"ISC" (space) message & send to 7575

’’ڈرٹی پالیٹکس‘‘ اور ’’گٹر سیاست‘‘

پاکستان کی سیاست کو کئی بار ''ڈرٹی پالیٹکس‘‘ کا خطاب ملا۔ کسی نے کسی کو خریدا توکوئی فروخت ہوا، کسی نے اسمبلی کے اندر اپنا خفیہ ووٹ سب کو دکھایا ۔تو کوئی قرآن پاک کی قسم اٹھا کر بھی مکر گیا۔ ہر سیاستدان نے ملک اور اس کے اداروں سے وفاداری کا حلف اٹھایا لیکن پھر انہی اداروں پر چڑھ دوڑا۔ پھرکبھی سیاستدان آئین کی بالادستی کے لیے سڑکوں پر نکلے، احتجاج ہوا، مظاہرے کیے، نعرے لگائے اور پھر اسی آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ کک بیک کے معنی آج بچے بچے کو یاد ہیں تو اس کی وجہ بھی ''ڈرٹی پالیٹکس ‘‘ہی ہے۔ اربوں روپے کے قومی اثاثے اپنوں کو اونے پونے فروخت کرنے کا سلسلہ آج تک نہیں رکا، بلکہ احتساب کے لیے قائم واحد ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ کی تقرری کا اختیار بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو دے دیاگیا۔ اب تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں رہا۔ یہ ہمارے ملک میں''ڈرٹی پالیٹکس‘‘کے بارے میں چند باتیں ہیں، لیکن کسی کو کیا خبر تھی کہ ''گٹرسیاست‘‘بھی اس نسل کو دیکھنے کو ملے گی۔ جب دنیا بائیسویں صدی کے استقبال کے لیے ابھی سے تیاریوں میں مصروف ہے لیکن ہم ''گٹر سیاست‘‘کر رہے ہیں۔ 25سال گزر گئے ہم ''جمہوری تماشا‘‘ کر تے رہے اور انسان کو گھوڑا بنتا دیکھتے رہے جس کو ''ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا خوبصورت نام بھی دیا گیا۔
دو ہفتے قبل کراچی کی ایک اہم شاہراہ یونیورسٹی روڈ کے مکین ‘جامعہ کراچی کے طلبہ اور وہاں سے گزرنے والے مسافر اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے ایک گٹر پر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی تصویر دیکھی۔ کچھ لوگ تو یہ سمجھے شاید وزیر اعلیٰ سندھ نے کوئی نیا منصوبہ بنایا ہے اور تختی کی جگہ تصویر کا فیشن آ گیا ہے، لیکن ایک دو دن میں ہی ''فکس اٹ‘‘کی یہ مہم سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ہر طرف مذاق ہونے لگاکہ اہم شاہراہوں پر گٹر کے ڈھکن کون ''پی‘‘ رہا ہے۔ سائیں بھی ''طیش‘‘ میں آئے اورحکم جاری کیا کہ ''تمام گٹروں پر فوری طور پر ڈھکن لگائے جائیں ‘‘، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ عالمگیر نامی ''فکس اٹ‘‘ مہم کے بانی نے خود گٹر کا ڈھکن لگایا لیکن اس پر بھی قائم علی شاہ کی تصویر تھی۔ جب یہ معلوم ہوا کہ عالمگیر تو تحریک انصاف کا کارکن ہے، تو ''گٹر سیاست‘‘ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ عالمگیر کے خلاف مقدمہ درج ہوا، اس کے دوستوں کو بھی ہراساں کیا گیا، قانون دانوں نے جب جائزہ لیا تو کوئی ایسا سیکشن اور شق نظر نہیں آئی کہ گٹر کے ڈھکن لگانے اور تصویر بنانے پر کوئی سزا دی جائے کیونکہ گٹر کے ڈھکن چوری کرنا تو جرم ہے لیکن گٹر کے ڈھکن کی طرف حکمران کی توجہ مبذول کرانا تو مسئلے کی نشاندہی ہے، اس پر تو ''شکریہ ‘‘ ادا کرنا چاہیے تھا۔ پھر سائیں کی توپوں کا رخ گٹروں کے ڈھکن لگانے کے بجائے ایم کیو ایم کی جانب ہوا۔ وزرا کے بیانات آنے لگے کہ ''گٹر وں کے اندر ریت کی بوریاں ڈالی جا رہی ہیں، سیوریج کا سسٹم جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے، ہماری حکومت کو ناکام کرنے کی سازش ہورہی ہے‘‘۔ یعنی جتنے وزرا اس سے زیادہ باتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گٹروں کے ڈھکن لگانے 
کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اتوار کو خود نکلے اور اپنی نگرانی میں یہ کام کروایا۔ چلیے دیر آید درست آید، لیکن اب وزیر اعلیٰ سندھ بھر کے گٹروں کے ڈھکن خود اپنی نگرانی میں لگوائیں گے تو وزیر بلدیات اورسیکرٹری بلدیات کو فارغ کریں، محکمے کے اُن افسران اور عملے کو برطرف کریں جو وزیر اعلیٰ کا ایک چھوٹا سا حکم بھی نہیں مانتے اور سے موجود بیڈ گورننس کو مزید خراب کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ سب کیوں اور کس کے کہنے پر کررہے ہیں؟
ابھی ''گٹر سیاست‘‘ کی شدت میں کمی ہو رہی تھی کہ سندھ حکومت کے خلاف ''بارش سیاست‘‘ ہوگئی۔ کراچی میں پیر کے روز اچانک بارش نے سب سے زیادہ سندھ حکومت کوحیران و پریشان کیا۔ محکمہ موسمیات کو بغیر بتائے بادل کہاں سے آئے، کیسے آئے اوراچانک برس کر غائب ہوگئے؟ سڑکوں پر تو پانی پہلے ہی ''وافر مقدار‘‘ میں موجود تھا، پھر رہی سہی کسر چند منٹ کی بارش نے پوری کردی۔ اچانک بارش کے دوران سردی میں ٹھٹھرتے صوبائی وزیر بلدیات خواب خرگوش کے مزے چھوڑ کر سڑکوں پر آگئے، ٹی 
وی چینلز کے ڈھیروں مائیک دیکھ کر انہیں جوش بھی آیا، پانی صاف کرایا لیکن دو دن بعد پھر ڈھاک کے تین پات۔
کراچی کے شہری حیران و پریشان ہیں کہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈال دیے پھر انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ عوام پہلے ٹارگٹ کلنگ سے تنگ تھے، پھر بھتہ خوروں نے چین کا سانس نہیں لینے دیا، اسٹریٹ کرائمز نے تو اکیلے جانا اور رات گئے گھومنے کا تصور ہی ختم کردیا، ٹیکسوں کی بھر مار نے جینا محال کیا، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے گاڑیوں کو بھی تباہ کیا اور مسافروں کو بھی اندر سے توڑ پھوڑکر رکھ دیا۔ جو کام نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دور میں ہوئے، اب ان کا ذکر صرف پرانے اخبارات میں ہی ملتا ہے۔ یہ مسائل کم ہوئے تو سیوریج کا پانی ایک نیا مسئلہ بن کر کھڑا ہوگیا۔ بغیر ڈھکن کے گٹر ایک نئی سیاست سکھا رہے ہیں جس کے چرچے پوری دنیا میں ہورہے ہیں۔ اب تو یہ تبصرے بھی ہونے لگے ہیں کہ ''گٹر میں بوریاں ڈالنے کے جرم میں نوے دن کا ریمانڈ بھی لیا جاسکتا ہے‘‘۔ ''گٹرسیاست‘‘ جیسا مذاق کبھی‘ کہیں‘ کسی کے ساتھ نہیں ہوا جو کراچی والوں کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے‘ نت نئے طریقوں اوربے پناہ اذیت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں