کراچی نے اِس بار 14اگست کا جشن ''زیادہ ‘‘جوش وخروش کے ساتھ منایا۔سیاسی تجزیہ کار جشن کا سوفیصد ''کریڈٹ‘‘رینجرز کو دے رہے ہیں‘ جس نے کراچی میں احساس ِتحفظ کو فروغ دیا اور عام آدمی کو گھر سے نکلنے پر اُبھارا۔۔۔۔۔۔جب ہر گلی ‘کوچے ‘محلے اور علاقے سے لوگ نکل کر آگئے تو کراچی ‘خصوصاً مزارِ قائداعظم کے اطراف اور کلفٹن کے ساحل کی طرف جانے والی سڑکوں پر پہلے ٹریفک جام ہوا ‘ پھر راستے بند ہوئے اور آخر کار سڑکیں گاڑیوںکیلئے شجر ممنوعہ ہوگئیں۔۔۔۔۔۔لگ رہا تھا کہ کہ اب ان سڑکوں پر موجود گاڑیوں میںپھنسے لوگ گھرنہیں جاسکیں گے۔۔۔۔۔۔فوری طور پر ٹریفک پلان جاری کیا گیا لیکن جس شہر کی سڑکوں پر لاکھوں گاڑیاں بیک وقت آجائیں اور جگہ کم پڑجائے تو صرف ''ماسٹر پلان‘‘ ہی یاد آتا ہے ۔۔۔۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں نے بھی اپنا راستہ خود بنایا اور رات گئے سڑکوں کی ''تنگیٔ داماں‘‘ ختم ہوئی۔
کراچی میں جشن آزادی تو چار‘پانچ دن پرانی بات ہوگئی لیکن اس موضوع پر گفتگو ختم نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔کچھ حلقے اِس پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں تو بعض خوشی کا ۔۔۔۔۔۔لیکن ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ اتنا بڑا جشن'' احساس ِتحفظ‘‘ کا کھلا ثبوت قرار دیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔ بعض طبقے اس غیر سیاسی صورتحال کو'' سیاسی ہتھیار‘‘کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور کچھ پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن سیاسی قوتوں نے ابھی تک نہ تو اس پر کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی کوئی ''دل جلا ‘‘جواب دیا ہے۔۔۔۔۔۔ہرطرف خاموشی ہے۔۔۔۔۔۔ عوام جشن مناکر اپنے کاموں پر چلے گئے۔۔۔۔۔۔ قومی پرچموں‘بیجزاوربینروں کی چالیس سالہ خریداری کا ریکارڈ ہجوم اور جوش کے ہاتھوں پاش پاش ہوگیا... اس صورتحال پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار رینجرز کے اہلکار کررہے ہیں‘ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے دلوں میں جو اعتماد کی لہر آئی ہے‘ اس کی واحد وجہ رینجرز کا مسلسل آپریشن اور قانون شکنوں کی کمر ٹوٹ جانا ہے۔۔۔۔۔۔ رینجرز یا آپریشن کے حامی اس ''جشن بہاراں‘‘ کو ریفرنڈم قرار دے رہے ہیں۔ بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کروٹ لے رہا ہے کیونکہ 14اگست کو کراچی میں طبقاتی اور لسانی تفریق نظر نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔کہیں پختون دیوانہ وار ''خٹک رقص‘‘ کررہے تھے تو کہیں ''بھنگڑا ‘‘ڈالا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔کہیں ''ہوجمالو‘‘تھا تو کہیں '' بلوچی لیوا‘‘اپنے عروج پرتھا۔۔۔۔۔۔اور کہیں اردو بولنے والے نوجوان اِن گروپوں کے ساتھ مل کر مزار قائد اعظم کے اطراف کی سڑکوں پر جینز کی پینٹوں میں محورقص تھے۔۔۔۔۔۔ خوشی کا ایک مسلسل سیلاب ہے جو کراچی کے ماضی کو واپس لا رہا ہے۔
کراچی والے بھی عجیب ہیں۔ تاریخ کے جھروکوں سے اِن کا ماضی تودیکھئے۔۔۔۔۔۔ 1958ء میں ایوب خان آیا تو کراچی نے ان کا ''وارم ویلکم‘‘ کیا۔۔۔۔۔۔چند سال بعد پھر بنیادی جمہوریت کے تحت چنائو کا اعلان ہوا‘ کراچی کے عوام کی اکثریت نے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کرکے ایوب خان کو پریشان کر دیا۔۔۔۔۔۔ ایوب خان کے زوال کا وقت آیا تو کراچی مذہبی جماعتوں کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا‘ لیکن ملک بھر میں ذوالفقار علی بھٹو جیت گئے۔ اہلیان کراچی نے ہمت نہیں ہاری۔۔۔۔۔۔ لسانی فسادات ہوئے۔۔۔۔۔۔ بھٹو نے اردو بولنے والوں کو منانے کیلئے سندھ کو دولسانی صوبہ تسلیم کرلیا اور سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان اقتدار کی تقسیم کا فارمولا طے کردیا کہ گورنر اردو بولنے والا ہوگاتو وزیراعلیٰ سندھی بولنے والا۔ 1977ء میں بھی بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اہلیان کراچی نے سکون کا سانس لیا‘ جس کے بعد ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا۔ ابتداء میں اہلیان کراچی کا ان سے کوئی ٹکرائو پیدا نہیں ہوالیکن جب ضیاء الحق سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کی عیادت کے لئے لیاقت میڈیکل اسپتال جامشوروچلے گئے‘ سندھ میں سندھی وزیر اعلیٰ مقرر کیا اور سندھی وزیر اعظم محمد خان جونیجو کوپیر پگارا سے'' اُدھار‘‘ مانگ لیاتو کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ مہاجر قومی موومنٹ کو انہی واقعات کے رد عمل نے طوفانی قوت کے طور پر اُبھارا‘ جس نے تقریباً 25 سے 30 سال تک مختلف مرحلوں پر کراچی میں پائوں جمائے رکھے۔۔۔۔۔ اب 14 اگست کے جشن کو ایم کیو ایم کے خلاف ردعمل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور یہ کہاجارہا ہے کہ'' گزشتہ سالوں میں عوام خوف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے ۔۔۔۔۔۔لیکن اب رینجرز کے تحفظ نے عوام کا اعتماد بحال کیا ہے‘ اس لئے 14 اگست کا جشن اِس قدر شاندار‘ جانداراورچار گُنا بڑا تھا‘‘۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ حقیقت ہے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا فیصلہ اخباری تجزیے اور ٹیلی ویژن کے ٹاک شو کرتے ہیں یا پھرعوام ۔۔۔۔۔۔!!