مولانا فضل الرحمن کا''آپریشن نائن زیرو‘‘ سو فیصد کامیاب نہیں ہوا اور بات اگلے رائونڈ تک ٹل گئی۔ اب بااختیار''جرگہ‘‘ اسلام آباد میں ہورہا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن بہت سے معاملات میں ایم کیو ایم کے ناراض ارکان اسمبلی کو راضی کرنے اورا ستعفے واپس کرنے پر آمادہ کرنے میںضرور کامیاب ہوئے۔ استعفوں سے قبل ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تصادم کے قریب پہنچنے والی کیفیت تھی لیکن استعفوں کے بعد ٹکرائو رک گیا‘ ٹھہرائو آگیا۔ الطاف حسین نے بھی یقین دلایا کہ وہ آئندہ بہت محتاط گفتگو کریں گے اور معاملات کو خراب ہونے سے بچائیں گے۔ لگتا ہے کراچی کے اندر تصادم کی بھڑکتی ہوئی آگ بجھنے والی ہے‘ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اہلیان کراچی بہت سے سیاسی معاملات سے لاتعلق ہوگئے ہیں یا ہوتے جارہے ہیں شہر‘ سکون اور امن کا متلاشی تھا جو اِسے مل گیا ہے۔ یہاں کراچی شہر کی چار ‘پانچ موثرسیاسی قوتوں کو سوچنا پڑے گا کہ اُن سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؟ کراچی عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے اِسے سب سے خطرناک شہر کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ کراچی کو ایک بار پھر اُس کا مقام دلانا پڑے گا تاکہ کراچی شہر تباہی سے بچ سکے۔
مولانافضل الرحمن کا ''کراچی مشن ‘‘جہاں ایم کیو ایم کیلئے ''سیاسی سہارا‘‘ بن گیا اور ایم کیو ایم قومی سیاسی دھارے میں اطمینان سے واپس آتی نظر آرہی ہے‘ وہاں یہ بات قابل تحسین ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی اپنی پارٹی میں شدید مخالفت اور ناراضگی کا سامنا کرکے نائن زیرو پر پہنچے۔ جہاں ان کا گل پاشی سے استقبال ہوا لیکن دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے کچھ زیادہ ''ناراض افراد‘‘ عہدے بھی واپس کرکے چلے گئے۔ مولانا فضل الرحمن جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں وہ ان کو آج نہیں تو کل واپس بھی لے آئیں گے اور معاملات جوں کے توں بحال ہوجائیں گے۔ مولانا کے مخالفین نے کہا کہ ایم کیو ایم علماء کی قاتل جماعت ہے‘ اُن سے پوچھا کوئی ثبوت بھی لائو‘ قاتل کا نام بھی تو بتائو‘ اِس سوال پر خاموشی چھاگئی اور الزام طاقت نہ پکڑ سکا‘ پھر یہ کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمن ''ثالث‘‘ بن کرگئے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ایم کیو ایم کو اپنے گھر پر بلائیں‘ ثالث کسی کے گھر نہیں جاتا۔ لیکن مولانا فضل الرحمن کے حامیوں نے کہا کہ مولانا صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ'' میں زخموں پر مرہم رکھنے جارہا
ہوں‘‘۔ مولانا فضل الرحمن نے فیصلہ کُن اعلان بھی کیا کہ'' میں نائن زیرو بھی جائوں گا اور ایم کیو ایم کے استعفے بھی واپس کرائوں گا‘‘۔ مولانا فضل الرحمن جس گاڑی میں بیٹھ کر نائن زیرو گئے وہ بلاول ہائوس نے فراہم کی‘ ہدایت وزیراعظم میاں نواز شریف کی تھی۔ اِس طرح ملک کی تین بڑی پارٹیوں نے اُن کے ''نیک مشن‘‘ میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اگر ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ نہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کی نائن زیرو پر مذاکرات کی خبر پاکستان کے پورے میڈیا میں پہلے نمبر پر ہوتی‘ لیکن ایک حادثے نے میڈیا کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔
اسلام آباد میں دوسرے رائونڈکی ابتدائی کہانی تو صاف ظاہر کرتی ہے کہ معاملہ حل ہونے جارہا ہے مولانا فضل الرحمن کی وزیر اعظم سے ملاقات اور مطالبات کی فہرست پیش کرنے کے بعد اب اسلام آباد کے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ ''ایم کیو ایم استعفے واپس لے لے گی تین سے چار شرائط بھی مان لی جائیں گی‘‘ بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے براہ راست خطاب پر پابندی ہٹ گئی تو وہ ایسے لیڈر ہیں کہ معاملات کواگر بگاڑ سکتے ہیں تو بنانے کے بھی ماہر ہیں۔
اب اصل کہانی یہ نظر آتی ہے کہ میاں نواز شریف کا سب سے بڑا مشن یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے استعفے منظور نہ ہوں‘ اگر استعفے ''قبول‘‘ ہوگئے تو سندھ میں جب ضمنی الیکشن ہوا توایم کیو ایم کی آٹھ سینیٹ کی نشستوں میں سے سات پیپلزپارٹی کے پاس چلی جائیں گی‘ جس کے نتیجے میں میاں نوازشریف سینیٹ میں مزید کمزور اور پیپلزپارٹی کی طاقت میں اضافہ ہوجائے گا اور نواز شریف قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے ہر قانون یا بل کو سینیٹ سے منظور کرانے میں پیپلزپارٹی کے سامنے بے بس ہوجائیں گے۔ اگر کسی مرحلے پر کراچی آپریشن'' سندھ آپریشن ‘‘میں تبدیل ہوا تو اِس گرمی کی حدت سینیٹ تک محسوس کی جائے گی اور ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم کراچی کے دورے پر تشریف لائیں تو سندھ میں انہیں کوئی ''صوبائی رہنما ‘‘خوش آمدید کہنے کیلئے بھی آنے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ ماضی میں حکومت پنجاب اس قسم کی ناراضگی کا اظہار بے نظیر بھٹو اور سابق صدر زرداری کے ساتھ کرچکی ہے اور اس قسم کی لڑائی کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ''کھائو پیو جمہوریت‘‘ کسی بھی طالع آزما کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتی۔
ایم کیو ایم کے اجتماعی استعفوں کا ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر معاملات خراب ہوئے اور سندھ اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لانا پڑی تو ووٹوں کا توازن اس قدر بگڑسکتا ہے کہ پھر مارشل لاء کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ ہمارے آئین میں ساری مشق سیاست دانوں کو اقتدار کا راستہ دکھانے یانکالنے کی ہے اور جب سندھ آئینی بحران کا شکار ہو تو گورنر راج کی پگڈنڈیوں سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اِن استعفوں پر ایک تجزیہ کار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ''ایم کیو ایم بھی استعفوں کی منظوری کے حق میں زیادہ پرجوش نہیں تھی‘‘ لیکن وہ کچھ مطالبات منواکر واپس آنا چاہتی تھی تاکہ اسے سیاسی میدان میں دوبارہ پائوں جمانے کی مشکلات ختم ہوجائیں اور گم شدہ حیثیت بحال ہوسکے جو ایم کیو ایم نے 35سال میں حاصل کی ہے۔