کراچی آپریشن کی حدت اور شدت سندھ میںاب زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ یہ آپریشن ایسے خوبصورت موڑ پر پہنچ چکا ہے جو کشمیر کی پہاڑیوں کی طرح تصویر میں حسین لیکن اس کاسفر رونگٹے کھڑے کردینے والا ہوتا ہے۔ پہلے ایم کیو ایم نے اپنے بچائو کیلئے کہا کہ یہ آپریشن صرف ہمارے خلاف ہورہا ہے باقی سب کی موجیں ہی موجیں ہیں جس کے بعد جوش وخروش اور ولولے کے ساتھ آپریشن کا رخ پیپلز پارٹی کے کرپٹ افراد کی جانب موڑ دیا گیا۔ اب پیپلز پارٹی بھی خود کو معصوم ثابت کرنے کیلئے یہ واویلا کررہی ہے کہ'' کیا کرپشن صرف سندھ میں ہو رہی ہے‘‘اس جملے کی گرامر تبدیل کی جائے تو مطلب اِس مطالبے کی صورت میں نکلتا ہے کہ ایسا برق رفتار اور پھرتیلا آپریشن تمام ثبوت و شواہد کے پلندوں کے ساتھ پنجاب میں بھی کیا جائے۔ اس فرمائشی مطالبے کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ آپریشن خیبر پختونخوا میں بھی ہونا چاہیے۔ اس مطالبے کے پیچھے ایک بڑی ''سازشی سوچ‘‘موجود ہے جس کی وضاحت کیلئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے شیطانی گٹھ جوڑ کا لفظ استعمال کیا ۔ اس سوچ کے مطابق اگر کوئی ہماری چوری ‘چکاری پکڑنے آئے تو اُسے مختلف محاذوں پر الجھا دیں گے اور پھر تھک ہار کر بے بس ہونے والی اسٹیبلشمنٹ این آر او کی میز پر آکر بیٹھ جائے گی۔ یہ سوچ آئین کی اٹھارویں ترمیم کی آہستہ آہستہ منظر عام پر آنے والی تشریح ہے۔ کیونکہ چور ‘ ڈاکو کسی وزارت کا نام نہیں کہ صوبائی یا وفاقی ہو‘ وہ صرف چور اور
ڈاکو ہوتا ہے۔ اس نے عوام کا پیسہ بے دردی سے لوٹا ہے اسے جواب تو دینا پڑے گا۔ مفاہمت کا دورگذر گیا ۔''تم میری کرپشن پر پردہ ڈالو اورمیں تمہاری‘‘یہ فارمولا اب ''فلاپ‘‘ ہوچکا ہے ۔ آئین میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ صوبائی شناخت کے بعد چوروں اور ڈاکوئوں کو پکڑا جائے اور انہیں وی آئی پی پروٹوکول دیا جائے جس کا مطالبہ سندھ میں کئی اہم لوگ کررہے ہیں۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم میں جس طرح لوٹ ماراور ہیرا پھیری کا کھلا لائسنس دیا گیا ہے اس سے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ اب انہیں کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں‘ وہ جو چاہیں گے کریں گے۔ بعض ماہرین اسے ''آئینی چھتری کے نیچے لوٹ مار‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں اور یہ ایسا ہی ہے کہ آپ رشوت کا نام بدل کر ''تحفہ ‘‘رکھ لیںلیکن اُس کی نسل نہیں بدل سکیں گے وہ رشوت ہی کہلائے گی۔
1973ء کے آئین کی تشکیل کے بعد بھی کہا گیا تھا کہ ہم نے مارشل لاء کو ہمیشہ کیلئے دفن کردیا لیکن اسی ٹیم کے ایک اہم اور زندہ شخص عبد الحفیظ پیرزادہ سے کوئی بھی پوچھ سکتا ہے کہ آئین کے تحفظ کے نتیجے میں احتساب کے بڑھتے دبائوکو کیسے روکا جائے۔ اس قسم کا آئین تو مہذب ملکوں کے غیرت مند لیڈروں کیلئے بنایا جاتا ہے۔ اسی سال جاپان میں ایک وزیر نے صرف اس لئے استعفیٰ دے دیاتھاکہ اخبار ات میں اس کے خلاف کرپشن کی خبریں شائع ہوئیں اور ہمارے ملک میں تو روزانہ پورا خبرنامہ ہی کرپشن نامہ ہوگیا ہے۔ ''عجب کرپشن کی غضب کہانیاں ‘‘اب بھی دل دہلارہی ہیں۔ رات نو بجے سے 12بجے تک کی خبریں کرپشن کے علاوہ کسی موضوع پر نہیں ہوتیں۔ ایسا لگتا ہے کوئی مقابلہ ہورہا ہے کہ ''کرپشن کا کنگ کون؟‘‘۔ چپڑاسی سے افسر ‘ پی اے سے وزیر‘سپاہی سے ایس ایچ او‘ پٹے دار سے جاگیرداراورچور سے چوکیدارتک سب کرپٹ ہوچکے ہیں۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اسے ٹھیک کون کرے گا؟ملک مارشل لاء کا متحمل تو نہیں لیکن احتساب تو ہونا چاہئے۔ پاکستان کوئی کالونی تو نہیںہے کہ کوئی بھی آئے اور لوٹ مار کرکے پیسہ باہر لے جائے۔ ثبوتوں کے ٹرک بھر بھرکر نکل رہے ہیں۔ زمینوں میں دفن اسلحہ باہر آرہا ہے لیکن آپریشن مخالف غراہٹ کی آوازیں ختم نہیں ہوتیں۔
چلئے مان لیتے ہیں کہ کراچی آپریشن ظالمانہ ہے ‘آپریشن کرنے والے اہلکار معزز ارکان کو ''چور ‘‘کہہ رہے ہیں لیکن اگر آپ صحیح ہیں توثابت کردیں۔ عدالت اور دنیا کوبتادیں کہ آپ چور نہیں۔ عدالت میں دو طرفہ موقف سنا جاتا ہے۔ دونوں فریقوں کو موقع دیا جاتا ہے اور ابھی تو موقع بھی ہے ‘سابق مارشل لاء کے مقابلے میںموجودہ آپریشن بہت نرم دل اور رحم دل ہے‘ کوئی سنسر شپ ہے نا ہی کوئی پریس ایڈوائس ‘ نہ لاٹھی چارج ہے نہ ہی بلاجواز گرفتاریاں۔جس نے چوری کی ہے ‘ سرکاری وسائل لوٹے اور سرکاری خزانے میں نقب لگائی‘ وہی پکڑے جارہے ہیںلیکن چور مچائے شور کی آوازیں بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ ایک محفل میں یہ سوال پوچھا گیا کہ دنیا میں اس قسم کے مجرموں کے ساتھ کیا برتائو کیا جاتا ہے؟ کیا انہیں تحفے‘ تحائف دئیے جاتے ہیں؟یا تمغے دئیے جاتے ہیں؟ ۔
جن لوگوں کو گرفتارکیا جارہا ہے ان کے حامیوں کو کم ازکم بولنے کا موقع ضرور دیا جارہا ہے۔ 70سے زائد نیوز چینل کیمرے اور مائیک تھامے انتظارکرتے ہیں کہ کوئی خورشید شاہ جیسابولے گا ۔۔۔۔۔۔لیکن خورشید شاہ صاحب !!آپ اگر تاریخ پڑھ لیں تو 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری پر کسی بھی پی پی لیڈر نے جنگ کی دھمکی نہیںدی تھی ۔ بھٹو فیملی کی خواتین نے کہا تھا ہم قانونی اور آئینی جنگ لڑیں گے۔ بھٹو کو جب پھانسی ہوئی تو اس وقت بہت کم جیالے باہر نکلے جبکہ وہ پیپلز پارٹی کا عروج تھا۔ اس وقت آپ کے قائدذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپنی اپیل کے موقع پر بیان میں کہا تھا کہ''سیاستدان کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو ٹینک کے آگے بے بس ہوتا ہے‘‘سمجھ نہیں آتا کہ خورشید شاہ صاحب اپنے ساتھیوں کو بچانے کی جدوجہد کو غیر قانونی ٹریک پر کیوں لے جانا چاہتے ہیں ؟شاہ صاحب !یہ بھی بتادیں کہ یہ جوش ِ خطابت میں نکلا ہوا جملہ ہے یا ملک میں بچے کھچے سیاسی کارکنوں کو پہلے ہی ہلے میں شہادت کے رتبے پر فائز کرنے کا پلان؟
چین کے عظیم رہنما مائوزے تنگ نے کہا تھا کہ'' ہمارے سرخ پرچم اور تحریک کو دنیا میں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا لیکن ہم ان لوگوں کے سامنے بے بس ہوکر ہارجائیں گے جو ہمارے خلاف سرخ پرچم ہی لے کر آئیں گے‘‘۔
قومی خزانے کی لوٹ مار کیلئے جتنی ''ڈھیل‘‘پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو ملی‘ اتنی کسی کو نہیں ملی۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے۔ کچھ لوگ اسے اقتدار کی ''کرامت‘‘کہتے ہیں تو بعض اسے ویسی ہی ''ڈھیل‘‘قرار دے رہے ہیں تاکہ اُن کی ''چارج شیٹ‘‘بھی ایسی بدبوداربن جائے کہ عوام کو گھن آنے لگے اور وہ ''پنجاب آپریشن‘‘پر بھی کہیں کہ ''ٹھیک ہی تو ہورہا ہے... جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ ماڈل ٹائون کے مقتولین کا لہو اپنا انتقام لے رہا ہے‘‘۔