ایک امریکی اخبار نے انکشاف کیا کہ ''دنیا 2012ء میں ختم ہوجائے گی‘‘اِس خبر نے تہلکہ مچا دیا۔ پوری دنیا پریشان ہوگئی۔ سب سے زیادہ فکرمند گورے تھے۔ اِس پرایک فلم بھی بن گئی۔ سب انتظار کرتے رہے لیکن 2012ء گزر گیااور قیامت نہیں آئی۔ ایک اور امریکی اخبار نے رپورٹ شائع کی کہ ''2014ء میں (خدانخواستہ) پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا‘‘۔ لیکن اللہ کا شکر ہے پاکستان قائم و سلامت ہے۔ ہم اتنے بھولے ہیں کہ ایک امریکی اخبار کی رپورٹ پر گتھم گتھا ہوگئے ہیں‘ خوب لڑ رہے ہیں اور ہزاروں لوگوں کا روزگار دائو پر لگا دیاہے۔ اس اسکینڈل کی خوبی یہ ہے کہ اسے پاکستان کے تحقیقاتی اداروں نے نہیں پکڑا‘ بلکہ نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا۔ لگتا ہے کہ یہ رپورٹ چوہدری نثار کو حرکت میں لانے اور ایف آئی اے کو پورے ملک میں ''مقبول‘‘ کرنے کیلئے شائع کی گئی۔ اتنی بدنامی توامریکی رپورٹ پر نہیں ہوئی جتنی میڈیا نے بھینس کی جگالی کی طرح متواتر خبریں شائع و نشر کرکے کی۔
کامران خان دنیا گروپ سے وابستہ ہوچکے ہیں۔یہ خبر روزنامہ ''دنیا‘‘میں سپر لیڈ کے طور پر شائع ہوئی۔ قریب ہی ایک دو کالمی خبر میں اُن کی صحافتی خدمات کی بھرپورتعریف کی گئی۔یہ خبر ''بول‘‘کے احتجاجی مظاہروں کی طرح دیگر اخبارات میں جگہ حاصل نہ کرسکی اور کاروباری رقابت کا شکار
ہوگئی ۔دنیا ٹی وی کو ایک بات کی داد دینا ہو گی کہ راتوں رات مقبولیت کی جو چھلانگ اِس نے لگائی اُس سے ان لوگوں کی بازی پلٹ گئی جو''بول‘‘کی بولتی بند کرکے کامران خان کو واپس اپنے ''گھر‘‘لے جانا چاہتے تھے ۔اِس فیصلے پر بول مخالفین حیرت کے سمندر میں غوطے لگارہے ہیںاور اداس ہیں‘ لیکن آئندہ چند روز میں ''تین بہادر‘‘کی کہانی میںسے کوئی ایک کردار کم ہوجائے گااور یہ ثابت ہوجائے گا کہ ''دنیا ‘‘ٹی وی اُس ''پلاننگ‘‘کاحصہ نہیں تھا جس کی وجہ سے ''بول‘‘کی حالت بغیر پانی مچھلی جیسی ہوگئی ہے ۔پی بی اے کی جانب سے ''بول‘‘ کے ''صحافیوں‘‘ کو تحفظ دینے کے فیصلے کے بعد ‘دانہ کسی اور نے پھینکا تھا لیکن مچھلی میاں عامر محمود نے پکڑ لی ۔''دنیا نیوز‘‘کے چیف میاں عامر محمود حالیہ پاکستان میڈیا وار میں سب سے زیادہ ذہین کھلاڑی ثابت ہوئے۔ میاں عامر محمود نے پہلے ہی اخبار میں متضاد نظریات رکھنے والے اہل قلم کو جمع کر رکھا ہے اور روزنامہ ''دنیا‘‘کا ادارتی صفحہ اِس وقت پوری اخباری صنعت میں نمبر ون پوزیشن پر ہے جس کا مخالفین بھی کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔اب کامران خان کی شمولیت کے
بعد ''دنیا ‘‘ٹیلی وژن نے بھی بڑی چھلانگ لگالی ہے ۔کراچی کے میڈیا کے حلقوں نے آپس میں یہ سوال کرنا شروع کردیئے ہیں کہ کیاکامران خان ''دنیا ‘‘میں لائے گئے ہیں ‘ خود آئے ہیں یا بعض قوتوں نے کامران خان کو واپس ان کے سابق چینل میں نہیں جانے دیا ۔یہ وہ سوال ہے جو فیصلہ کرے گا کہ پاکستان میں اب میڈیا کا رول کیا ہوگا؟اور ملکی ٹیلی وژن چینلوں کو کس طرف منہ کرکے اپنی پالیسی طے کرنا ہوگی۔
پاکستان میں یوں تو ہرروز کوئی نہ کوئی ریکارڈ توڑ واقعہ رونما ہوتا ہے‘ جو تاریخ بدلتا ہے‘ اب پی بی اے (پاکستان براڈ کاسٹرزایسوسی ایشن)نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں ''بول‘‘کا نام لئے بغیر یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ ٹی وی چینل بند ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے اس لئے پی بی اے ارکانِ چینل اس کے ملازمین اور تکنیکی عملے کو اپنی سہولت کے مطابق اپنے چینل میں واپس لے لیں۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ''بول‘‘چینل کو ہمیشہ کیلئے ''دفن‘‘ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہر ممبر چینل کو اپنی کامیابی کا یقین ہو چلا ہے۔ کیا بعض پاکستانی ٹی وی چینل کے مالکان کو علم ہی نہیں کہ قلم کی توقیر کیا ہے؟قلم کی عظمت کسے کہتے ہیں؟جبکہ قلم کی قسم قرآن مجید نے خود کھائی ہے۔ وہ میڈیا انڈسٹری کے ''چھاتہ بردار‘‘ ہیں۔ ان کی طرف سے یہ تجویز آنا کہ ''جو چینل مررہا ہے اس کو مرنے دواور ان کے ملازمین کو بس نوکری دے دو تاکہ وہ شوروغوغا نہ کریں‘‘واقعی افسوسناک ہے‘ جبکہ فیض احمد فیض نے بھی وجہ ضرور پوچھی تھی:
مرنے چلو ہو تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشن رقص کا
رنگیں لہو سے پنجہ ء صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامن جلاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں بنیاد کچھ تو ہو
گر تن نہیں زباں سہی‘ آزاد کچھ تو ہو
دشنام‘ نالہ‘ ہائو ہو‘ فریاد کچھ تو ہو
چیخا ہے دل کہ اے دلِ برباد کچھ تو ہو
بولو کے شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کے روز عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
آج تو لگتا ہے کہ فیض بھی شرماگیا ۔یہ ترکیب تو ڈکٹیٹروں کو بھی نہیں سوجھی تھی اور اب حکمرانوں کیلئے آسان ہوجائے گا کہ جس اخبار یا چینل کو چاہو ایک وار سے ''شہید ‘‘کردو۔ ان کے ملازمین کہیں اور کھپادو اوراگر کوئی چینل یا اخبار نہ رکھے تو اپنی ٹیکسٹائل یا شوگر مل میں ملازمت دے دو ۔یہ بھی ممکن نہ ہو توپھر سرکاری بینک سے قرضہ دلواکر سبزیوں کی ریڑھی ہی لگوادو‘ کیونکہ وہ صحافی بے روزگارنہیں رہنا چاہیے۔ اس کے اہل خانہ بھوکے نہیں مرنے چاہئیں۔یہ بات کسی دشمن یا قاتل نے نہیں ہمارے اپنوں نے کی ہے ۔یہ ان لوگوں نے کی ہے جو آگے بڑھے تھے‘ سردار بنے تھے کہ ہم میڈیا کی عظمت پر داغ نہیں آنے دیں گے‘ لوح وقلم کی حفاظت کریں گے‘ آزادی صحافت کا دفاع کریں گے۔ یہ ہے ان کی آزادی اور یہ ہے ان کی صحافت۔ سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔ کبھی موقع ملا تو سابق حکمرانوں سے پوچھیں گے کہ اکبر الٰہ آبادی نے کیوں کہا تھاکہ ؎
یوں قتل سے بچوںکے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی