"ISC" (space) message & send to 7575

ایم کیو ایم کے ’’اچانک‘‘ استعفے…!!!

متحدہ قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی ‘سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں'' اچانک‘‘ استعفے جمع کراکر پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ایم کیو ایم نے عجلت میں فیصلہ کیا۔ وہ اسمبلی میں رہ کر اپنی آواز جس طرح اٹھاسکتے تھے اسمبلی کے باہر ایسا ممکن نہ ہوگا۔ بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے خود کو ٹوٹنے سے بچالیا۔ایک دانشور نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''سیاست میںتو ''خود کش حملہ‘‘نہیں ہوتا‘یہ ایم کیو ایم نے کیا کیا ؟‘‘ان کا یہ جملہ انتہائی فکر انگیز تھا۔
ایم کیو ایم کے اراکین قومی اسمبلی نے جیسے ہی اپنے استعفے اسپیکر کے پاس جمع کرائے توایسا لگا جیسے کوئی شدت سے انتظارکررہاہو۔ سپیکر نے فوری طور پر فرداً فرداً تصدیق کا عمل بھی مکمل کرلیا۔ سب کچھ جلد بازی میں ہورہا تھا۔ پوری قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کو روکنے کیلئے کوئی آواز نہیں اُٹھی۔ جمہوریت کے حسن کی باتیں کرنے والے قومی اسمبلی کی حسین عمارت دیکھنے میں مصروف تھے۔ پاکستان تحریک انصاف تو ایم کیو ایم کی حریف جماعت متصور ہوتی ہے‘ آپس میں تلخیاں بھی ہیں لیکن مسلم لیگ ن ‘پیپلز پارٹی ‘مسلم لیگ ق اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی چپ کا روزہ نہ توڑ سکیں‘ وجوہ کیا ہیں ؟یہ بات اتنی اہم نہیں لیکن جس پیپلز پارٹی کے ساتھ طویل وقت گزارا‘ جس مسلم لیگ ق کے ساتھ ایم کیو ایم شیروشکر تھی‘ جس مسلم لیگ ن کے سپیکر کے کہنے پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی قرارداد مؤخر کی۔ اب اس جماعت کے حق میں بولنے کیلئے ایک آواز بھی کہیں سنائی نہیں دی‘بلکہ ملتان میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے نہ صرف جشن منایا بلکہ مٹھائیاں تک تقسیم کی گئیں‘ جس سے ایم کیو ایم کایہ تاثردرست ثابت ہوتا نظر آرہا ہے کہ آپریشن کا رخ جرائم پیشہ عناصر اور ٹارگٹ کلرز کے ساتھ ساتھ‘ ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ بھی آپریشن کا ''خاموش شکار‘‘ہورہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے استعفوں کا اثر کراچی سٹاک مارکیٹ پر بھی دیکھا گیا جہاں 295پوائنٹس کی واضح کمی دیکھی گئی۔پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی سیاسی جماعتوں نے تو جیسے چپ کا روز ہ رکھ لیا تھا۔ٹی وی چینلوں کو نیا ''مصالحہ ‘‘ مل گیا تھاہرطرف یہی خبر اپنا چرچا کرارہی تھی کہ ایک ٹی وی چینل پر الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کی آواز گونجی کہ ''ایم کیو ایم کے استعفوں کے بعد سندھ کا سیاسی چہرہ تبدیل ہوجائے گا‘‘انہوں نے1992ء کے اجتماعی استعفوں کی صورتحال کا حوالہ دیا اور کہا کہ اُن دنوں ضمنی انتخابات منعقد کرانے میں ایک سال کا وقت لگ گیا تھا۔ان کا یہ سوال پورے ملک کو فکر مند کرگیااور سیاسی رہنمائوں نے دوبارہ غور و فکر شروع کیا اور سب کو این اے 246کا ضمنی الیکشن یاد آگیاجس نے پورے پاکستان میں سیاسی کارکنوں کو ''ہائی الرٹ ‘‘کردیا تھا‘کراچی آگ کا گولہ بن گیا تھا۔یہ آپریشن کی تیاری کے مراحل تھے۔تمام سیاسی جماعتیں صف بستہ ہوکر ایم کیو ایم کا نام ونشان مٹانے کیلئے اپنا اپنا حصہ ڈال رہی تھیں لیکن پھرسب نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح حیدرآباد کے کنور نوید جمیل نے 95ہزار ووٹ لے کر جماعت اسلامی کے امیدوار کی ضمانت ضبط کرادی‘جبکہ تحریک انصاف کے امیدوارعام انتخابات جتنے ووٹوں کے قریب بھی نہ پہنچ سکے۔یہ عجیب و غریب الیکشن تھا جس میں عمران خان کو ''کیل کانٹوں‘‘سے لیس کرکے ایم کیو ایم کے ''ہیڈ کوارٹر‘‘پر حملہ کرنے کیلئے بھیجا گیاتھا۔ملکی انتخابی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا‘ اس کے باوجود ایم کیو ایم کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اب اگر استعفے منظور ہوگئے تو این اے246کی ریہرسل پورے کراچی میں اصل ڈرامے کی صورت اختیار کرجائے گی ۔
ایم کیو ایم کے 24ارکان قومی اسمبلی‘ 8سینیٹرزاور52ارکان سندھ اسمبلی کے استعفے منظور ہوگئے توپورے ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا۔ سندھ کی سیاسی صورتحال میں بھونچال آچکا ہے۔52خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کراچی اور حیدرآباد میں عام انتخابات کا تاثر دیں گے ۔سینئر سیاستدان شیخ رشید نے کراچی کی نبض دیکھتے ہوئے کہا کہ اب فیصلے سڑکوں پر ہوں گے کراچی میں قتل وغار ت ہوگی اور 90دن انتہائی اہم ہیں۔
استعفوں کے جمع کرائے جانے کے چند گھنٹوں بعد سیاسی جماعتوں کو یہ احسا س ہونے لگا کہ کہیں ملک میں آئینی بحران نہ پیدا ہوجائے‘ایسا نہ ہو کہ پورا ماحول تبدیل ہوجائے اور پھر چند گھنٹوں بعد سیاسی کایا ہی پلٹ گئی‘ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ ایم کیو ایم کو استعفے دینے سے روکو‘استعفے منظور نہ کرو‘استعفے واپس لئے جائیں‘تاکہ کم از کم ایم کیو ایم کا یہ احساس محرومی تو دور کیا جا ئے کہ قومی سیاست میں ہمیں کوئی بھی کردار ادا نہیں کرنے دیا جارہا۔ایک سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ حکومت یہ ضرور چاہتی ہے کہ ایم کیو ایم تینوں ایوانوں سے اپنے استعفے واپس لے لیکن ساتھ ہی حکومت اس معاملے کو لٹکانا بھی چاہتی ہے تاکہ اس بہانے ایم کیو ایم کو قابو میں رکھا جاسکے۔جبکہ باخبر ذرائع نے اس امر کی تصدیق بھی کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کراچی آپریشن سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں‘بلکہ معلومات تک رسائی رکھنے والے تصدیق کررہے ہیں کہ جلد ہی کراچی آپریشن کی لپیٹ میں پیپلزپارٹی بھی آنے والی ہے۔اگر ایم کیو ایم کے استعفے منظور ہوجائیں تو آئین کے تحت 60دن میں ضمنی انتخابات کرانا لازمی ہے۔لیکن ان 60دنوں میں محرم الحرام کے ایام عزا کا آغاز بھی ہوجائے گا‘مجالس اورجلوس بھی ہوں گے‘سکیورٹی اہلکار ان کی سکیورٹی کریں گے یا ضمنی الیکشن میں ڈیوٹی انجام دیں گے‘ایسی صورتحال میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہوپائے گا۔
ایم کیو ایم کا یہ شکوہ بجا ہے کہ ان کے ساتھ استعفوں کے معاملے میں بھی ناروا سلوک رکھا گیا۔ تحریک انصاف کے استعفے واپس کرانے کیلئے سب میدان میں تھے ۔ایوانوں کے اندر اور باہر آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ملک بھر کے تجزیہ نگاروں اور اینکر پرسنز کیلئے یہ اہم سوال ضرورہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے استعفوں میں کیا فرق ہے ؟کیا سیاہی مختلف تھی؟کاغذ تبدیل تھایا پھر ان کے الیکشن لڑنے کا طریقہ کوئی اور تھا کہ ایک پارٹی ارکان کے استعفے 125دن تک منظور نہ کئے گئے لیکن دوسری جماعت کیلئے 25منٹ کا وقت بھی بہت سمجھا جارہا تھا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں