"ISC" (space) message & send to 7575

این اے 246میں پراسرار خاموشی…!!

کراچی کا حلقہ این اے246اچانک''سائلینٹ‘‘ہوگیا ہے... وہاں کی گرما گرمی سیاسی نرمی میں بدل گئی ہے... ایک شخص نے دلچسپ تجزیہ کیا کہ سب ''انسان‘‘بن گئے ہیں۔ رینجرز کے کنٹرول کی خبروں اور مسلسل گشت نے خراب صورتحال کو بہتر فضاء میں تبدیل کردیا ہے اور زیادہ تر انتخابی سرگرمیاں عزیز آباد اور کریم آباد کی گلیوں تک محدود ہوگئی ہیں ۔
حلقہ این اے 246کا جائزہ لیں تو یہ نشست 1988ء سے ایم کیوایم حاصل کرتی آرہی ہے۔ 1985ء میں اس نشست سے غیرجماعتی انتخاب میں جماعت اسلامی کے سید مظفر ہاشمی کامیاب ہوئے۔ 1970ء اور 1977ء میں اس نشست سے جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور احمد (مرحوم) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ 1993ء میں ایم کیوایم نے قومی اسمبلی کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا‘ جس کے نتیجے میں ایک بار پھر اس نشست پر جماعت اسلامی کے سید مظفر احمد ہاشمی کامیاب ہوئے۔ 1997ء میں ایم کیو ایم کامیاب ہوئی۔ 2002ء کے عام انتخاب میں ایم کیوایم اور جماعت اسلامی کا ون ٹو ون مقابلہ ہوا تھا۔ ایم کیوایم کے امیدوار نے 52ہزار اور جماعت اسلامی کے امیدوار نے32ہزارووٹ حاصل کئے تھے۔ 2008ء میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیااور ایم کیو ایم نے میدان مارا۔ 2013ء کے عام انتخاب میں ایم کیوایم کے امیدوار نبیل گبول کامیاب ہوئے اورتحریک انصاف کے امیدوار نے31ہزار جبکہ جماعت اسلامی کے راشد نسیم نے 10ہزارووٹ حاصل کئے۔ جماعت اسلامی نے کراچی میں دن کے بارہ بجے بائیکاٹ کردیا تھا جس کاپورے شہر میں فائدہ تحریک انصاف کو ہوا۔
اِس بار الیکشن میں ایم کیو ایم سب سے زیادہ مطمئن نظر آتی ہے۔ جبکہ دیگر جماعتوں کی جانب سے اتنے مطالبات ہورہے ہیں کہ وفاقی ‘صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کوایم کیو ایم مخالف جماعتوں کی فرمائش پوری کرنے کیلئے ایک لاکھ افراد کی ضرورت پڑے گی۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتنے تو اس حلقے کے ووٹر نہیں ہوں گے جتنی وہ نفری مانگ رہے ہیں۔ چند دنوں میں جو مطالبات سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں۔ رینجرز کو پولنگ اسٹیشن کے باہر ‘فوج کو اندر‘ دونوں کو پولنگ اسٹیشن کے اندرتعینات کیا جائے‘ کیمرے لگائے جائیں‘ بائیومیٹرک مشینیں لگائی جائیں جس پر سندھ کے ''سائیں‘‘قائم علی شاہ نے عملدرآمد ناممکن قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''وقت کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہیں نہ بائیومیٹرک سسٹم لگاسکتے ہیں نہ ہی کیمرے اور اگر آئندہ الیکشن میں ایسا نہ کراسکے تو یہ سوالیہ نشان ہوگا‘‘۔قائم علی شاہ کی یہ بات درست ہے کہ ایسا عام انتخابات میں بھی نہیں ہوا۔ کچھ مطالبے قانون اور کچھ آئین میں بھی نہیں اور ایک ہفتے میں نیا آئین بنانا آسان نہیں ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے نخرے نئی نویلی دلہن سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔پی ٹی آئی کو تو میڈیا کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ انہوں نے عمران خان کیلئے جناح گرائونڈ آنے والوں کی تعداد بتائی اور نہ لکھی۔۔۔۔۔۔البتہ فیصل سبزواری نے یہ ضرور کہا کہ پولیس اہلکار وں کی تعداد کارکنوں سے زیادہ تھی۔ ایک انتظامی اعلامیہ میں اندر کہیں چھپی ہوئی یہ بات بھی تھی کہ 2ہزار پولیس اہلکار تعینات تھے۔ اس سے کارکنوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کراچی کے وقاص احمد نے ایک ای میل بھیجی جس میں انہیں میرے گزشتہ کالم میں تحریک انصاف کی ریلی کے کارکنوں کی تعدادکم لکھنے پر اعتراض ہے۔ انہوں نے لکھا کہ '' تحریک انصاف کی ریلی میں کارکنوں کی بہت بڑی تعداد شریک تھی اور عمران خان آدھے گھنٹے تک جناح گرائونڈ میں موجود رہے۔ کراچی والے ایم کیو ایم سے تنگ آچکے ہیں اور تحریک انصاف کو سپورٹ کررہے ہیں‘‘وقاص احمد نے پرویز رشید کو غیر موثرقرار دیا اور یہ بھی لکھاکہ ''جاوید ہاشمی توکراچی میں تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران ہونے والے جلسے سے پہلے ہی پارٹی چھوڑ چکے تھے‘‘۔
قارئین کی رائے کا احترام ہر قلم کارکا فرض ہے لیکن وقاص صاحب !تحریک انصاف کراچی کے رہنما فیصل واوڈانے ایک اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''عمران خان کی عجلت میں واپسی کی وجہ وقت آنے پر بتائوں گا‘‘یہ کونسا وقت ہوگا؟ اور عجلت میں واپسی کا اعتراف انہوں نے خود کیوں کیا؟ موقع ملا تو اُن سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ جناح گرائونڈ میں عمران خان کے کان میں کسی نے کیا کہا تھا؟۔
دانتوں کے ڈاکٹر عارف علوی نے ایم کیو ایم کو دانت دکھانے شروع کردئیے ہیں۔ انہوں نے تو بیلٹ پیپرز چھاپنے والوں کو بھی ایم کیو ایم کے لوگ قرار دے دیا۔ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ''جہاں بیلٹ پیپرز چھپ رہے ہیں وہاں کام کرنے والے 80فیصد ایم کیو ایم کے لوگ ہیں ‘‘۔تحریک انصاف کی جانب سے روزانہ اتنے مطالبات سامنے آتے ہیں کہ کراچی کے لوگ انجوائے کرنے لگے ہیں کہ وہ الیکشن لڑرہے ہیں یا کسی مزدور یونین کا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کررہے ہیں۔ دوسری طرف ایم کیو ایم ''گم سم ‘‘ہے کبھی خوشی کبھی غم۔ کبھی نائن زیرو پر رونق اور کبھی ویرانی‘ کبھی جناح گرائونڈ میں جشن اور کبھی سوگ۔۔۔۔۔۔سب کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔
''مہاجروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر کسی کے ساتھ ہوجائیں تو پھر نفع و نقصان کی پروا نہیں کرتے ‘‘یہ بات ابوالکلام آزاد نے کہی تھی۔۔۔۔۔۔انہوں نے تو مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے کہا تھا کہ آپ اُن علاقوں کی طرف نہ جائو جہاں سردار‘جاگیردار‘وڈیرہ ‘قبائلی سسٹم اور غیر متمدن ماحول ہے‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ُان کی نہ سنی گئی اور بعد میںبہت سے لوگ ابوالکلام آزادکو خط لکھتے رہے لیکن ٹرین نکل چکی تھی۔
کراچی اور حیدرآباد کی پوری سیاست سمجھنے کیلئے مہاجروں کی نفسیاتی اپروچ کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک چھوٹے درجے کے اردو بولنے والے رہنما نے کہا کہ ''کراچی کے چور اچکوں اور زمین پر قبضہ کرنے والوں کو تو پکڑا جارہا ہے لیکن پنجاب کے سابق گورنر چوہدری سرور نے استعفیٰ دینے سے قبل نام اور ثبوت کیساتھ جن قبضہ مافیا کا ذکر کیا تھا ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی ''ہائے ڈومیسائل بھی کیا بری چیز ہوتی ہے‘‘۔ حکومت کو اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے چھوٹی سی چنگاری پورے جنگل کو جلاکر راکھ کردیتی ہے۔ آپریشن ملک گیر سطح پر ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ لاقانونیت‘لوٹ مار ‘فنڈز کی خورد برداور سرکاری وسائل کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹنا قومی کلچر بنتا جارہا ہے۔ دنیا میں ہماری عزت ختم ہورہی ہے۔ ہم نے اپنی قومی ایئر لائن میں شراب بند کردی لیکن جہاز کے باتھ روم سے کلو کے حساب سے ہیروئن برآمد ہوتی ہے۔ شراب پر پابندی ام الخبائث کی وجہ سے لگائی گئی لیکن معاملہ الٹ ہوگیا۔ دیگر جرائم میں ہم بہت آگے نکل گئے۔ دنیا کے بعض ممالک میں جو جرائم 10سا ل میں ہوتے ہیں‘ ہم 6ماہ میں ان کا ریکارڈ توڑ دیتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہمیں پورے ملک کے جرائم کے خاتمے کا بوجھ صرف فوج اور رینجرز کے کاندھوں پر ڈالنا ہے اور باقی ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں رہیں گے؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دیگر ادارے اپنا کام ایمانداری سے کیوں نہیں کررہے؟ یا ان کے راستے میں کون رکاوٹ بن رہا ہے ؟۔۔۔۔۔۔اُن کی پکڑ دھکڑ بھی ہوگی یا نہیں کیونکہ جب تک ہم مشین کے تمام پرزے ٹھیک سے نہیں چلائیں گے تب تک کپاس سے دھاگہ اور دھاگے سے کپڑا نہیں بن سکے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں