹرول میں رکھنا پڑے تو گورنر سندھ کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔
کراچی کے آپریشن کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آپریشن کے اجلاس میں اب گورنر کوبھی نہیں بلایا جارہا‘ سندھی وزیراعلیٰ سے بھی بہت سے معاملات چھپائے جارہے ہیں۔ ابتدا میں کراچی آپریشن کے حوالے سے جواجلاس بلائے گئے اُن میں ایم کیوایم کی پارلیمانی لیڈر شپ نہیں تھی جس کے نتیجے میں آپریشن یک طرفہ ہونے کا تاثر اُبھرنے لگا اور کچھ دنوں میں سندھی لیڈر شپ کے درمیان بلاول ہائوس کی دیواریں گرانے کے معاملات پر اختلافات سامنے آئے اورتعلقات میں دیواریں کھڑی ہوگئیں۔ کراچی آپریشن اِس وقت جس مرحلے سے گزررہا ہے اس کے لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیںع
اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے
کراچی پاکستان کی معیشت کی شہ رگ ہے۔ قومی محاصل کا بڑا حصہ کراچی فراہم کرتا ہے۔ یہ شیش محل ہے اورشیش محل کو پتھر اور ڈنڈے نہیں مارے جاتے۔ ذرا سی غلطی پورے ملک میں معاشی بحران کی کالی گھٹائیں لاسکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کمزور ہے کچھ لوگوں کا کہناہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ناکام ہوتی جارہی ہیں اور کچھ ''منہ زور ناقدین‘‘ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہے ہی نہیں۔ اس صورت میں کراچی آپریشن کو اتنی ذہانت اوردانائی کی ضرورت ہے جس کی تبلیغ اردو زبان کے ایک محاورے میں کی گئی ہے کہ ''سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں