"ISC" (space) message & send to 7575

محفوظ کراچی…!!

کسی سیانے نے کہا تھاکہ کراچی میں انسانی زندگی اتنی ہی محفوظ ہے جتنا مسجد میں جوتا لیکن امریکی اخبار ''واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے کراچی کی صورتحال پر ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا بھر میں قتل و غارت کی سب سے زیادہ شرح کے لحاظ سے بدنام شہر کراچی میں حکومت امن بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ 2013ء میں کراچی میں 2789قتل ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے اور سب سے زیادہ بم دھماکے بھی کراچی کے دامن کو خون سے تر کر گئے، جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے رینجرز کو امن بحال کرنے کا حکم دیا، اہم ترین سوال یہ ہے کہ دو کروڑآبادی کے شہر میں رینجرز نسلی اور ثقافتی تقسیم کئے بغیر سکیورٹی صورتحال مستحکم کرسکتے ہیں یا نہیں ؟اخبار کے مطابق پہلے کے مقابلے میں کراچی آج ایک بہت محفوظ جگہ ہے۔
کراچی روشنیوں کا شہر تھا لیکن سیاستدانوں کے ذاتی مفادات نے عروس البلادکو اندھیروں میں دھکیل دیا، جس محکمے کو جو کام کرنا چاہیے تھا اُس نے نہیں کیا۔ قبضہ مافیا کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، سرکاری زمینیں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئیں، برساتی نالے تک لیز کردیئے گئے، فٹ پاتھ کو کارپارکنگ میں بدل دیا گیا، رفاہی پلاٹوں پر شادی ہال بن گئے، کھیل کے میدان نقشوں سے بھی غائب ہوگئے، ٹارگٹ کلنگ کاریٹ 
5ہزار کی کم ترین سطح تک پہنچ گیا، بھتہ خور وں نے تاجروں کی نیندیں حرام کر دیں، ایک دن میں تین سے چار بینک ڈکیتیاں ہونے لگیں، لاکرز تک توڑ کر قیمتی سامان نکال لیا گیا، نائب قاصد سے ایڈمنسٹریٹر تک سب کرپشن کی ندی میں غوطے لگانے لگے۔ ایم پی اے سے لے کر وزراء تک رشوت اور غیرقانونی دھن جمع کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگے۔ کئی وزراء کے گھر بینک سے زیادہ قیمتی ہوگئے اور پانچ کروڑ کے گھر میں 2ارب روپے بھی رکھے گئے۔ ایسا کیوں ہوا ؟یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ پولیس مکمل طور پرسیاسی ہوگئی ہے، ایس ایچ او کی پوسٹ بھی غیر اعلانیہ ٹینڈر کے ذریعے فروخت کی جاتی ہے۔ کرپشن کیخلاف بنایا گیا محکمہ اینٹی کرپشن خود کرپشن کی نذر ہوگیا۔ نیب کو تو مفاہمت کا ایسا شربت پلایا گیا کہ وہ دو ماہ قبل تک غنودگی کی کیفیت سے باہر نہیں آیا تھا۔ لینڈ ڈیپارٹمنٹ نے ایسی فائلیں بنائیں کہ دیکھنے والوں کو اب تک چکر آرہے ہیں، انکروچمنٹ (تجاوزات) ڈیپارٹمنٹ خود قبضے کرواتا رہا۔ ایسی صورتحال میں کسی کارروائی کا موثر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ 
منگل کو دوپہرکے وقت میری ملاقات رینجرز حکام سے ہوئی، کراچی کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا، کچھ مشورے مانگے گئے، کچھ ہم نے دیئے، کچھ اعترافات کئے تو بعض شکوے بھی زبان پر آگئے۔ رینجرز کی ستمبر 2013ء سے اب تک کی کارروائیوں اور ان کے نتائج سے (میں) اپ ڈیٹ بھی ہوگیاجو واقعی قابل تحسین ہے۔ سال 2013ء میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات عروج پر تھے۔ ستمبر سے دسمبر تک صرف چار ماہ میں 224افراد کو ٹارگٹ کیا گیا۔ سال 2014ء میں 519 افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے لیکن رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں یہ تعداد کم ہوکر 127 ہو گئی، جو رینجرز کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ اغواء کی وارداتیں 2013ء میں 174 اور 2014ء میں 115 تھیں لیکن رواں سال یہ تعداد گھٹ کر صرف 13 رہ گئی ہے۔ بھتے کی وارداتیں 2013ء میں 1524 اور 2014ء میں 899 تھیں جو 2015ء میں کم ہوکر 249 رہ گئیں۔ بینک ڈکیتیوں میں حیرت انگیز کمی نظر آئی ہے رواں سال بینک ڈکیتیوں کی تعداد صرف 7 ہے جبکہ 2014ء میں 19 اور 2013ء میں 29 بینک ڈکیتیاں ہوئیں۔ رینجرز نے اب تک 5856 آپریشن کئے اور 10 ہزار 440 ملزمان پکڑے ، جن میں سے 5ہزار دس ملزمان پولیس کے حوالے کئے گئے۔ 341 بھتہ خور ‘85 اغواء کار‘ 855 دہشت گرد‘ 498 ٹارگٹ کلرز بھی ان کارروائیوں میں گرفتار ہوئے۔ 224مقابلوں میں 364جرائم پیشہ افراد ہلاک اور 213کو گرفتار کیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مارشل لاء نافذ کئے بغیر بڑی کارروائیاں کی گئیں جن سے پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت کم ازکم محفوظ ضرور نظر آرہی ہے جہاں سیاست میں کرپشن کی آمیزش ہوجائے تو کبھی نہ کبھی پکڑ ضرور ہوتی ہے اور اِس بار تو نیب کی کارروائیوں پرحیرت ہوئی لیکن اِس بات کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ نیب کو نہ سنبھالتی تو اس کے نام کی رہی سہی عزت بھی مفاہمت کی نذر ہوجاتی، اِسی ''کارکردگی‘‘ کو دیکھتے ہوئے شاید پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے دبئی سے کراچی آنے کے بجائے لندن کا رخ کیا۔
فوجی حکومتوں کے دور میں افسرشاہی سے لے کر نوکر شاہی تک ''کنٹرول‘‘ میں رہی لیکن گزشتہ جمہوری ادوار میں حدہی ہو گئی، افسر شاہی نے وزراء کیساتھ مل کر وہ کام کئے جن کی مثال ماضی میںملنا مشکل ہے اور پھر ڈھیل بھی ایسی دی گئی کہ کوئی کسر باقی نہ رہی لیکن اس پورے عمل اور عرصے کے دوران نقصان عوام کا ہوا۔ لوٹ مار کی ماضی کی داستانیں بھی سب کو یاد ہیں اور وہ پیسہ ابھی تک قومی خزانے میں واپس نہیں آیا اور گزشتہ ادوار میں مزید لوٹ مار کرکے رقم ملک سے باہر بھجوادی گئی مسئلہ یہ ہے کہ کارروائیاں تو ہورہی ہیں لیکن جو پیسہ باہر گیا وہ واپس کیسے آئے گا؟ یہ ترک وزیر اعظم کی اہلیہ کا ہار نہیں جو گیلانی صاحب ''شرافت‘‘ سے واپس کردیں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ جس ملک میں مولوی لڑرہے ہوں، جاہل دین سکھا رہے ہوں، پاپ سٹارز تبلیغ کررہے ہوں، کھلاڑی سیاست کررہے ہوں، قانون ساز قانون توڑنے کے طریقے ایجاد کررہے ہوں، ماڈلز اسمگلنگ کررہی ہوں، اسمگلرز عمرے کررہے ہوں، فوج ملک چلا رہی ہو، سیاستدان کاروبار بڑھارہے ہوں اور عوام سورہی ہو تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں