"ISC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کا ’’تاریخ ساز‘‘دورۂ ِ کراچی…!

وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد نواز شریف قیامت خیز گرمی سے 1500افراد کی ہلاکت کا پُرسہ دینے بالآخرکراچی آگئے۔ وہ اہلیان ِکراچی کے دکھوں کے اسباب جاننے چارگھنٹے کے دورے پر آئے تھے۔ یہ تاریخ ِ پاکستان کا سب سے ''تیزرفتار‘‘ اور'' مختصر ترین‘‘ دورہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا ایمرجنسی نافذ ہوگئی ہے، ...لیکن یہ ایمرجنسی وزیر اعظم کے جلد آنے اور جانے کی تھی۔ یہ دورہ صرف نشستند اور برخاستند تھا، گفتند تو کہیں نظر ہی نہیں آئی۔ کراچی کے عوام یہ سوچ رہے تھے کہ وزیر اعظم کے دورے سے اُن کے دکھوں میں کمی آ جائے گی اور وہ خوش ہوجائیں گے، لیکن اُن کے دکھ اس وقت اور بھی بڑھ گئے جب انہیں علم ہوا کہ حکمرانوں کے پاس کراچی کے لیے وقت نہیں۔ مہنگی گھڑی میں صرف میٹرو بس جیسے منصوبوں کے لیے ہی وقت دیکھا جاسکتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ یہ دورہ وزیر اعلیٰ سندھ کی قیام گاہ تک محدود رہا اور اہلیان ِ وطن کوماضی کے جھروکوں سے 45 سال پیچھے کے پاکستان میں لے گیا، جب ہمارے حکمران مشرقی پاکستان میں طوفان اور سیلاب کی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے چار‘چھ دن بعد ''اچانک ‘‘ اور'' ہنگامی دورے‘‘ پر ڈھاکہ یا راج شاہی چلے جاتے اور وہاں کے دکھی عوام کے احساس محرومی میں مزید اضافے کا باعث بنتے تھے۔ عموماً یہ دورے ''فوٹو سیشن‘‘تک محدود رہتے اور ان فوٹوز کو موثر بنانے کے لیے ان کے ساتھ بیانات کا تڑکا بھی لگایا جاتا تاکہ مشرقی پاکستان کا ہر فرد اپنی بے بسی کا ماتم کرنے کے ساتھ تڑپ کر کہہ سکے کہ ''ہم اور وہ‘‘ آپس میں بھائی بھائی نہیں ہیں۔ اسی طرح بالآخر ''اُدھر تم اِدھر ہم‘‘کا نعرہ ایجاد ہوا اور ملک دولخت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ملک توڑنے کی کوئی تحریک نہیں ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم نہ کرکے ایسی تحریکوں کی آبیاری کی جاسکتی ہے۔ یہ تو مکافاتِ عمل تھاکہ جہاں اندرا گاندھی اور بنگال کے شیخ مجیب اور پاکستان کے ایک سیاستدان نے اِس ملک کی ''اینٹ سے اینٹ‘‘بجائی ، اِسے دولخت کرنے میں سب نے اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈالا اور المیہ بھرا سچ یہ ہے کہ سب کے سب غیر فطری موت کے شکار ہوئے۔
کراچی کا المیہ مشرقی پاکستان سے بھی زیادہ غم ناک ہے۔ مشرقی پاکستان کو پاکستان کا حصہ کہا جاتا تھا جبکہ کراچی کو ''لاوارث‘‘سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کراچی میں ڈیڑھ ہزار لوگ زندگی کی بازی ہارگئے...تڑپ تڑپ کر مرتے رہے...نعشیں اٹھانے والے کم پڑگئے ...اسپتال بھر گئے ...قبرستانوں میں جگہ تنگ ہوگئی...ایدھی ٹرسٹ نے تو ڈیڑھ سو لا وارث لاشوں کو ایک ''نہر نما اجتماعی قبر‘‘ میں دفن کردیا۔ ایم کیو ایم نے کئی مقامات پر مرنے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت اور بیماروں کی عیادت کی۔ پانچ دن بعد پہلی بار پیپلزپارٹی نے تعزیتی سلسلہ شروع کیا۔ بلاول پہنچے، اسپتالوں کے دورے کئے۔ پھر عمران خان بھی لندن سے کراچی پہنچ گئے، بیانات داغے گئے اور پھر12دن بعد وزیر اعظم نواز شریف کراچی تشریف لائے۔ چار گھنٹے ''طویل‘‘ قیام کیا، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کی، وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر آئے اورہیلی کاپٹر میں بالا ہی بالا واپس چلے گئے...ٹھنڈے کمرے سے باہر ہی نہ آئے...نہ تو گرمی کے شکار مریضوں کی تیمارداری کی نہ ہی مرنے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کے دو بول کہے؛ البتہ قائم علی شاہ کی تعریف ضرور کرتے رہے۔ کراچی کے شہری حیران تھے کہ ایسی بھی کیا جلدی تھی؟ کراچی میں تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ پر کے الیکٹرک سے کچھ پوچھا گیا نہ اس کے افسروں کو بلا کر ڈانٹ ڈپٹ کی گئی، وہ انتظار کرتے رہ گئے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ سے یہ تک نہ پوچھا کہ ''سائیں آپ نے وفاقی حکومت کے خلاف دھرنا کیوں دیا؟‘‘
یہ خبر پھیل چکی تھی کہ وزیر اعظم صاحب جناح اسپتال کادورہ کریں گے۔ انتظامات مکمل تھے، پروٹوکول بھی لگ گیا یہاں تک کہ ڈائریکٹر ایمرجنسی سیمی جمالی نے بتایا کہ انہوں نے پرانی وہیل چیئرز ہٹاکر نئی خرید لی تھیں...اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنی جیب سے کیا، سرکاری خزانے سے نہیں تاکہ ''مہمان خصوصی‘‘ کا دورہ خیر وعافیت اورعزت و احترام سے انجام پاجائے‘ لیکن ہمارے وزیر اعظم ناگزیر مصروفیت کی بنا پر اسپتال نہ جاسکے۔ ان کے پاس میٹرو بس کے لیے وقت ہے لیکن کراچی کے مریضوں کو دیکھنے اور مرنے والوں کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے اُن کے پاس وقت نایاب ہے۔
چلی میں ایک کان کا حصہ دھنسنے کے بعد 33 کان کن پھنس گئے جن کو زندہ نکالنے کے انتظام کی تیاری اورانجینئروں کی حوصلہ افزائی کے لیے چلی کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپراپناغیر ملکی دورہ مختصر کرکے شہر سے باہر کان کی دہلیز پر پہنچ گئے اور ہر زندہ نکلنے والے کان کُن کو مبارکباد دی،گلے سے لگایا اور اُن کے بچوںکو پیارکیا۔ جب بھی یہ خبر اور سی این این پرچلنے والے وڈیو مناظر یاد آتے ہیں تو دل رونے لگتا ہے کہ یہ کافر مسلمانوں والے کام کررہے ہیں اور ہم نہیں کررہے۔ میاں نواز شریف جس چیف منسٹر ہائوس میں وزیر اعلیٰ سندھ سے گرمی کی شدت اور حدت سے مرجانے والے افراد کے بارے میں بریفنگ لے رہے تھے وہاں سے چند منٹ کے فاصلے پر جناح اسپتال واقع ہے، لیکن میاں صاحب وہاں نہیں گئے کیونکہ ہمارا کافروں سے کیا مقابلہ؟ ہم چلی کے وزیراعظم کی طرح کیوں دھکے کھائیں؟ اگر کوئی بجلی اور پانی نہ ہونے سے مر رہا ہے تو موت کو کون روک سکتا ہے ( فرمان وزیرمملکت ۔) چلی کے وزیر اعظم کے پاس لگتا ہے بہت فالتو وقت تھا ورنہ الیکشن کے بعد عوام کو کون پوچھتا ہے؟ وہ خواہ مخواہ غیر ملکی دورہ مختصر کرکے وطن واپس آئے۔ ہمارے حکمران تو کراچی کا دورہ کرتے ہی مختصر ہیں۔ شاید آج قائد اعظم بھی سوچ رہے ہوںگے کہ میرے نام سے منسوب اسپتال (جناح اسپتال) میں وزیراعظم تمام تیاری کے باوجود کیوں تشریف نہیں لائے؟ جبکہ اسپتال کے مردہ خانے میں مردے
بھی''ریڈی‘‘ تھے اور بیمار بھی منتظر۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ انہیں خواب میں قائد اعظم صاحب نظر آ ئے تھے، وہ بہت سو گوار تھے اور کہہ رہے تھے کہ جناح اسپتال کا نام تبدیل کرکے وزیر اعظم اسپتال رکھ لو تاکہ تاریخ پاکستان میں یہ سانحہ اور یہ بے رخی اور بے بسی امر ہو جائے اور جب بھی جناح اسپتال کے نام کی تبدیلی کا ذکر آئے تو آنے والی نسل تمام قصے سے واقف ہوجائے۔
جلال الدین اکبر کے پاس کئی وزیر تھے لیکن وہ بیربل کو بہت پسند کرتے تھے۔ ایک دن تمام وزراء جمع ہوئے اور اکبر بادشاہ سے کہا کہ آپ بیربل کو ہم پر فوقیت دیتے ہیں، ہم بھی وہ سارے کام کرسکتے ہیں جو بیربل کرسکتا ہے۔ اکبر نے کہا ٹھیک ہے، جائو فلاں جگہ بلی نے بچے دیے ہیں معلوم کرو۔ وزیر چلے گئے، واپس آئے تو اکبر نے پوچھا بتائو بلی نے کتنے بچے دیئے ؟ جواب ملا ''چھ‘‘۔ پوچھا، نر کتنے اور مادہ کتنی؟ وزیر سٹپٹا گئے کہ یہ تو دیکھا نہیں۔ پھر گئے واپس آئے اور بتایا تین نراور تین مادہ۔ اکبر نے پوچھا، ان کے رنگ کیا ہیں ؟ وزیر پھر بھاگے۔ اس طرح چھ سات چکر لگائے۔ اکبر نے بیربل کو بلایا اور یہی سوال کیاتو وہ ایک بار ہی تمام سوالات کے جواب ساتھ لے کر آیا جس کے بعد اکبر نے اپنے وزراء سے کہا، تم میں اور بیربل میں یہ فرق ہے۔ آج ہمارے حکمران کو بھی عوام کے غصے سے بچانے کے لیے بیربل اور ملا دو پیازہ جیسے وزیروں کی ضرورت ہے ورنہ باقی وزراء تو اکبر بادشاہ کے پاس بھی تھے۔ پرویز رشید نے کہا کہ '' وزیر اعظم کے دورہ کراچی پر تنقید بلاجواز ہے‘‘ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارے آج کے حکمران کو بیربل اور ملادوپیازہ کی ضرورت کیوں ہے؟ایسے ہی لوگ حکمرانوں کو عوام سے دور کردیتے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں